اپنے سائے کی پہچان – پیرزادہ سلمان کی شاعری کے ساتھ


نظام الدین

میں اب تھک گیا ہوں

تھک گیا ہوں

یہ دیکھو

گھر بدلتے، رزق چُنتے، راہ تکتے

تھک گیا ہوں

چھتوں پر رقص کرتے، آہ بھرتے زیست کرتے

تھک چکا ہوں

میں اب تھک چکا ہوں

تھکتے تو خیر صوفی سنت بھی ہوں گے، اس تماشے کا حصّہ بنے بغیر، شاید اس تماشے کو دیکھتے دیکھتے۔ لیکن پیرزادہ سلمان کی یہ چھوٹی سی کتاب ہمیں نہ تو اپنی تھکن کا قصہ سناتی ہے، نہ اپنے اس نا مبارک زمانے کی تھکن کا۔ ہمارے اس عجیب و غریب زمانے کی طرح، مٹھی بھر نظموں، غزلوں، سہ سطریوں کی یہ کتاب بھی کچھ جاگتی ہوئی، کچھ سوئی ہوئی دنیا سے پردہ اٹھاتی ہے۔ اور ایک ایسے پیرائے میں جسے ہم صرف اپنی اور اپنے وقت کی آگہی کا نام دے سکتے ہیں۔ ایسی غم آلود اور خود آگاہ نظمیں غزلیں اس عہد کے بس گِنے چُنے شاعروں کے یہاں ملیں گی۔ غمگینی اور اداسی میں وہ جو ایک طرح کی خود کار اور اندر سے پھوٹنے، رونما ہونے والی غنائیت ہوتی ہے، سلمان کے اشعار اور اظہاریے، اُس سے لبالب بھرے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ایک قرات (ریڈنگ) سے میری تشفی نہیں ہوئی۔ یہ چھوٹی چھوٹی ہر طرح کی ہاﺅ ہو اور گریہ و بکا سے، شور شرابے اور فکری طنطنے سے آزاد نظمیں، اور بالعموم چھوٹی بحروں میں سہل ممتنع سے متّصل زمینوں میں کہی جانے والی غزلیں میں نے بار بار پڑھیں۔ اور انھیں ایک بار پھر پڑھنے کے ارادے کے ساتھ اپنے سرہانے رکھ دیا۔

اچھی شاعری جو لمبی عمر پا سکے، اس کی ایک عام خوبی یہ سمجھی جاتی ہے کہ وقت کے حصار سے وہ آزاد ہو۔ مختلف زمانوں اور زمینوں کو جو عبور کر سکے۔ جو صرف اپنے معاشرتی تشخص کی پابند نہ ہو۔ بے شک ، دنیا کی بہت سی گہری اور اعلامرتبت شاعری میں یہ وصف پایا جاتا ہے۔ لیکن یہ بات جتنی عام اور معروف ہے، اُتنی ہی یک سطحی بھی ہے۔ اس کا مطلب یہ تو نہیں نکالنا چاہیے کہ شاعری اگر اچھی ہو گی تو اپنے وقت سے لامحالہ کوئی سروکار ہی نہ رکھے گی۔

شاعری، ادب اور آرٹ کا کوئی بھی مظہر نہ تو اپنی تخلیق کرنے والے کی شخصیت سے بے تعلق رہ سکتا ہے، نہ اپنے وقت سے۔ سلمان نے اپنی شاعری کا سرنامہ اگر ”وقت“کو بنایا ہے تو کچھ سوچ سمجھ کر ہی بنایا ہوگا۔ اس کے واسطے سے ہم ایک شخص پیرزادہ سلمان نامی تک تو پہنچتے ہی ہیں، اس شخص کا محاصرہ کرنے والے وقت سے بھی ہم کلام اور متعارف ہوتے ہیں۔ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک حساس شہری اور سماجی مبصّر بھی نظر آتا ہے۔ شخصی سطح پر یہ شاعری ایک منفرد قسم کی مجنونانہ شدت رکھتی ہے اور یہی شدت شاعر پیرزادہ سلمان کے مجموعی اظہار اورعمل کو اس کی منطق فراہم کرتی ہے۔

محبت، موت اور دنیا بیزاری کی بہت نجی اور وجودی (Existential) تصورات سے اسے ہم کنار کرتی ہے۔ خسارے کے ایک کبھی نہ ختم ہونے والے احساس سے اور ابتری کے ایک مسلسل تجربے سے اس شاعر کو بار بار قریب لاتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ شاعر جس شہر، جس دیس اور دنیا میں اپنے دن گزار رہا ہے یا جس موسم اور ماحول میں زندگی خود اس شاعر کو گزارتی ہے، سلمان نے اس زندگی اور زمانے کے قرض کی ادائیگی سے ذرا بھی غفلت نہیں برتی ہے۔ اس مجموعے میں محمود درویش (ایک اور دو) ، اس شہر میں، وقت جیسی کئی نظمیں اسی طرح کے تاثرات پیدا کرتی ہیں۔

سلمان کی غزلوں اور سہ سطریوں کے جس پہلو نے مجھے اپنی طرف کھینچا، وہ ایک دھیما دھیما سا، خود کلامی کے جیسا انداز ہے، ایک شخص کی مہم جوئی کی روداد سے مماثل، جسے اچھی طرح سمجھنے کے لیے ہم شیکسپیئر کے المیوں میں پروئی ہوئی آپ بیتیوں کو یا انسانی فطرت کے اس بے مثال فیاض اور رمز شناس کی کسی معروف ”آپ بیتی“ کو یاد کر سکتے ہیں۔ زندگی کے سفر میں کئی موڑ آئے جب ان خود کلامیوں (Soliloquies) نے بڑھ کر ہاتھ تھام لیا۔

اک عذاب غم دنیا تھا ہنر

شعر دنیا کو سناتے کب تک

ہم تو دنیا کے کبھی تھے ہی نہیں

تو بھلا اس سے نبھاتے کب تک

کسی وحشی کا خواب ہے دنیا

مستقل ایک عذاب ہے دنیا

ہوتی بے رنگ گر بھلی ہوتی

ہے غنیمت خراب ہے دنیا

ایسے بھی ہوتے ہیں سہارے

اک دریا اور تین کنارے

اس جہانِ کُہنہ میں ڈھونڈتا نیا کیا ہے

لوگ تک وہی ہیں سب ابر کیا ہوا کیا ہے

جال ہے یہ مکڑی کا اور کچھ نہیں، پھر بھی

ہاتھ کی لکیروں میں دیکھ تو لکھا کیا ہے

چاہتا میں بھی تھا کہ مر جاتا

مر کے یارو مگر کدھر جاتا

رات بیتی نہیں تھی صدیوں تک

ایک دن ایسا بھی گزارا تھا

یہ سیّال ، آبی رنگوں سے بنی تصویریں دیر تک ساتھ رہیں گی!

ایک ایسے وقت میں جب ایک ایک کرکے ساری دیواریں ڈھیتی جا رہی ہیں اور سہارے ٹوٹتے جاتے ہیں، سنبھالا لینے کی صورت کیا ہے؟ شاید صرف ادب اور آرٹ۔ غالباً یہی ہماری راہِ نجات ہے۔ میں نے یہ سبق وان گاف کی تصویروں، ملک آرجن منصور کے گامن اور اپنے بزرگ ہم عصروں میں ٹائمز آف انڈیا کے سابق (مرحوم) مدیر شام لال کی تحریروں سے سیکھا جو ایک زمانے تک ’لائف اینڈ لیٹرز‘ کے عنوان سے ایک کالم بھی لکھتے رہے۔

اپنے پیشے کے لحاظ سے پیرزادہ سلمان بھی صحافی ہیں۔ مجھے ادب بنام صحافت کے قضیے سے دل چسپی نہیں ہے۔ دونوں کا حق ایک ساتھ نبھایا جا سکتا ہے کہ بہ قول سارتر، جب وقت کا مطالبہ ہو، کسی ادیب کو پمفلٹ بازی سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے۔ سلمان کے سامنے بھی یہ دوراہا کُھلا ہوا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ یا تیسری، چوتھی دنیا کا وہ علاقہ جو ہمارے حصّے میں آیا ہے، اُس کا حال ایسا نہیں کہ صرف ادب اور آرٹ کی محبت کے سہارے زندگی گزاری جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).