آزاد پرندوں کی رُکتی نہیں پرواز


حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔ ان پر یہ مصرعہ ٹھیک بیٹھتا تھا۔ کوئی ان کے لیے پڑھتا تو رحیم بخش آزاد شاید خوش ہوتے۔ اس لیے کہ اس کا پہلا لفظ حق تھا۔ حق جس کی خاطر جدوجہد ان کی زندگی کا دوسرا نام تھا۔ مگر پھر مغفرت کے ذکر پر وہ ہنس پڑتے اور کوئی روکھی بات کہہ جاتے۔ وہ قلمی نام کی حد تک نہیں، صحیح معنوں میں آزاد تھے۔ اسی احساس کے ساتھ اپنی زندگی جیے، پھر شہرت اور نام وری سے بھی اپنے آپ کو آزاد رکھا۔

ان کی زندگی کی غالباً واحد پابندی صحت کی خرابی تھی جو عمر کے ساتھ بڑھتی گئی تھی۔ ان بیماریوں کی خبر ملتی رہتی تھی مگر آخری خبر پھر بھی گہرے صدمے میں مُبتلا کر گئی۔ ایک احساس زیاں جو بہت ذاتی جذبہ بن کر محسوس ہوا۔ ندامت اور خفّت کہ اتنے دن ان سے ملنے اور باتیں کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی، جو کھو گیا اس کا احساس ہو رہا ہے کہ ان سے ملنے کا امکان بھی اب باقی نہیں۔ مگر نقصان کا یہ احساس بھی ادھورا ہے۔ میں ان کی زندگی کے بارے میں جانتا ہی کتنا تھا۔

دو ایک دوستوں نے کالم میں ذکر کیا لیکن میں جو اخبار پڑھتا ہوں اس کے صفحے الٹتا پلٹتا رہا کہ انتقال کی مختصر خبر ہو گی، پھر اس کے بعد تعزیت نامہ جس میں ان کی زندگی اور جدوجہد کی تفصیلات ہوں گی۔ مگر دونوں میں سے کوئی چیز سامنے نہیں آئی۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ کیا رحیم بخش آزاد کا اٹھ جانا اتنی معمولی بات ہے کہ شہر کے حوالے سے خبر بھی نہیں بن سکی؟

رحیم بخش آزاد کو پی ایم اے ہاؤس اور آرٹس کونسل کے سماجی اور ادبی پروگراموں میں دیکھا مگر علیک سلیک سے آگے بات نہ ہوسکی۔ شہر کے مختلف ذیلی سیّاروں کی طرح ہم اپنے اپنے مدار پر گردش کیے جارہے تھے پھر کس اتفاق کے تحت ملاقات ہوئی، یہ یاد نہیں مگر جتنی ملاقاتیں ہوئیں وہ یادوں میں محفوظ رہ گئیں۔ اب خیال آتا ہے کہ 1993 یا 1994 کی بات ہوگی۔ میں نے اقوام متحدہ کے ایک ترقیاتی ادارے میں کام شروع کیا تو ادارے کے تمام منصوبے مجھے اپنے ذاتی مقاصد معلوم ہوتے تھے۔

پولیو کے خاتمے کے لیے حفاظتی ٹیکوں کا پروگرام شروع ہوا تو ہمیں خیال یہ تھا کہ پوری تندہی کے ساتھ کام ہوا اور سماجی بیداری کا ہدف حاصل ہوگیا تو یہ مفلوج کر دینے والی بیماری ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گی۔ پولیو کے بارے میں سماج کے تمام طبقوں کو متحرک کرنے کے غرض سے صحافیوں کا ایک اجلاس بلایا گیا تو رحیم بخش آزاد جلسے کی کارروائی کے بعد رک گئے اور دیر تک باتیں کرتے رہے۔ ان کی واقفیت اور سماجی معاملات میں سوجھ بوجھ بہت متاثر کن تھیں۔

پھر وہ پرانے کلفٹن کے ایک تاریخی مکان میں واقع میرے دفتر میں ملنے کے لیے آئے۔ ایک بار اور کئی بار۔ ان کا تجربہ بھی غیر معمولی تھا اور کام کرنے کی لگن پوری طرح زندہ تھی۔ پورے خلوص کے ساتھ وہ اپنی خدمات ہمارے سُپرد کرنے کے لیے تیار تھے۔ میرے رفیق کار محمد طاہر شیخ اور میں، ہم ان کے اس جذبے سے بہت متاثر ہوئے۔ اس وقت دراصل پولیو کے لیے بین الاقوامی اداروں کی اندھا دھند فنڈنگ نہیں آئی تھی اوریہ منافع بخش کاروبار نہیں بنا تھا۔ ہم میں سے کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ ناواقفیت سے بڑھ کر ناکردہ کاری، نکّما پن اور بدعنوانی ہمارے سماج میں اتنی گہری جڑ پکڑ چکے ہیں کہ بیداری پر مبنی منصوبوں کا مقدر ناکامی ٹھہرتی ہے۔ ہم جتنا آگے بڑھنے کا دعویٰ کرتے ہیں اتنی ہی تیزی سے پیچھے ہٹتے چلے جارہے ہیں۔

باقاعدہ مراعات کے طلب گار لوگ آگے بڑھ گئے تو وہ خاموشی سے الگ ہو گئے۔ ان کے لیے محاذ بہت تھے۔ پھر زندگی کے ایک اور مدار پر رحیم بخش آزاد سے ملاقات ہوئی۔ سماجی تحریک اور شاعری میں بہت کم فاصلہ تھا۔ شاعری ان کی شناخت کا کتنا اہم جزو ہے، یہ شوق اتنا واضح تھا کہ خاص طور پر بتانے کی کبھی ضرورت بھی نہیں پڑی۔ اپنے شہر کی دید و دریافت کی جستجو پھر ایک بار ان کی طرف لے گئی۔ شہر اپنی تاریخ کے جس بدترین دور سے گزر رہا تھا، اس نے شناخت کے بحران کو اور بھی زیادہ شدّت سے نمایاں کر دیا تھا۔

مجھے ایسا لگتا تھا کہ اس کا ادبی اظہار کسی ایک صنف بلکہ کسی ایک زبان میں بھی مشکل ہے کہ یہ داستان سارے چمن میں بکھری ہوئی ہے۔ میرے شاعر دوست شاہ محمد پیرزادہ کے اور میرے سر میں ایسی نظموں، کہانیوں کی تلاش کا سودا سمایا جن سے یہ ٹوٹا ہوا ماجرا ایک بار پھر جڑ جائے۔ پھر ہمیں ان ادبی تخلیقات کے پیش کرنے کے لیے ایک عمدہ جگہ بھی مل گئی جب گوئٹے انسٹی ٹیوٹ نے ہماری تجویز مان لی کہ غیر رسمی طور پر نظمیں اور کہانیاں پڑھی جائیں، الگ الگ زبانوں کے درمیان مکالمہ ہو۔

جرمن ثقافت سے وابستہ یہ ادارہ صدر کے علاقے میں آرٹس کاؤنسل کے چوک کے مقابل واقع تھا، اب وہ عمارت بھی باقی نہیں رہی۔ ہم نے اس سلسلے کو رائٹرز فورم کا نام دیا۔ پہلے پروگرام کے لیے خدا بخش ابڑو نے کارڈ کا ڈیزائن بنایا تھا۔ ہلکے سرمئی رنگ سے ابھرتی ہوئی شبیہہ۔ یہ کارڈ میں نے سنبھال کر رکھ لیا تھا اور میں اپنے بکھرے ہوئے کاغذات سے دوبارہ مل لوں تو یہ کارڈ بھی شاید دست یاب ہوجائے۔ بکھرے ہوئے کاغذات میری طرح کبھی تو جمع ہوں گے۔

اس پروگرام میں رحیم بخش آزاد بڑے ذوق و شوق سے شریک ہوئے۔ بلوچی ادب کے بارے میں ایک مختصر مضمون لکھا۔ اپنی بلوچی نظم کا اردو ترجمہ کیا اور دوسرے بلوچی شاعروں سے بھی متعارف کرایا۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ایسی ہی کسی محفل میں صبا دشتیاری کو بھی لے کر آئیں گے اور ہم ان کی نظمیں ان کی زبانی سن سکیں گے۔ کسی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا، پھر صبا دشتیاری دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ تباہی کے آثار شہر شہر پھیلنے لگے تھے۔

رائٹرز فورم کا سلسلہ زیادہ دن نہ چل سکا حالاں کہ گوئٹے انسٹی ٹیوٹ اس نام سے بعد میں بھی پروگرام کرتا رہا۔ رحیم بخش آزاد ان دنوں ادارۂ امن و انصاف میں کام کر رہے تھے اور مجھے یاد ہے کہ میں ایم اے جناح روڈ کے رمپا پلازہ میں ساتویں منزل پر ان کے دفتر جایا کرتا تھا۔ اس ادارے سے کسی زمانے میں احمد سلیم وابستہ رہے تھے اور انہوں نے اس کے رسالے جفاکش کے لیے سندھی افسانوں کے ترجمے بھی کروائے تھے۔ وہاں اسلم مارٹن بھی کام کر رہے تھے جن کا قیام عیسیٰ نگری میں تھا اور عیسائیوں کی قائم کردہ اس کچّی آبادی کی ”زبانی تاریخ“ میں انھوں نے گفتگو رکارڈ کروائی تھی۔

پھر یہ رمپا پلازہ تمام تر غلط وجوہات کی بنا پر خبروں کا حصّہ بن گیا۔ چند مسلّح افراد نے دن دہاڑے اس دفتر میں گھس کر حملہ کر دیا اور کئی لوگ جان سے مارے گئے۔ ادارۂ امن و انصاف کا نام ہی ایسا تھا، ویران ہوکر رہ گیا۔ اب وہاں نہ امن ہے اور نہ انصاف۔ رحیم بخش آزاد بھی وہاں سے چلے گئے۔ اس عمارت میں اب بھی دفاتر ہیں اور چہل پہل مگر یہ اس شاہراہ کی ان چند عمارتوں میں سے ایک ہے جو بظاہر آباد ہوتے ہوئے بھی میرے لیے وحشت اور ویرانی کا سبب ہیں، تھیوسوفیکل ہال جس میں لائبریری شاید اب بھی کھُلتی ہو۔ اس کے برابر بُک فاؤنڈیشن کے دفتر کی کھڑکی میں ابن انشا کا گول چہرہ نظر آیا کرتا تھا، پھر فہمیدہ ریاض اور چند دن ذیشان ساحل بھی وہاں دفتر جمائے رہے۔ اس کے عین سامنے ریڈیو پاکستان کی قدیم عمارت جو میرے لے درس گاہ کا سا درجہ رکھتی تھی اور اب وہاں جانا بھی مشکل ہے۔

بے گناہ مقتولین کی تصویریں اخبار میں چھپ گئیں مگر قاتل کا سراغ نہیں ملا۔ اعلیٰ حکام بھول بھال گئے اور کراچی کے لوگ بھی آخر اتنے بہت سے واقعات کو کہاں تک یاد رکھیں؟ مجھے یاد ہے ڈاکٹر مصطفیٰ کریم نے رمپا پلازہ کے سانحے پر مبنی ایک خاصا سخت افسانہ بھجوایا تھا۔ وہ انگلستان میں رہتے تھے اور وہاں بیٹھ کر یہاں کے حالات پر کُڑھتے رہتے تھے۔ ان کا یہ طویل، تہہ دار افسانہ میں نے ”دنیا زاد“ میں شائع کر دیا۔ ڈرتے ڈرتے کہ لوگوں کی نظر میں آجائے گا۔ لیکن کسی نے بھی شاید پڑھا نہیں۔ پھر ڈاکٹر صاحب بھی اس دنیا سے رُخصت ہوگئے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2