مریم نواز، لوگ آپ کے ساتھ کب کھڑے ہوں گے؟


جرمن فوجیں تاریخ کی سب سے تیز فاتحانہ یلغار کر رہی تھیں کہ ماسکو آ گیا اور یہ ان کے زوال کانقطہ آغاز ثابت ہوا۔ اس کی کئی وجوہات تھیں جس میں سخت موسم، روس کا انوکھا جغرافیہ وغیرہ شامل تھیں لیکن فوجی تاریخ میں ایک انوکھی چیز پڑھائی جاتی ہے کہ جرمن فوج ڈائریا کا شکار ہو گئی اور مقامی کمانڈر نے یہ مسئلہ برلن لکھ کر بھیجا۔ یہ چھوٹا سا مسئلہ بحران کیوں بنا کیونکہ اگر جرمن اوپن ائیر میں بار بار کپڑے اتار کر حاجت سے فارغ ہوتے تو فراسٹ بائٹ کا شکار ہوتے اور اگر کپڑوں میں ہی فارغ ہوتے تو سخت سردی کی وجہ سے ریشز لگنے کے بعد شدید زخمی ہو جاتے۔ لیکن برلن سے مضحکہ خیز جواب آیا۔ بدقسمتی سے یہ جواب فوج میں پھیل گیا اور مشکل حالات سے لڑتی فوج میں بد دلی پھیل گئی۔

یہ واقعہ مجھے آپ کے حالیہ ٹویٹس پڑھ کر یاد آیا آپ موٹر وے، ایٹمی دھماکے جیسے کارناموں پر بجا طور پر یہ شکوہ کرتی نظر آتی ہیں کہ میرے باپ کو کس گناہ کی سزا ملی۔ دوسری طرف قائد اعظم کی عاق شدہ بیٹی کئی دہائیوں بعد کراچی آئیں تو لوگوں نے ہوٹل میں انہیں گھیر لیا اور عقیدت کے آنسووں سے ان کا استقبال کیا۔ یہ عزت اور احترام دیکھ کر محترمہ دینا جناح بھی آبدیدہ ہو گئیں۔ کیا کبھی آپ نے کبھی اکیلے بیٹھ کر یہ سوچا آپ کے ساتھ ایسا کیوں ہوا۔

موٹر وے میں مہینے میں ایک دو دفعہ استعمال کرتا ہونگا لیکن میرے گھر میں اگر واسا کے پانی میں گٹر کا پانی مکس ہو کر آتا ہے تو یہ میرے لئے روز کا مسئلہ ہے۔ میری اگلی نسل ہیپاٹائٹس کے خطرے سے دوچار ہے۔ یعنی اگر میں مہینے میں ایک دفعہ آپ کو دعا دے رہا ہوں تو تیس دن آپ کو کوس بھی رہا ہوں یقین جانئے فیصل آباد میں آپ کی شکست کی سب سے اہم وجہ یہی رہی ہے۔ ہاں آپ اسٹیبلشمنٹ کو مجرم قرار دے سکتی ہیں لیکن آپ یہ بھی دیکھیں کہ لاکھ لوگوں کے حلقے میں فرق ہزار سے بارہ سو ووٹوں کا تھا۔ اس کا مطلب ووٹ دینے والے اگر اکاون فیصد نہیں تو انچاس فیصد ن لیگ کے گڑھ میں آپ کے خلاف تھے۔

ایک عام آدمی جب اپنے کسی عزیز کو لے کر پرائیویٹ ہسپتال جاتا ہے تو ادھر بھرپور فیسیں بھرنے کے باوجود اسے مشینری نہیں ملتی اور جیب خالی کرنے کے بعد مشورہ دیا جاتا ہے یہ مشین سول ہسپتال میں ہے ادھر سے لٹ پٹ کر جب سرکاری ہسپتال پہنچتا ہے تو چودھویں پندرویں گریڈ کے سرکاری ملازموں کے درشت رویے کا شکار ہوتا ہے۔ پھر رشوت دینے کے باوجود ڈاکٹروں کا غیر ذمہ دارانہ رویہ انسان کو مار دیتا ہے۔ ٹھیک ہے کہ آپ بعض اوقات مریض کی حالت زیادہ بری بتا رہے ہوتے ہیں اور ڈاکٹروں کی نظر میں یا تو مریض بہتر ہوتا ہے یا لاعلاج ہو چکا ہوتا ہے۔ لیکن یقین کیجئے جو آپ کے دل پر اپنی والدہ کی موت پر گزری عام پاکستانی بھی اپنے پیارے کو مرتے اورڈاکٹروں کو جھڑکتے دیکھ کر ایسا ہی محسوس کرتا ہے۔

پھر تھانے کا نظام ہے جو آپ کی پارٹی نے اپنے مخالفین کو سیدھا کرنے کے لیے درست نہیں ہونے دیا۔ ایک عام آدمی رپورٹ کن کن چھلنیوں سے گزر کر کرواتا ہے آپ اس سے کبھی نہیں گزریں۔

آخر میں ٹیکس کا نظام ایک عام آدمی ٹیکس کا فارم بھرنے کی اہلیت نہیں رکھتا اور اگر بھرنے کی غلطی کر دے تو سالہا سال عدالتوں اور نوٹسوں کو بھگتنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ وہ بہتر سمجھتا ہے کہ دس ہزار گورنمنٹ کو دینے کی بجائے پانچ ہزار اہلکار کو دے کر جان چھڑا لی جائے اور ایک سال سکون سے گزارا جائے۔ یہ وہ قیمت ہے جو ہر پاکستانی ٹیکس حکام کی زور آوری سے بچنے کے لیے بھرتا ہے۔ یہ بھی آپ کے والد صاحب کا کام تھا کہ اسے بہتر کرتے۔

اب ملین ڈالر کا سوال ہے اب آپ کو کیا کرنا چاہیے۔ آپ کے آگے ابھی زندگی اور کیرئیر پڑا ہے۔ آپ کو عام آدمی کی زندگی آسان بنانی ہے اگر آپ گلی پکی ہونے کو ہنس کر ٹال دینگی کہ ان چھوٹے لوگوں کی ذہنی اپروچ بس اتنی ہی ہے کہ وہ اتنا ہی سوچ سکیں تو آپ دوسری نواز شریف بنیں گی۔ جو اس امید پر پاکستان واپس آئے کہ میری گرفتاری پر ہمالیہ روئے گا لیکن چند ہزار بندے بھی اکٹھے نہ ہوئے۔ اور اگر آپ گلی پکی نہ ہونے پر اس سسٹم کے ذمہ دار کو لٹکا دینگی تو آپ دوسری بھٹو ثابت ہوں گی۔ اگر اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کر کے حکومت کرنی ہے تو آپ کے بال کھینچ کر ملک بدر کیا جا رہا ہو گا اور پاکستان چپ رہے گا۔ اگر قائد بننا ہے تو اپنے علاج سرکاری ہسپتالوں سے کروانے ہوں گے بچے سرکاری سکولوں میں پڑھانے ہوں گے۔ اس ٰٰزمین پر آنا پڑیگا جس پر پاکستان کے عوام رہتے ہیں۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).