پی ٹی ایم کا کیا بنے گا؟


بحیثیت اک پنجابی، جب بھی بلوچ اور پشتون معاملات پر لکھا، بلوچ اور پشتون دوستوں کی جانب سے اکثریتی تبریٰ ہی موصول ہوا۔ لِکھ اور بول اس لیے دیتا ہوں کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں رگڑا کھانے اور بسا اوقات اپنی جان سے بھی چلے جانے والوں میں سے اکثریت مجھ جیسا ہی غربت، محرومی اور اک مسلسل کوشش کا سا پس منظر رکھتی ہے۔ بحثیت پنجابی قوم کے اک فرد، میں بلوچوں اور پشتونوں سے اگر کوئی تعلق نہ بھی بنا پاؤں، تو مارکسسٹ نظریہ یہی کہتا ہے کہ خود کو ایک ہی قوم کا فرد سمجھنے کے لیے سماجی، معاشرتی اور معاشی حوالہ جات کے مشترکات ہی کافی ہوتے ہیں۔

میں پی ٹی ایم کا پچھلے سال مارچ۔ اپریل سے ناقد ہوں، جب یہ محسود تحفظ تحریک سے پشتون تحفظ تحریک بنی تھی۔ خیال تھا کہ یہ تحریک بہت جلد حقوق کے کچے راستے سے ہوتی ہوئی، قوم پرستی کی سرنگ سے گزرے گی، اور بالآخر نسل پرستی کی کھلی سڑک پر دوڑنا شروع کر دے گی۔ پچھلے برس اسی موضوع پر پاکستان چھوڑ دینے والے دو دانشوروں سے اک گفتگو میں ٹاکرا ہوا تو اپنی اوپر بیان کردہ فریم ورک شئیر کرنے کے بعد، رائے دینے سے گریز کیا اور کہا کہ میں اک برس انتظار کروں گا۔

پی ٹی ایم کا اگر حقیقت میں جائزہ لیا جائے تو بہت ہوا تو یہ قبائلی ہمدردیوں اور انہی روابط پر استوار اک مختصر گروہ ہے جس کی پشتون شہری علاقوں میں پذیرائی نہ ہونے کے برابر ہے، اور زیادہ شوروغوغا سوشل اور بین الاقوامی میڈیا پر ہے۔ جلسے عوامی حمایت کی دلیل نہیں ہوتے۔

پاکستان کی آبادی کا تقریبا 18 ٪ پشتون ہے۔ جو کم و بیش چار کروڑ افراد بنتے ہیں۔ ان چار کروڑ میں سے تقریبا بتیس لاکھ، ان سات اضلاع میں رہتے ہیں، جو پہلے فاٹا کی سات ایجینسیاں تھیں۔ ان بتیس لاکھ میں، شمالی و جنوبی وزیرستان کے دونوں علاقوں کی مجموعی آبادی گیارہ سے بارہ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔

ایسا نہیں کہ یہ بارہ لاکھ اک بہت بڑا لشکر ہیں، جو پی ٹی ایم کی اک کال پر اٹک کے اس پار بغاوت کرتے ہوئے دوڑے چلے آئیں گے۔ کیونکہ، خود ان بارہ لاکھ میں مختلف قبائل اور قوموں کے درجنوں رنگ ہیں۔ ان میں سے کئی رنگ، اپنے جدا رہنما بھی رکھتے ہیں جو محترم منظور محسود، محترم علی وزیر اور محترم محسن داوڑ صاحبان کے بیانیہ، طریقہ اور تشدد کے بارڈر لائن پر موجود، جذباتیت سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ مگر سوشل میڈیا کے کھوکھلے خلاء میں موجود نہیں، اور بین الاقوامی جرائد کو مصالحے دار انٹرویو دینے کی عادت میں بھی مبتلا نہیں، تو لہذا، انہیں کوئی نہیں جانتا۔

اس ساری رنگا رنگی میں سے پی ٹی ایم کے ایسے جذباتی ہمدردان کی تعداد بہت کم ہو گی جو نسل پرستی کے موجودہ مدہم اور خدانخواستہ آنے والے بھڑکیلے تشدد میں ہراول دستے کا چارہ بننا چاہیں گے۔ مدہم یا بھڑکیلا، اس تشدد کا سب سے زیادہ نقصان خود پشتونوں کو ہی ہوگا، اور یہ جاننے کے لیے آپ کو آئن سٹائن ہونا ضروری نہیں۔

بنیادی طور پر پی ٹی ایم اک مختصر اور محدود اثر رکھنے والا گروہ ہے، جس نے پسماندہ علاقوں میں رہنے والے پشتون نوجوانوں کے عمومی محرومی کے جذبات کو اِنہی دو علاقوں میں جاری تشدد کی لہر کے ساتھ جوڑ کر اس پرانے مردہ بیانیے کو زندہ کرنے کی کوشش کی، جسے پشتون قوم پرست جماعتیں اور رہنما کم و بیش بیس سے پچیس برس پہلے ترک کر چکے ہیں۔ ترک اس لیے کر چکے ہیں کہ بحثیت سیاستدان، انہوں نے پاکستان کی وفاقیت میں اپنے لوگوں کے مفاد کے لیے سیاسی جدوجہد کرنے کو بہتر پایا۔ وگرنہ، احباب تو جلال آباد سے پشاور، سرخ ٹینکوں پر بھی بیٹھ کر آنا چاہتے تھے۔

پی ٹی ایم کے معاملہ پر ریاست نے صبر کا مظاہرہ کیا، اور موجودہ حالات اب پی ٹی ایم کو اس نہج پر لے کر آ چکے ہیں کہ اس سے آگے جانا ان کے لیے ممکن نہیں۔ حالات کو اس نہج پر لانے میں پی ٹی ایم کے رہنماؤں کی لاپرواہ جذباتیت کا بھی اک بڑا کردار ہے۔ اور اب وہ اپنے مجاہدانہ امیج کی غلامی میں اک بند گلی کے آخری سرے پر کھڑے ہیں۔ ان کے پاس بارہا کئی مواقع آئے کہ وہ دانش کا مظاہرہ کرتے اور اک درمیانی رستہ تلاش کر پاتے۔ مگر ارسطو کے ٹریجک ہیرو کی اک نفسیاتی تحلیل کے مطابق، عین اسی امیج کے قابو میں آ گئے، جو ان کے خیال میں ان کے قابو میں رہنے کے لیے تھا۔

تمام تر گرمی کے باوجود، ریاست کو پی ٹی ایم کو اک قابلِ قبول رستہ ایسا دینا چاہیے کہ ان کے رہنما، اپنی حریت کے امیج کے ساتھ انفرادی طور پر سر اٹھا کر چل سکیں۔ پی ٹی ایم کے وجود کی کوئی دلیل باقی اس لیے بھی نہیں رہی کہ ان کے دو ممبران قومی اسمبلی موجود ہیں جو بہتر فہم و سیاست کے ساتھ اپنے علاقوں کے لیے عمدہ فوائد کشید کر سکتے ہیں۔ ریاست سوشل اور بین الاقوامی میڈیا پر بنائے ہوئے مجاہدانہ امیج اور معاشرتی شورش پر بنیاد کرتی کسی سماجی تحریک کے سامنے نہیں جھکے گی۔ اگر جھکتی ہے تو اس اک مثال قائم کرے گی، اور ریاست ایسا نہیں کرے گی۔

موجودہ حالات میں پی ٹی ایم کے پاس ترپ کے پتے باقی نہیں۔ اس تحریک کا کوئی مستقبل نہیں اور اس میں سے کسی خوبی کی برآمدگی مشکل تر ہے۔ یہ اپنا نقطہءعروج دیکھ چکی ہے، مزید ممکن نہ ہو پائے گا۔ سب کچھ کہے سنے کے باوجود، ریاست کو اک یہ قضیہ اک باعزت طریقے سے اک منطقی انجام کی جانب لے کر جانا چاہیے۔

آخر میں، میں اپنے طبقے کے لوگوں سے کہتا ہوں کہ محفوظ کمروں میں بیٹھے ”بارلے دانشوروں“ کی ہلاشیری میں مت آئیے۔ ان کی پیٹ بھری اکثریت، سوشل میڈیا پر بنے اپنے امیج کی غلام ہے۔ آپ کی زندگی سوشل میڈیا کے کھوکھلے خلاء سے باہر، حقیقت کے منطقے میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).