ہمہ یاراں ہینگ اوور


\"aliکچھ دنوں پہلے ریڈ وائن کی فضیلت اور فوائد کے حوالے سے چوہوں پہ کی گئی سائنسی تحقیق کا دوبارہ سے بڑا تذکرہ رہا جس میں ریڈ وائن میں موجود ایک خاص کیمیکل کی موجودگی و اثر انگیزی کی بنا پر اس کے ایک گلاس نوش کر لینے کو ایک گھنٹہ ورزش سے زیادہ مؤثر مانا گیا تھا۔

ہمارے دوست احباب اس اسٹڈی کے پس منظر و تفصیلات سے بے خبر بڑے جوش و خروش سے سوشل میڈیا پر اس کی لنکس شیئر کرتے رہے۔ جسے دیکھ کر ہمیں اپنے مذہبی طبقے کے یار لوگوں کی مسواک سے دانتوں کی صفائی، مٹی کے ڈھیلے سے استنجا، ٹخنوں سے اوپر لنگی یا پائنچے رکھنے اور پانچ وقت وضو اور نماز کے میڈیکل فوائد پر بات کرتے ہوئے در آنے والی مُسرت اور یقین و اعتماد کی کیفیت یاد آگئی۔

اب شعر و ادب میں جام و ساغر و مینا کا عنوان، ساقی سے تخاطب، مے خانے کا ماحول اور پینے پلانے کی عادات اور واردات قلبی کا تذکرہ نیا نہیں ہے، کلاسیکی فارسی اور اردو ادب ان تشبیہات و استعاروں سے بھرا پڑا ہے۔ لیکن برصغیر کے ادیبوں، شاعروں اور مارکس وادی سیاسی ورکروں کی بلا نوشی کا معاملہ ایک لاینحل معمہ رہا ہے۔ اس رجحان کےنفسیاتی و عمرانی اسباب کے تجزیئے کی ضرورت کا اظہار تو قراۃ العین حیدر المعروف عینی آپا بھی کرتی رہی ہیں۔

کچھ مارکس وادی احباب تو جب شراب کی کمیابی اور اس کی دستیابی میں حائل رکاوٹوں، پولیس کے تعاقب، اور بیچنے والوں کی مخبریوں کا تذکرہ کرنے بیٹھتے ہیں تو ستّر و اسّی کی دہائی اور اس سے قبل کے ادوار میں کمیونسٹ لٹریچر کی دستیابی، فراہمی و ترسیل کے لئے پیش آنے والی دقّتوں اور پرانے کمیونسٹوں کو اپنی صفوں میں موجود مخبروں کے ہاتھوں پیش آنے والی مُشکلات کا منظر نظروں کے سامنے گُھوم جاتا ہے۔

\"Gabrial\"پھر یہ ایک عمومی تاثر ہے کہ شاید تخلیقی عمل کا بلانوشی سے یا خراب حالوں سے کوئی خاص ربط ہے، اور شاید خود کو برباد کر کے دیکھنے سے غم جاناں وغم جہاں کے بیچ کے مراحل سر ہوں گے۔ اسی لئے جب ہم نے فن فکشن نگاری پر نامور مغربی ادیبوں کے دی پیرس ریویو میں چھپے کئی دہائیوں پر محیط انٹرویوز کے اردو تراجم پڑھنا شروع کئے تو گبریل گارشیا مارکیز (جو یقیناً کسی تعارف کا محتاج نام نہیں ہے) کی ایک سوال میں کہی گئی بات بڑی معنی خیز لگی، مارکیز کہتے ہیں، \”بُرے قاری مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا اپنی بعض کتابیں لکھتے وقت میں منشیات کے زیر اثر تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں ادب اور منشیات کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں۔ اچھا ادیب ہونے کے لئے تحریر کے ہر لمحے میں دماغ بالکل شفاف اور صحت مند ہونا بہت ضروری ہے۔ میں لکھنے کے اس رومانی تصور کے بہت خلاف ہوں جس کی رو سے لکھنا قربانی ہے، اور اقتصادی حالات یا جذباتی کیفیت جتنی خراب ہو، نگارش اتنی ہی اچھی ہوگی۔ میرے خیال میں آدمی کو لکھنے کے دوران بہت نفیس جذباتی اور جسمانی حالت میں ہونا چاہئے۔\”

وہ فاکنر کے بارے میں ایسے ہی تاثر کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ فاکنر گو شرابی مشہور تھا، لیکن اس نے اپنے ہر انٹرویو میں کہا ہے کہ اس کے لئے نشے کی حالت میں ایک سطر بھی لکھنا ناممکن تھا، اور ایسی ہی بات وہ ہیمنگ وے سے بھی منسوب کرتا ہے۔

ہم نے پشتو کے شاعر غنی خان کے جماعت اسلامی پشاور کے امیر کو مخاطب کرتے ہوئے لکھے گئے شعر پڑھے تھے جس کے ابتدائی شعر میں وہ کہتے ہیں کہ تمہارا سجدہ ریز ہونا اور میرا شراب کا جام بھرنا، دونوں فرار کی جستجو ہیں۔

\"redیہ راز تو ہم پر بعد میں کھلا کہ جس طرح جماعت اسلامی کا لٹریچر نماز کو بندہ و مولا کی گفتگو، عشق و عقیدت کے اظہار اور روحانی کیفیت و سرور سے بڑھ کر نظم و ضبط، سیاسی ڈسپلن اور اطاعت امیر کی مشق قرار دیتا ہے۔ اسی طرح سے ترقی پسندوں کا ایک بڑا حلقہ شراب نوشی کو فرار کی راہ کے بجائے دقیق فکری مباحث میں مستغرق ہونے کا نقطہ آغاز اور اس غرض سے تشکیل پانے والےحلقہ احبابِ خاص میں داخلے کی سند گردانتا ہے۔

ہم ٹھہرے گلی کے نکڑ سے دانش اخذ کرنے والے، جنہیں نہ دقیق موضوعات کی سمجھ ہے، نہ ایسی سخن آرائیوں کا سلیقہ سو پشتو کے ایک شاعر کے بقول \’دا دے مومن بہ دشرابو نہ شوملے خواخی وے\’ (اس مومن کو شراب سے زیادہ لسّی پسند تھی) پر عمل پیرا ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments