نفاذ شریعت یا مغربی جمہوریت؟


اسلامی مملکتوں میں عام زندگی کے معاملات میں انسانی رویوں پر مذہب کی گہری چھاپ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ فقہا کے نزدیک باقی مذاہب کے برعکس اسلام محض ایک مذہب نہی بلکہ اس کو ایک دین کی حیثیت حاصل ہے جو ہر قدیم و جدید زمانہ میں ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں زندگی کو احسن طریقہ سے گزارنے کے واسطے ہر پہلوکی وضاحت اس جامعیت سے بیان کی گئی ہے کہ کسی بھی اسلامی پہلو کوسمجھنے اور اپنانے میں کوئی سقم باقی نہی رہتا اور اس کے مکمل نفاذ سے کسی بھی انسان کی دنیاوی اور اخروی کامیابی یقینی بن جاتی ہے۔

اگراس بات کو عملی زندگی کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو ذاتی یا شخصی حوالے سے دین اسلام کی مکمل پیروی سے انسانی فلاح ایک یقینی امر ہے کیونکہ اعلی اخلاقیات اور قربانی جیسے فلسفہ پر مبنی اسلامی تعلیمات ہیں جن کو اپنانے سے جسمانی تطہیراور حصول روحانیت ایک لازمی امر ہے اور اگر اس بحث کو طول دینا مقصود ہو کہ دیگر مذاہب بھی تواعلی اخلاقیات کا درس دیتے ہیں تب یہ موضوع ایک الگ مضمون کا متقاضی ہے۔ لیکن ہم فی الحال اس کا اطلاق ریاستی سطح پر کرتے ہیں اور کسی نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اگر اس کامیابی کا جائزہ ریاستی سطح پرنفاذ شریعت کی شکل میں لیا جائے تو بہت سے سوالات اور شکوک وشبہات ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں کیونکہ متوقع نتائج کا حصول کسی انتہائی خوشحال ریاست کی صورت میں نظر نہیں آتا۔ اس کا سبب بظاہر اسلام میں ایسے کسی مروجہ نظام کی عدم موجودگی ہے جس کی بدولت امور ریاست کو چلانے کے لیے انتقال اقتدار جیسے اہم ترین کام کے لیے کوئی موثر ڈھانچہ دیا گیا ہوجس سے وراثتی اقتدار کی منتقلی کو روکا جا سکے۔

ایسے ڈھانچہ کی غیر موجودگی میں دیگر پہلووں مثلا بینکاری، زراعت، تجارت، صنعت کاری، شرح سود، وراثت کے تحت اساسوں کی تقسیم، اقلیتوں سے سلوک اور شرعی سزاوں کے اطلاق اور نفاذ پر کاری ضرب پڑتی ہے۔ کیونکہ جب انتقال اقتدا ر اور حکمرانی کے چناؤ کے لیے ٹھوس اور مربوط نظام نہی ہوگا تو پھر شرعی قوانین کا نفاذ کون اور کیسے کرے گا۔ لہزا اس خلا کوگزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اسلامی ریاستوں میں بادشاہت اور نسل در نسل طرز حکمرانی کی صورت میں پرکیا گیا۔

اس حوالے سے جید علمائے کرام اور اسلامی عقیدت مندوں کی رائے ہے کہ ریاستی امور کو چلانے کے لیے بادشاہت نہی بلکہ شرعی مجلس یا شوری کا قیام ایک لازمی امر ہے جو دراصل اپنے زمانہ کے متقی اور ذہین وفطین لوگوں پر مشتمل کمیٹی کا دوسرا نام ہے جس کی شاید ملتی جلتی شکل پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پایا جانے والاجرگہ کا نظام ہے جو انتقال اقتدار کی بجائے کسی عدالت کی طرز پر فیصلہ سازی جیسے امور نپٹاتا ہے جبکہ شرعی شوری کے برعکس جرگہ کی تشکیل اور اہلیت کا معیار پرہیزگاری سے زیادہ قبائلی اثرورسوخ، ذات وبرادری اور مال وزر سے ہے۔

لیکن یہاں پر بنیادی سوال ہے کہ کسی بھی شوری یا مجلس کے اراکین کے انتخاب کے لیے بھی تو آخر کسی جامع فارمولہ کی ضرورت ہے جس کا معیار اگر محص ذہانت اور دیانت ہے تو اس کو پرکھنے کے لیے کون سا فارمولہ ہے جو ہمیں تاریخی طور پر ملتا ہو۔ اگر اسلامی تاریخ کا ریاستی نظم و نسق چلانے کے حوالے سے مطالعہ کیا جائے تو یہ بات بالکل واضح نظر آتی ہے کہ ایسی شوری کے ہونے کے باوجود بھی انتقال اقتدار کے عدم فارمولہ کی وجہ سے اسلام کے ابتدائی ادوار میں مسلمانوں کے اندر مختلف گروہوں کو پنپنے کا موقع ملا اور خلفاے راشدین کو بہت سی سازشوں کا سامنا کرنا پڑا جس میں تین خلفائے راشدین کے بہیمانہ اور افسوس ناک قتل کے علاہ سانحہ کربلا جیسے اندوہناک واقعہ نے اسلامی تاریخ میں جنم لیا۔

مزی دبراں تاریخی حوالہ جات کے مطابق جنگ جمل اور جنگ صفین جیسی جنگوں کی بدولت ہزاورں انسانوں کی جانیں چلی گئیں اور ان معصوم لوگوں کا خون کس کے سر پر ہے اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ اور پھر وہیں سے شیعہ سنی جیسے باہم مخالف دو بڑے فرقوں نے جنم لیا جن کی بدولت آج تک امت مسلم اندرونی خلفشار کا شکار ہے اس فقہی شگاف یا دراڑ میں اغیارنے ہمیشہ نقب لگا کر صدیوں سے شیعہ سنی کو ایک دوسرے کے ہاتھوں مروایا ہے اور قیمتی انسانی جانیں فقہی اختلاف کی بنیاد پر ضائع ہوئیں اور ہو رہی ہیں۔

اسی طرح اگر دین مکمل تھا تو پھر اسلامی تاریخ میں آئمہ کرام کو کیوں مزید دین کی تشریخ کرنی پڑی اور الگ سے ہر امام کے اپنے اپنے پیروکار آنے والے دنوں میں بن گئے۔ اس کے بعد بھانت بھانت کے مولویوں نے اپنا راگ آلاپا اور عقیدت مندوں کو مزید کئی گروھوں میں تقسیم کردیا۔ اگر دور حاضر پر نظر دوڑائیں تو کیا ایران اور سعودی عرب میں حقیقی شرعی نظام نافذہے جس کو دین اسلام کی مکمل تشریح کے ساتھ اپنے اپنے مسلک کے مطابق ڈھالا گیا ہے؟

یہاں پر بھی واضح طورپر علماکرام کے مابین منقسم رائے ملتی ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں بسنے والا ایک عام مسلمان شریعت کے نفاذ کا خواہشمند تو ہے لیکن جب اس سے پوچھا جائے کہ کون سی والی شریعت اور کون سے والا نظام تو اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ اب سوال یہ ہے کہ مغربی جمہوریت کا اسلام میں کیا مقام اور حیثیت ہے جس کے تحت پاکستان سمیت کئی دیگراسلامی ملکوں میں کچھ اسلامی شقیں آئین میں ڈال کر ریاست کا نظم و نسق چلایا جارہا ہے اگرچہ وہاں جمہوری رویوں کا شدید فقدان پایا جاتا ہے اور سیاسی پارٹیوں پر بھی چند ایک خاندانوں کا قبضہ ہے۔

پھر بھی کیا اس سے دین اسلام کے مقاصد پورے ہوتے ہیں اور معاشرہ کامیابی کی طرف گامزن ہے یا نہیں؟ یہاں بھی جواب نفی میں ملتا ہے۔ حقیقی جمہوریت کے لیے جمہوری رویوں کا ہونا انتہائی لازمی جزو ہے جہاں شخصیت پسندی سے زیادہ کارکردگی اور قابلیت کی بنیاد پر نمایندے منتخب کیے جاتے ہیں بدقسمتی سے اسلامی ریاستوں میں ایسے رویے ناپید ہیں۔ کیونکہ تاریخی طور پر ان ریاستوں پر حکمرانی راجاوں، مہاراجوں اور بادشاہوں نے کی ہے جہاں نسل در نسل اقتدار کی منتقلی جیسا کھیل کھیلا گیا جس میں محلاتی سازشوں کے ذریعے سینکڑوں اور ہزاروں انسانوں کی جان لینے کے بعد اقتدار کی سیڑھی پر چڑھا جاتا تھا۔

مغربی جمہوریت کو مضبوط ہوتے ہوتے چار صدیوں کا عرصہ بیت گیا جہاں انسان کی فکری آزادی کو اولیت حاصل ہے اور لوگ کسی بھی برادری، جنس یا عقیدے سے بالاتر ہوکر اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں۔ مغربی جمہوریت کا دار و مدارتعلیم یافتہ طبقہ اور سیکو لر ریاست کے وجود پر ہوتا ہے جہاں مذہب کو ذاتی حیثیت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اور آئین وقوانین کی اساس انسانی مفادات ہوتے ہیں جن کی کامیابی آج مغربی ریاستوں کی خوشحالی کی صورت میں ہمیں نظرآتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).