اگر پاکستان نہ بنتا تو۔۔۔


بنگال میں مسلم لیگ اور کمیونسٹ اتحادی حکومت کو گاہے بگاہے کانگریس کی طرف سے چیلنج ملتے رہتے ہیں مگر وہ قائم ہے۔ مسلم لیگ کئی مرتبہ بنگال کے صوبے کی دو حصوں میں تقسیم کی کوشش کر چکی ہے مگر یہ کوشش ناکامی سے دوچار ہوتی رہی ہے۔ بنگال میں مسلمانوں کی حالت بقیہ ہندوستان سے کچھ بہتر ہے مگر پھر بھی وہاں خوشحالی صرف ہندوؤں کے مقدر میں ہی لکھِی گئی ہے۔

برطانوی راج کا صوبہ پنجاب اب تین صوبوں میں بٹ چکا تھا۔ مشرقی حصے کو ہریانہ صوبے کی شکل دے دی گئی ہے۔ وسطی صوبے کا نام پنجاب برقرار رکھا گیا ہے اور اس کا دارالحکومت لاہور ہے۔ جنوبی سمت میں بہاولپور کا صوبہ قائم کر دیا گیا ہے جس میں ملتان سے لے کر خیر پور تک کے علاقے شامل ہیں۔ یہاں کسی زمانے میں بڑی زمینداریاں غیر مسلموں کے پاس تھیں، مگر زرعی اصلاحات کے بعد جب جاگیروں کا خاتمہ ہوا، تو یہ علاقہ سستے مزدوروں کی وجہ سے آہستہ آہستہ صنعتوں کا مرکز بننے لگا۔ صنعتوں پر باقی ہندوستان کی طرح غیر مسلم ہی قابض ہیں۔ ہاں گنے چنے سندھی، گجراتی اور چنیوٹی مسلم صنعت کار دکھائی دیتے ہیں۔ پنجاب میں یونینسٹ پارٹی کی حکومت ہے اور وزیراعلی مبشر حیات خان ٹوانہ ہیں جن کی کابینہ میں سکھ اور ہندو اہم وزارتوں پر فائز ہیں۔

لاہور کا شہر بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس کی آبادی اس وقت ڈھائی کروڑ کے لگ بھگ ہو چکی ہے اور یہ بمبئی کے بعد ہندوستان کا دوسرا سب سے بڑا شہر بن چکا ہے۔ آزادی سے قبل ہی لاہور کو ہندوستان کا پیرس کہا جانے لگا تھا کیونکہ ہر نیا فیشن یہیں سے پھوٹتا تھا۔ یہاں کے قہوہ خانے آباد ہیں اور تعلیمی اداروں کی کثرت اسے دوسرے شہروں سے ممتاز کیے ہوئے ہے۔ اب جبکہ دہلی اور لکھنو میں اردو گہنا چکی ہے تو اردو زبان کا مرکز لاہور کو ہی تسلیم کیا جاتا تھا اور یہاں کی زبان سند مانی جاتی ہے۔ کرشن چندر، بیدی، منٹو، کنہیا لال کپور اور بے شمار دوسرے ادیبوں کی روایتوں کا امین یہ شہر اردو ادب کو ایسے مزید نابغے دیتا رہا ہے اور اردو ادیبوں کی نئی جنریشن کا مرکز یہی شہر ہے۔

دوسری طرف فلم نگری میں بمبئی کی ٹکر کا اگر کوئی شہر ہندوستان میں ہے تو وہ لاہور ہی ہے۔ یہاں کے نگار خانوں سے بننے والی فلمیں بمبئی کو چیلنج کرتی ہیں۔ سنتوش کمار، وحید مراد، منور ظریف جیسے بے مثال ہیرو دینے کے بعد بھی یہ روایت قائم رہی ہے۔ شمال مغربی ہندوستان سے دلیپ کمار، دیو آنند، راجیش کھنہ جیسے اداکار اٹھتے تھے، اور لاہور سے سپر سٹار بن کر پورے ہندوستان پر چھا جاتے تھے اور اب تک یہی روایت برقرار ہے۔ لاہور کو ہندوستان کا دل کہا جاتا ہے اور یہ اس ملک کا تہذیبی دارالحکومت تسلیم کیا جاتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے یہاں بھی مسلمان سفید پوش طبقے میں ہی شمار ہوتے ہیں اور باقی ماندہ ہندوستان کی طرح وہ بھی غیر مسلم آجر کے لیے کام کرتے ہیں۔

ہندوستان میں آہستہ آہستہ اردو کا چلن کم ہو رہا ہے اور اس کی بجائے دیوناگری رسم الخط میں ہندی لکھی جاتی ہے، مگر مغربی ہندوستان میں اردو اپنی پوری آب و تاب سے موجود ہے۔ جاگیرداریوں اور ریاستوں کے خاتمے کے بعد مسلمان کمزور ضرور پڑے تھے مگر آزادی کے وقت کل آبادی کا پچیس فیصد مسلمان اس وقت ہندوستان کی کل آبادی کا تیس فیصد بن چکے ہیں۔ ایک ارب چونسٹھ کروڑ افراد کے ساتھ ہندوستان اس وقت دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے جس میں پچاس کروڑ مسلمان بستے ہیں۔

لیکن مسلمانوں کا تجارت، معیشت اور سرکاری ملازمتوں میں حصہ بہت کم ہے اور وہ اچھوتوں کے بعد ملک کا پسماندہ ترین طبقہ ہیں۔ مغربی صوبوں میں ان کی حالت کچھ بہتر ہے۔ ملک میں گاہے بگاہے مذہبی فسادات ہوتے رہتے ہیں لیکن مسلمانوں میں فرقہ وارانہ فسادات بہت کم ہیں۔ ہندو اکثریت کا مقابلہ کرنے کے لیے شیعہ، دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث ایک امت بن کر ان کا سامنا کرتے ہیں اور خوب جانتے ہیں کہ تقسیم ان کو مزید کمزور کرے گی۔ مسلمان علما کی جماعتیں جمعیت علمائے ہند اور سواد اہلسنت سیکولرازم کے داعی ہیں۔

جماعت اسلامی سیاست سے دور تھی۔ اس نے پچاس کی دہائی میں سیاست میں آنے کی کوشش کی تھی مگر شدید ناکامی سے دوچار ہو کر واپس اپنے ابتدائی مشن کی طرف لوٹ گئی ہے اور اس نے اپنے پرانے عزم کا اعادہ کیا ہے کہ ہندوستان کے تمام نام نہاد کاغذی پیدائشی مسلمانوں کو وہ صالح مسلمان بنا دے گی اور اس طرح خود بخود ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہو جائے گی۔ خدا کا شکر ہے کہ مشرق وسطی میں پھوٹنے والی انتہاپسندی کی لہر سے ہندوستان کے مسلمان محفوظ ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہندوستان کی سرکار نے مشرق وسطی سے چندے وصول کر کے انتہاپسند مدرسے بنانے والے افراد کو پنپنے کی اجازت نہیں دی ہے۔

مولانا حضرات کا معاشرے میں وہی مقام ہے جو کہ آزادی سے پہلے تھا اور ان کے پاس کوئی خاص سیاسی، معاشی یا حربی طاقت نہیں ہے۔ مسلمانوں میں مذہبی انتہاپسندی نہیں ہے، ہاں ہندو انتہاپسند جماعتیں مسلمانوں کو تنگ کرتی ضرور پائی جاتی ہیں اور سرکار ان کی حرکتوں پر آنکھیں بند کر لیتی ہے۔

اور راقم الحروف، کہ مسلمانوں کے ایک پڑھے لکھے خاندان سے تعلق رکھتا ہے، اس وقت ضلع روہتک کے قصبے گڑھی اجالے خان کے پرائمری سکول میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہا ہے اور آدھی چھٹی ختم ہوتے ہی دوبارہ جماعت کو پڑھانے پر لگ جائے گا۔ گو کہ اس وقت کچھ تنگی ہے مگر ایک ہفتے بعد سرکار سے تنخواہ ملے گی تو محلے کے بنیے اور مہاجن کا حساب کچھ چکتا کر دے گا اور گھر میں اگلے ماہ کا سودا ڈلوا لے گا۔ بنیا تو بہت ہی بے دید ہوا جا رہا ہے اور کہتا ہے کہ پرانا حساب چکتا نہ کیا تو مزید سودا نہیں دے گا۔ جوتا گو کہ تین سال پرانا ہو گیا ہے مگر موچی سے مرمت کروانے کے بعد چھے مہینے سال مزید نکال لے گا۔ ویسے بھی نیا جوتا تو انسان کو کاٹتا ہے، پرانے جوتے جیسا آرام اس میں کہاں نصیب ہوتا ہے۔

Aug 25, 2016

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments