آزاد پرندوں کی رُکتی نہیں پرواز


رحیم بخش آزاد کوئی ایک جگہ چُپ چاپ بیٹھنے والی اسامی تو تھے نہیں۔ پشاور کے قریب کسی فیکٹری میں کام کرتے رہے۔ وہاں سے کئی بار فون پر بات ہوئی۔ یہ فیکٹری علاقہ غیر میں واقع تھی اور آزاد نے پشتو میں دسترس حاصل کر لی تھی۔ پھر کراچی میں فشر فوک کے ادارے میں کام کرنے والے ایک نوجوان کے ذریعے سے ان کی خیریت معلوم ہونے لگی۔ جب کوئی اور نہیں ملتا تو اسلم خواجہ یہ کام کرتے تھے۔ انہوں نے بڑے فخر سے ایک دفعہ کہا کہ آزاد اسلم خواجہ کا باپ ہے، باپ!

آزاد اس بات کو سُن کر ہنس پڑے۔ اسلم خواجہ نے ذکر کیا تھا کہ آزاد نے اپنی ”آتم کتھا“ لکھنا شروع کی ہے جو کوئٹہ کے کسی بلوچی اخبار میں شائع ہوئی ہے۔ یہ سلسلہ بھی غالباً مکمل نہ ہوسکا۔ اسلم خواجہ نے کئی لمبے انٹرویو ٹیپکیے مگر ان کو تحریر کرنے کی نوبت نہیں آئی۔ وہ آزاد بھی رہے اور نامعلوم بھی۔ لوگوں کے حافظے، تصّور، تخیّل، فریم ورک کو اپنے وجود سے مالا مال کرنے کے باوجود اپنی پوری شخصیت میں ایک نامعلوم اکائی جس کے چند الگ الگ حصّے سب کی سمجھ میں آجاتے ہیں۔ آزاد سے بڑھ کر مجھے اپنے آپ سے ندامت ہے کہ ان کو جاننے، سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کر سکا۔

رحیم بخش آزاد سے جب میری ملاقات کا سلسلہ شروع ہو اتو ان کے بال کھچڑی تھی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے سفید ہوگئے۔ بالوں کی یہ چاندی ان پر خوب پھبتی تھی مگر یہ چاندی بالوں تک ہی تھی۔ جیب میں نہیں۔ وہ بہت خلوص سے ملے اور اندازہ ہوا کہ ان کی طبیعت میں نرمی اور حلم کے ساتھ ساتھ استقامت اور افتخار کا عجیب امتزاج تھا۔ اپنے نظریات میں پکّے تھے مگر دوسرے کی بات سُن لیتے تھے۔ ان کی چال ڈھال اور حُلیے سے پتہ چل رہا تھا، اس لیے وہ نہ بھی بتاتے کہ وہ لیاری میں رہتے ہیں تو اس کی ضرورت نہیں تھی۔

لیاری اور بلوچ ان کی شناخت کا حصّہ تھے۔ زندگی کے بارے میں ان کا روّیہ inclusive تھا، تعصّب کا دور دور تک شائبہ نہ تھا۔ ان کو کسی نے بتا دیا کہ انور احسن صدیقی میرے چچا ہیں تو خاص طور پر مجھ سے ملنے آئے اور مجھ سے کہا، پہلے کیوں نہیں بتایا، وہ تو ہمارے استاد ہیں اور اس راستے پر چلانے والے۔ مگر میں آزاد کوکیا بتاتا۔ انور چچا نے اپنی سیاسی عملی زندگی کے بارے میں ہمیں کم سے کم ہی بتایا تھا۔ خاندانی محفلوں میں اس حوالے سے کم ہی بات ہوتی۔ یہ پہلو مجھ پر بعد میں کسی قدر آشکار ہوئے۔ انور چچا نے اس بارے میں اپنی خود نوشت میں سرسری تذکرہ کرکے آگے بڑھ گئے۔ مجھے یقین ہے کہ رحیم بخش آزاد نے بھی یہی کیا ہوگا۔

بین الاقوامی سیاست ہو یا محلّے برادری کے تنازعات سے عبارت مقامی معاملے، آزاد دونوں کے بارے میں ایک ہی انداز سے بات کرتے۔ لیاری کے مقامی معاملات ان کے نزدیک عالمی سیاست کے اتار چڑھاؤ سے پوری طرح وابستہ تھے اور ان کی باتوں سے یہی معلوم ہوتا تھا کہ ان گلیوں، محلّوں میں ایک بین الاقوامی جدوجہد کا رزمیہ جنم لے رہا ہے۔ اس معرکے میں شریک نہ ہوئے تو زندگی بھر کا موقع ہاتھ سے نکل جائے گا۔ سیاسی بیداری اور سماجی شعور کے ساتھ ساتھ لیاری ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا بھی مرکز تھا اور اس بھنور کی آنکھ میں آزاد پوری طرح موجود تھے۔

ایک بار آرٹس کونسل میں ترقی پسندی کے حوالے سے ن م دانش نے بڑا اچھا مضمون پڑھا مگر کچھ بزرگ ناراض بھی ہوئے۔ میری زبان سے ن م دانش کا نام سُن کر آزاد نے بے حد خوشی کا اظہار کیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دانش کی تعریف سُن کر ان کا سیروں خون بڑھ جاتا ہے۔ اپنی پسند کی کتابوں کا ذکر کرتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں مجھے بتانے لگے، اردو ہم لوگ کا نشہ ہے۔ ادب ہماری چرس ہے!

اردو کی افادیت کا یہ پہلو اور ادب کی پیدا کردہ کیفیت کا ایسا بیان میں نے پہلے کبھی نہیں سُنا تھا۔ مگر آزاد کی زندگی ایسی ہی باتوں سے عبارت تھی۔ ایک مرتبہ انہوں نے مُڑے تڑے کونوں والے پیلے بھورے صفحات والے اخبار، رسالوں کی ایک ڈھیر کی طرف اشارہ کیا کہ وہ ان میں مختلف ناموں سے لکھتے رہے ہیں۔ انہوں نے ان سب کو ترتیب دینے یا اکٹھا کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ ان کے نزدیک حافظہ شاید سب سے بڑا آرکائیو (archive) تھا، یادوں سے بڑھ کرکوئی دستاویز نہیں۔

سنگھو لین میں رہنے والے رحیم بخش آزاد کی طرح لیاری بھی چھوٹی بڑی لہروں کا مجموعہ تھا۔ کتنی ہی ادبی، سماجی، سیاسی محفلیں آئے دن برپا رہتیں، جن میں کئی مرتبہ جانے کا اتفاق ہوا۔ اس وقت سندھی ادبی سنگت کا وہ پروگرام یاد آ رہا ہے جس میں جان خاصخیلی کی دعوت پر شریک ہونے کا موقع ملا تھا۔ جان خاصخیلی صحافی تھے مگر جدید انداز کی نظمیں اور افسانے خوب لکھتے تھے جن کو بڑے سلیقے سے اردو میں بھی ڈھال لیا کرتے تھے۔

ایسی تحریروں کے لکھنے والے اور ان کی داد دینے والے لوگ حاشیے پر بیٹھے ہوئے افراد نہیں تھے۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کہ وہی لیاری اپنی شناخت بدلنے لگا۔ اب لوگ اسے مسلح گروہوں کی اس جنگ کے حوالے سے جانتے ہیں جس کے لیے مرّوج اصطلاح ”گینگ وار“ ہمارے اردو اخباروں کی روزمرہ زبان کا عام فہم حصّہ بن گئی ہے۔ شناخت کا انداز بدل گیا اور آزاد جیسے لوگ اس میں چھوٹے چھوٹے جزیرے بن گئے۔ کیونکہ وہ آخری دم تک اسی آن بان کے ساتھ وہیں زندگی گزارتے رہے۔ ان کو فیض کی شاعری والے مقتل کی ضرورت نہیں پڑی کیونکہ روزمرہ زندگی ان کا مقتل بن گئی تھی۔

لیاری کا نام آتا ہے تو مجھے خیال آتا ہے کہ یہی قسمت اس سے بہت مختلف محلّے عزیز آباد کی تھی جس کے چھوٹے بڑے مکانوں میں متوسط طبقے کے لوگ رہا کرتے تھے جن کی اکثریت نوکری پیشہ تھی۔ گلیاں لوگوں سے آباد تھیں، محلّے داری کا پرانا انداز تھا۔ پھر اس محلّے کا نام اجتماعی جرائم سے جُڑ گیا اور دہشت گردی کے ساتھ ایک ہی سانس میں لیا جانے لگا۔ آسمان تو کیا رنگ بدلتا ہمارے گلی محلوں کے رنگ ڈھنگ بدل گئے۔ اب باقی کراچی کے لوگ لیاری کو رحیم بخش آزاد، ن م دانش، نور محمد بلوچ، جان خاصخیلی اور سانی سیّد سے زیادہ ان خطرناک ناموں سے پہچانتے ہیں جن کے بارے میں پتہ نہیں چلتا کہ ان کا کوئی اصلی نام بھی تھا، وہ زندہ بھی ہیں کہ نہیں۔ اور اگر زندہ نہیں ہیں تو ہر تھوڑے دن کے بعد پولیس مقابلے کی رپورٹ میں اخباری سُرخیوں میں واپس کیوں آجاتے ہیں۔ عاشق اور شہید لوٹ آتے ہیں۔ امر جلیل نے اپنی ایک کہانی کے عنوان میں لکھا تھا۔ لیکن یہ لوگ عاشق ہیں نہ شہید، ہم محض ان کی واپسی کے مجبور گواہ۔

ایسے گواہ جن کے ہاتھ پیر باندھ دیے گئے ہیں مگر آنکھوں میں دم ہے۔ اب یہاں کوئی دوسرا آزاد نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2