اے چاند یہاں نہ نکلا کر


میں نے زندگی میں دو ہی بار چاند کے نکلنے کا بے چینی سے انتظار کیا ہے۔ پہلی بار جب ہم جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن ماسٹرز کے طلباء عبدالولی خان یونیورسٹی مردان سے ہزارہ یونیورسٹی سٹڈی ٹور پر گئے تھے تو وہاں سے پھر سیروتفریح کے لئے ہزارہ سے آگے تھوڑے فاصلے پر ڈاڈر کے مقام پر پہنچ گئے۔ ڈاڈر ایک بہت ہی خوبصورت اور سرسبزعلاقہ ہے۔ بلند و بالا پہاڑوں پر اونچے درختوں اور اردگرد جھاڑیوں میں کِھلے کچھ جنگلی پھول جو اپنے اردگرد تتلی کے لمس سے بے پرواہ ہوکر شاید مسافروں کو آتا جاتا دیکھ کر ہی کَھل اٹھتے ہوں، نے اس علاقے کو ایک منفرد حسن بخشا ہے۔ جس جگہ ہم رُکے تھے وہاں پر ذہنی مریضوں کی بحالی کے لیے حکومت نے ایک مرکز بھی قائم کیا ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اس علاقے کا پرسکون ماحول ان مریضوں کی بحالی کے لیے بھی موزوں ہے۔

یونیورسٹی کی طرح ٹرپ پر بھی میں اپنے جگری دوست عاصم علی شاہ (لالے ) کی صحبت میں تھا۔ ضلع ہزارہ دیکھنے کا یہ میرا پہلا موقع تھا، البتہ عاصم علی شاہ نے کئی بار ہزارہ کے مختلف علاقوں کا سیر کیا تھا۔ لالے کے کہنے پر ہم اپنے قیام گاہ سے آگے خالص قدرتی حالت میں سرسبز پہاڑوں کے بیچ شفاف پانیوں کی سحر انگیز چھوٹے سے دریا کے کنارے پہنچ گئے۔ جہاں بلندوبالا پہاڑوں سے گرتے آبشار اور درختوں پر بیھٹے کوئل اپنے سریلی آوازوں میں محبت کے گیت گا رہے تھے۔ جونہی میں نے پہاڑوں کے بیچ بہتے ہوئے اس دریا کو دیکھا تو میرے ذہن پر عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی اور بے ساختہ ہو کر منہ سے فَتَبَارَکَ اللَّھُ أَحْسَنُ الْخَالِقِینَ نکلا۔

ہر طرف قدرتی مناظر جنت کا منظر پیش کررہاتھا۔ ابھی شام ہونے میں وقت رہتا تھا لیکن گھنے جنگلوں اور بلند پہاڑوں کی وجہ سے تاریکیاں شام سے پہلے پھیل چکی تھی۔ ٹرپ پر آئے باقی لوگ یونیورسٹی بس کے قریب دوستوں کے واپس آنے کا انتظار کر رہیں تھے کہ جلدی آئیں واپس جانا ہے۔ لیکن میرا دل واپس جانے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا میں نے قدرت کے ہر اک کرشمے سے الگ الگ مزہ لیا لیکن ابھی میرا جی بھرا نہیں تھا۔ میری خواہش تھی کہ کب ان پہاڑوں کے بیچ چاند نکل آئے اور اس سارے ماحول کا مزہ دوبالا ہوجائے۔ ابھی ہم آپس میں باتیں کر ہی رہے تھے کہ اللہ تعالی نے میری دل کی صدا سن لی اور ہمارے سامنے والے پہاڑوں میں سے چاند نکل آیا۔

اندھیرے میں پہاڑوں کے بیچ آسمان پر چاند کا نظارہ کرنے کا مزہ ہی الگ تھا۔ اس چودھویں کے چاند کی روشنی میں اردگرد کا ماحول اتنا صاف دکھائی دے رہا تھا کہ شہر کی رنگیں بتیاں اور ان سے نکلنے والی مصنوعی روشنیاں کسی بھی صورت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی۔ اب میں کبھی چاند کو دیکھتا تھا تو کبھی پہاڑوں کو، کبھی اونچے درختوں کو، تو کبھی دریا کو جس کے بہتے پانیوں کے شور نے ایک عجیب سکون والا کیفیت طاری کی ہوئی تھی۔ یہ منظر میری زندگی کی سب سے حسین لمحوں میں سے ایک تھا۔

دوسری بار جب میں اپنے بچپن کے دوست محمد اسماعیل کے ساتھ اسلام آباد کے مارگلہ کی پہاڑیوں پر قائم انتہائی خوبصورت مونال ریسٹورنٹ گیا تھا۔ دامن کوہ سے آگے تقریباً دس بارہ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع مونال ریسٹورنٹ کی اونچائی سے تقریباً پورے اسلام آباد کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ یہاں کے پہاڑ بھی لمبے درختوں سے بھرے پڑے ہیں۔ نظارہ ایسا ہے کہ بندہ خود کو سویزرلینڈ کے کسی حصے میں محسوس کرتا ہوں۔ پرسکون فضا، ہر طرف پھیلی بھینی بھینی خوشبو، آلودگی سے پاک ماحول نہ شور نہ زندگی میں ایک دوسرے کو پیھچے چھوڑ دینے کی دھن اور وہ سب کچھ جس کا بڑے شہروں میں رہنے والے شاید تصور بھی نہ کرسکیں۔ مقامی اور غیر ملکی سیاحوں کے ساتھ ساتھ ہم بھی موسم اور حسین قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوئے۔

بعض لوگوں کی طرح مجھے بھی رات کی تنہائی میں چاند دیکھنے کا اور تارے گننے کا شوق ہے۔ میں سوچ میں پڑگیا کہ یہاں رات کسیے ہوگی، چاند کیسے نکلے گا، رات کے وقت جب چاند کی کشتی ستاروں کے جلو میں دھیرے دھیرے ڈولتی آگے بڑھتی ہے تو چکمتی ہوئی چاندنی میں یہ سماں اور بھی اُجلا نکھرا لگتا ہوگا اُفق تا اُفق سیل نو جس پر لیلتہ القدر کا گماں گزرتا ہوگا۔ لیکن اگلے ہی لمحے اسماعیل نے کہا چلو بھئی واپس لوٹتے ہیں۔ اور یوں اسلام آباد میں چاند دیکھنے کا خواب میرا ادھورا رہ گیا۔

کچھ دن پہلے میں پرانی تصاویر دیکھ رہاتھا کہ اس میں سے مونال والی تصاویر نکل آئیں۔ اگلے ہی لمحے میں برق رفتاری کی طرح وہی نظارے میرے خیالوں میں آئے جو ہم نے دیکھے تھے۔ لیکن اچانک میری نظریں ایک چاند پر پڑی۔ یہ چاند بالکل مختلف تھا ایک بہت ہی خوبصورت اور پیارا سا، کیونکہ اس میں فرشتہ اور چاند اکٹھے تھے۔ اس کے دیکھنے سے میں دھنگ رہ گیا۔ اب کی بار غم کی ایک کیفیت طاری ہوگئی یہ چاند وہ ننھی فرشتہ تھی جو اسلام آباد میں درندہ صفت انسانوں کا شکار بنی تھی۔ زندگی میں پہلی بار سنا کہ فرشتہ فوت ہوچکی ہے۔ ننی فرشتہ تو سچ میں فرشتہ تھی جو چاند جیسی دکھتی تھی۔ لیکن ظالموں نے اس کو بھی نہیں بخشا۔

اسلام آباد جس کو سیف سٹی کہا جاتا ہے، جو قدرتی حسن سے بھرا ہوا ہے۔ اس کے جنگل تو بظاہر خوبصورت نظر آتے ہیں لیکن اس میں خونخوار جانور رہتے ہیں۔ جس میں درندہ صفت انسان معصوم فرشتوں کا قتل کرتے ہیں۔ فرشتہ کی موت اکیلا واقعہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی کئی فرشتے درندوں نے مارے ہیں قصور کی زینب، مردان کی عاصمہ، اور بونیر کی صنم بھی اس سماج کے خونخوار درندہ صفت انسانوں نے مارے ہیں اور نہ جانے اور کتنے فرشتوں کا ان جنگلی بھیڑیوں نے شکار کیا ہوگا۔

پرانے زمانے میں جب کسی کا ایسے قتل ہوجاتا تو ہر طرف خوف و ہراس پھیل جاتا لیکن اب شاید لوگ اس طرح کے کاموں کے ساتھ عادی ہوچکے ہیں۔ کوئی نہیں ڈرتا، کسی کا دل نہیں دُکھتا لیکن یہ وقت ان والدین کے لئے قیامت سے کم نہیں جن پر گزرتی ہے۔ مونال کے پہاڑوں میں چاند دیکھنے کا سپنا میرا ادھورا ہی سہی۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں کوئی چاند کو ہی نہ مار ڈالے۔ دل سے اب گھبرائی ہوئی آواز آتی ہے کہ یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا، اے چاند یہاں نہ نکلا کر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).