پستول نہیں ماحول، گولی نہیں گول میز


پی ٹی ایم اور فوج کے قضیے میں ایک طرف جولوگ فوج کو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں ان پر نام نہاد محبان وطن طعنہ زن ہیں۔ دوسری جانب جو پی ٹی ایم کو قصور وار قرار دینے والوں کے مخالفین کی طرف سے 1971 اور بنگلہ دیش یاد کرایا جارہا ہے۔

ایسے میں ظالم اور غدار کا تعین کیے بغیرمیرے ذہن میں وہ نقشہ ابھرتا ہے جو چند سال قبل ایک امریکی جریدے آرمڈ فورسز جرنل میں شائع ہواتھا۔ دماغ میں سی آئی کے ایک اعلی اہلکار کا انٹرویو چلتا ہے جس میں وہ بلوچستان میں سی آئی اے کے نیٹ ورک کی بات کرتا ہے۔ انڈیا کے اس اعلی عہدیدار کے لفظ گونجتے ہیں کہ کس طرح سے زیادہ پیسہ دے کر مختلف لوگوں کو اپنی طرف کیا جاتا ہے۔ بنگالیوں کی دھوتی چیک کرتے اہلکاروں کی تصویر بھی ذہن میں ابھرتی ہے۔ ان جرنیلوں کی یاداشتوں کی سطریں بھی جنہوں نے بعدازریٹائرمنٹ کسی آرام دہ کرسی پر آتش دان کے سامنے اپنے ضمیر کومطمئن کرنے کی کوشش کی ہے۔

خصوصاً جب جنگ میں جان اور مال کا نقصان واضع دکھائی دے رہا ہو خواہش اور کوشش تو دشمن ملک کو اندر سے کمزور کرنے، اس کے حصے بخرے کرنے کی ہوتی ہے۔ مگر اس خواہش کو عملی جامہ تو دانستہ یا نادانستہ، بلواسطہ یا بلاواسطہ گھرکے لوگوں اور ریاستی اداروں کو استعمال کرکے ہی پہنایا جاتا ہے۔ ماحول انہیں گھر میں ہی بنانا پڑتا ہے۔ یہ بعد کے تجزیے ہیں کہ دریا میں ہے سراب کہ دریا سراب میں۔

اگر آج کے باخبر ذرائع کی موجودگی میں ایک عام آدمی تک بہت سی باتوں کی رسائی ہے تو ملک کے اعلی ادارے اور مقتدر قوتیں ان سے بے خبر نہیں ہونے چاہیئں۔ سیاست اور پارلیمنٹ اسی لئے بنائے جاتے ہیں کہ ملک اور قوم کے چنیدہ نمائندے مسائل پہ غور و خوض کر سکیں، گھر کے جھگڑوں کو اسی چاردیواری کے اندر نمٹا سکیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ جہاں تحمل اور بردباری، متانت و معاملہ فہمی سے مسائل کا تعین اور ان کے حل کی طرف پیش رفت ہونی چاہیے، وہاں بدزبانی اور دریدہ دہنی کے سوا کچھ اور نہیں ہورہا۔ ان ایوانوں میں جتنا اونچا بولو گے اتنے فائدے میں رہوگے، جتنی دلیل دو گے اتنے ذلیل ہوگے۔

پی ٹی ایم پر حملے یا پی ٹی ایم کے حملے جیسے سانحوں کاقصوروار کون ہے؟ اس بحث میں پڑے بغیر، خاکم بدہن ایسے سانحوں کا نتیجہ کہیں تیزی سے نزدیک آتا محسوس ہوتا ہے کیونکہ خواہش کے باوجود نہ میرا مقام شاہ نعمت اللہ ولی، صوفی برکت علی جیسا اور نہ ہی میری قوم کے اوصاف ایسے۔ ان کے مقابل پر مجھے مولانا ابوالکلام آزاد کی ”بدخبریاں“ زیادہ ڈراتی ہیں کہ ان کی پیشگوئیوں مذہب اور روحانیت کا تڑکہ لگے بغیرپوری ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔

بھٹکے ہوئے ہیں، دشمن کے ایجنڈے پہ ہیں، بیان غلط دے رہے ہیں یا ریاست یہ سب غلط سمجھ رہی ہے۔ بہرصورت ہوش اور فراست کی، معاملہ فہمی کی، مسائل کو گولی کی بجائے بات چیت سے حل کرنے کی، میدان کی بجائے میز کو ترجیح دینے والوں، وردی کی بجائے واسکٹ والوں کو آگے آنے کی اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسے ہندوستانیوں کو غلط ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ اب کے گر زلزلے آئے تو قیامت ہوگی۔
دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).