مسجد قاسم علی خان کے مفتی پوپلزئی کا اختلاف اور عابد باکسر کی ڈھائی کروڑ کی گاڑی


پاکستان میں رمضان المبارک کی آمد آمد پر جہاں ایک طرف مہنگائی اپنا جلوہ دیکھاتی ہے اور ہم مسلمانوں کی اجتماعی منافقت، بے حسی اور بے ضمیری پوری دنیا کے لوگوں پر آشکار ہوتی ہے وہیں مسجد قاسم علی خان پشاور کی مہینوں بے جان پڑی ٹیلی فون لائنوں میں بھی جان پڑ جاتی ہے۔ چاند دیکھنے اور پہلے روزے کے خیال سے جہاں ایک طرف روحانی خوشی کا احساس ہونا چاہیے وہیں ملک بھر میں مسجد قاسم علی خان کے فیصلے کی وجہ سے اجتماعیت کا جو جنازہ نکلتا ہے اس پر دکھ بھی ہوتا ہے۔

اب تو برسوں سے یہی بات کہنے اور سننے کو رہ گئی ہے کہ پشاور میں کل جبکہ پاکستان میں پرسوں پہلا روزہ ہو گا، یہ بات سنتے ہی پشتون بھائیوں کی طرف سے ایک ناراضی کا احساس دلایا جاتا ہے کہ کیا ہم پاکستان کا حصہ نہیں ہیں؟ ایک طرف مفتی شہاب الدین صاحب اور دوسری طرف پاکستان بھر کے علما اور مفتی صاحبان موجود ہوں تو میرے جیسے کم علم اپنی اتنی حیثیت نہیں رکھتے کہ اس معاملے پر بات کر سکیں۔ اس لیے دونوں میں سے کون غلط اور کون صحیح ہے، یہ ان کا ایمان جانے اور ان کا خدا جانے لیکن ہر سال بہت سے پشتون دوست اس تکلیف سے بھی گزرتے ہیں کہ جب گھر میں ایک فرد مسجد قاسم علی خان کی طرف سے اعلان کے مطابق روزہ رکھے اور دوسرا رویت ہلال کمیٹی کی طرف سے جاری اعلان کے مطابق اہتمام کرے۔

اس کے ساتھ ساتھ بہت سے پشتون احباب مسجد قاسم علی خان کے دفاع کی کوشش بھی کرتے ہیں اور اس سلسلے میں کئی تاویلیں اور وضاحتیں دیتے نظر آتے ہیں۔ اس سال بھی کچھ احباب کی طرف سے ایک پوسٹ بہت زیادہ سوشل میڈیا پر نظر آئی اور مجھے بھی بھیجی گئی جس سے مجھے سخت اختلاف تو ہے لیکن آپ پہلے پوسٹ ملاحظہ کریں، ہمارا جواب اس کے بعد دیا جائے گا۔

مسجد قاسم علی خان کی بنیاد 1842ء میں اس وقت رکھی گئی جب پشاور سکھوں کے نرغے میں تھا۔ کسی زمانے میں مولانا عبد الرحیم پوپلزئی افغانستان کے پہلے رسمی بادشاہ احمد شاہ ابدالی کی طرف سے پشاور کے قاضی مقرر تھے۔ عبد الرحیم پوپلزئی کا خاندان ایک تابناک تاریخ رکھتا ہے۔ پوپلزئی خاندان کو پشتون قوم میں اُس وقت بھی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ عبدالرحیم پوپلزئی کی وفات کے بعد ان کی جگہ عبد الحکیم پوپلزئی نے سنبھالی اور اس وقت کی مشہور تحریک خلافت میں حصہ لیا۔ بعد میں عبد الحکیم پوپلزئی خلافت کمیٹی کے سربراہ اور مسجد قاسم علی خان کے خطیب بھی رہے۔ ان کی وفات کے بعد مفتی عبد الرحیم پوپلزئی جن کا نام ان کے دادا کے نام پر رکھا گیا تھا سامنے آئے۔ عبد الرحیم ثانی فرنگی استعمار کے خلاف تحریک آزادی میں نہ صرف شامل ہوئے بلکہ ایک رسالہ سرفروش کے نام سے بھی نکالا۔ جب قصہ خوانی بازار میں پشتونوں کا قتل عام ہوا تو اس احتجاج میں شامل ہونے کی وجہ سے انہیں نو سال قید کاٹنا پڑی۔

مولانا حسین احمد مدنی، عبید اللہ سندھی اور مولانا عبد الرحیم پوپلزئی ایک ہی سکول آف تھاٹ سے تعلق رکھتے تھے۔ 1939ء میں بنوں میں فرنگی استعمار کے خلاف احتجاج کرنے کی پاداش میں انہیں گرفتار کر لیا گیا اور پانچ سال کی سزا ہوئی۔ 1944ء میں ان کے انتقال کے بعد مسجد قاسم علی خان کی امامت ان کے چھوٹے بھائی عبدالقیوم پوپلزئی کے پاس آئی، جن کی وفات کے بعد مفتی شہاب الدین پوپلزئی مسجد قاسم علی خان کے امام قرار دیے گئے اور ابھی تک اس منصب پر موجود ہیں۔

پاکستان بننے سے بھی بہت پہلے مسجد قاسم علی خان سے اعلان کے بعد رمضان المبارک کا آغاز اور عید ہوتی تھی جو اب تک جاری ہے اور یہ کوئی آج کی بات نہیں۔ ایک طرف تاریخ ہے اور دوسری طرف انیس سو چوہتر میں بننے والی رویت ہلال کمیٹی جس کے سربراہ مفتی منیب الرحمان صاحب ہیں۔ ایک طرف احمد شاہ ابدالی کے دور کے قاضی کی نسل کا فیصلہ ہے اور دوسری طرف جمعہ جمعہ آٹھ دن والی کمیٹی کا فیصلہ۔ لیکن اصل فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ آپ کس کا فیصلہ مانتے ہیں۔

پوسٹ اتنی خوبصورت اور جامع ہے کہ فورا قائل ہونے کو دل کرتا ہے لیکن ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ ایک طرف ڈھائی ہزار سال کی عیسائیت اور چار ہزار سالہ یہودیت ہے، دوسری طرف جمعہ جمعہ چودہ سو چالیس سالہ اسلام۔ مہا بھارت وغیرہ سے تاریخ نکالی جائے تو ایک طرف ہزار وں سالہ ہندو دھرم ہے اور دوسری طرف تیرہ سو سات سال کا اسلام برصغیر میں ہے تو پھر بھی ہم کیوں اسلام کے لیے مرئے جا رہے ہوتے ہیں۔ اگر تاریخ اور نسلوں نے ہی حق اور سچ کے فیصلے کرنے ہیں تو ہمیں یہودی یا ہندو سے بھی قائل ہونا چاہیے کہ وہ لوگ بھی سچے ہیں اور ان کا دھرم اختیار کرنے کا سوچنا چاہیے۔

اپنی جذباتیت میں ہم فتح مکہ اور پھر حجتہ الوداع کا خطبہ ہی بھول جاتے ہیں جب نسلی تفاخر کو ختم کر دیا گیا تھا اور سب سے بہترین وہ شخص قرار دیا گیا تھا جو زیادہ پرہیز گار اور متقی ہو، لیکن ہم پھر بھی نسلی فکر کو وجہ بناتے ہوئے دوسروں کو رد کرتے نظر آتے ہیں۔ آپ یہ بات مسجد قاسم علی خان اور اس کے متوالوں کو سمجھانے کی کوشش کریں، یقینا وہ نہیں سمجھیں گے اور کیوں نہیں سمجھیں گے، اس سوال نے ہمیں بہت پریشان رکھا پھر خدا خوش رکھے عابد باکسر کو، جن سے ایک انٹرویومیں دوبارہ نوکری کا سوال پوچھا گیا تو انہوں نے ایک بہت خوبصورت جملہ کہا جو ہماری ذات کے بہت سے مسائل کی عکاسی کرتا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ڈھائی کروڑ کی گاڑی سے اتر کر روڈ پر لگے ناکے پر کھڑا ہونا مشکل ہوتا ہے۔ اور یقینا یہی سچ ہے۔ برسوں سے لوگوں کے لیے اعلان کرنے والوں کے لیے کسی اور کی پیروی کس قدر مشکل ہو سکتی ہے یہ مفتی شہاب الدین صاحب خوب جانتے ہیں اور شاید یہی ایک وجہ ہے کہ وہ اپنا اختلافی اعلان جاری کرتے ہوئے اپنی صدیوں کی انفردیت کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔

مفتی شہاب الدین صاحب سے میرے جیسا دنیا دار اور کم علم شخص علمی اختلاف نہ تو کر سکتا ہے اورنہ ایسا سوچ سکتا ہے لیکن اپنے تمام تر محدود علم کے ساتھ میں اتنا تو جانتا ہوں کہ جب ایک شخص چاہیے وہ کتنا ہی کم علم یا کم حیثیت ہو، نماز کی امامت کے لیے آگے کھڑا ہوجاتا ہے تو پھر اس کی اقتداء لازمی ہو جاتی ہے۔ بڑے سے بڑا حکومتی عہدیدار اور بزنس مین بھی ایک نائب قاصد یا معمولی مولوی کی تکبیر پر ہی چلتا ہے اور اس کے ساتھ رکوع و سجود کرتا ہے، اپنی علمیت، حیثیت اور قابلیت سے بالاتر ہو کر امام کے پیچھے چلنے سے ہی نماز مکمل ہوتی ہے اور رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ کو حکومت کی طرف سے ایسے ہی ایک امام کی حیثیت حاصل ہے۔

مسئلہ طاق اور جفت راتوں کا نہیں ہے، مسئلہ پہلے روزے اور اٹھائیسویں روزے کو عید کا بھی نہیں ہے بلکہ مسئلہ برسوں کی سربراہی کے بعد کسی اور کے اعلان پر آمین کہنے کا ہے۔ مسئلہ ڈھائی کروڑ کی گاڑی سے اتر کر دھوپ میں ناکے پر ڈیوٹی دینے کا ہے اور ایسا ظرف اور ہمت ہر کسی کے پاس نہیں ہوتی اور یہی سارا مسئلہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).