دین میں داڑھی ہے، داڑھی میں دین نہیں


ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ ہم ظاہری حلیہ کو ہی مذہب کے ساتھ منسلک کرتے ہیں۔ ایک شخص جس کے ہاتھ میں تسبیح ہے، سر پہ ٹوپی ہے، شلوار قمیض زیب تن کر رکھے، چہرے کو داڑھی سے پر رونق کر رکھا ہے، ہماری نظر میں وہ مولوی صاحب ہیں یا حافظ صاحب ہیں۔ اصل میں ہم نے اپنے ذہن میں مذہبی حلیے کا خاکہ ہی ایسا بنا رکھا ہے۔ جو کہ سراسر غلط ہے، ہو سکتا ہے ایک شخص جس نے پینٹ شرٹ پہنی ہے، داڑھی کلین شیو ہے، اس کا اپنے رب سے تعلق اور قرب ایسا ہو جو ہمارے گمان میں بھی نہ ہو۔

کچھ دن پہلے اپنے ایک دوست کے ساتھ موٹر سائیکل پہ سفر کرنے کا اتفاق ہوا، ہم لاہور کی نہر والی سڑک سے جا رہے تھے۔ میرے پیچھے بیٹھے دوست نے سڑک پہ تھوک پھینکی۔ برابر سے ایک اور موٹر سائیکل سوار گزر رہے تھے، پاس آکر بولے آپ کو شرم نہیں آتی سڑک پہ تھوک رہے، چہرے پہ داڑھی ہے کچھ تو خیال کریں۔

اب مجھے ایک بات سمجھ نہیں آتی کیا داڑھی کے بغیر سڑک پہ تھوکنا جائز ہو گیا ہے یا داڑھی والوں کو تھوک نہیں آتی؟ ایک بات تو میں تسلیم کرتا ہوں کہ سڑک پہ تھوکنا غلط ہے، لیکن یہ بات بھی واضح ہے کہ وہ دونوں صورتوں میں غلط ہے چاہے داڑھی ہے یا نہیں۔

ایک سائیکل سوار کی بریک خراب تھی، اس کی سائیکل ایک خاتون میں جا لگی، آگے وہ بولی، شرم نہیں آتی آپ کو؟ اتنی بڑی داڑھی ہے منہ پہ۔ اب اسے یہ کون بتائے یہ داڑھی ہے بریک نہیں ہے۔ خدارا جو بات غلط ہے وہ ہر حال میں غلط ہے داڑھی کو درمیان میں نہ لے آئیں۔

یہ بات سر تسلیم خم کرتا ہوں کہ داڑھی رکھنے کے بعد آپ پہ کچھ زیادہ ذمہ داریاں عائد ہو جاتی ہیں، آپ کو داڑھی کی حرمت کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ لیکن سوال میرا یہ ہے کہ غلطی پہ داڑھی کو تنقید کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے کہ داڑھی رکھ کر یہ کرتے ہو شرم نہیں آتی، کبھی یہ تو سننے کو نہیں ملا کہ مسلمان ہو، کلمہ پڑھتے ہو، مسلمان ہو کہ یہ کام کرتے ہو شرم نہیں آتی۔

کیا داڑھی کی اہمیت کلمہ طیبہ سے زیادہ ہوگئی ہے؟

کلمہ طیبہ آپ کے دین کی بنیاد ہے جب کہ داڑھی دین کا صرف ایک جزو ہے، داڑھی ایک سنت ہے۔ بیٹھ کر پانی پینا بھی ایک سنت ہے۔ اب ایک شخص جو بیٹھ کر پانی پیتا ہو اس سے یہ سوال نہیں کیا جائے گا کہ بیٹھ کر پانی پیتے ہو اور سڑک پہ بھی تھوکتے ہو۔ تو یہ سوال داڑھی پہ کیوں؟

آج کل کے دور میں داڑھی کے فیشن ہونے شروع ہو گئے ہیں، مختلف سٹائل بنا کر داڑھی کی حرمت کو پامال کیا جاتا ہے۔ جدت کا تقاضا یہی سمجھا جاتا ہے کہ کس نے کتنی داڑھی خراب کی ہے۔ اگر داڑھی رکھ نہیں سکتے تو اس کا مذاق بھی نہ بنائیں۔ اگر آپ داڑھی کی عزت نہیں کر سکتے تو داڑھی نہ رکھیں کیونکہ داڑھی تو ابو جہل کی بھی تھی۔ ظاہر سے زیادہ اپنے باطن کو خوبصورت کریں۔

اللہ پاک ہمیں داڑھی کی عزت و حرمت کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ابو جہل والی داڑھی کی بجائے حضرت ابوبکر صدیقؓ جیسی داڑھی کی توفیق بخشے۔ ہمارے چہروں کی مشابہت ہمارے پیارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسی ہو۔ آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).