بھارتی انتخابات: سیکولر بنیادیں یا فاشزم؟


دنیا کی سب سے بڑی سرمایہ دارانہ جمہوریت میں 7 مراحل پر مشتمل سب سے بڑی جمہوری مشق کے 23 مئی کو جاری ہونے والے نتائج نے مودی کی ہندو قوم پرست بھارتی جنتا پارٹی کو 17 ویں لوک سبھا کے لیے 303 نشستوں کے ساتھ ایک تاریخ قائم کرتے ہوئے ملک کی سب سے بڑی اور مضبوط جماعت کے طور پر سامنے لایا جو اس کی سب سے بڑی نفسیاتی برتری ہے۔ مودی کی یہ جیت 60 ء کی دہائی میں کانگریس کی جیت کا عکس ہے جو پورے بھارت کی نمائندہ جماعت کے طور پر قائم تھی۔

یوں بھارتی جمہوریت میں یہ بھارتی جنتا پارٹی کے لیے دوسری تاریخی فحتح ہے۔ اسی طرح یہ انتخابات مسولینی کی بلیک برگیڈز کی طرز پر قائم آر ایس ایس سے بنیاد پانے والے مودی (جو بعد میں جنتا پارٹی میں شامل ہوا) کے لیے یہ موقع لائے کہ وہ بھارت کی انتخابی تاریخ میں وہ پہلا فرد بن سکے جو پانچ سال پورے کرنے کے بعد مسلسل دوسری بار اقتدار کے لیے منتخب ہو۔ یوں یہ بھی بھارتی انتخابات کی تاریخ میں ایک اضافہ ہے۔

دوسری طرف 1947 کے بعد بھارت پر سب سے زیادہ عرصہ حکمرانی کرنے والی جماعت کانگریس، جس سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ نوجوان راہول گاندھی کی قیادت میں بہتر کارکردگی دکھائے گی، صرف 52 نشستیں اپنے نام کرنے کے قابل ہو سکی جو 2014 کے مقابلے میں انتہائی کم اضافے اور لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر بنانے کے لیے بھی ناکافی ہیں۔ یوں فی الوقت مودی کو کسی روایتی اپوزیشن کا سامنا نہیں۔

سرمایہ دارانہ دنیا کی بڑی جمہوریت کے ساتھ ساتھ اب PPP (Purchasing power parity) کے زمرے میں دنیا کی تیسری بڑی معیشت میں بھارتی جنتا پارٹی کے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس نے 351 نشستوں کا سنگ میل عبور کیا اور بھارتی جنتا پارٹی کے صدر امیت شاہ کا نعرہ ”اب کی بار 300 پار“ درست ثابت ہوا اور مودی کا ”چوکیدارا“ انتخابات کا بنیادی اور اہم نقطہ بن گیا۔ جبکہ کانگریس کی رہنمائی میں متحدہ ترقی پسند الائنس صرف 92 نشستوں پر کامیاب ہوا۔ یوں اب انڈیا باقاعدہ طور پر ہندوتا کی بنیاد پر اپنی سیکولر بنیادوں سے ہندو پرستی (فاشزم) کی طرف رخت سفر باندھ چکا۔ آنے والے پانچ سال بھارت کے لیے سخت ترین ہوں گے کہ آیا مودی نے ہٹلر بننا ہے یا مسولینی؟

*معاشی* اعتبار سے بھارتی جنتا پارٹی نے پہلے بھی 1998 سے 2004 تک حکمرانی کی لیکن ہندو مذہبی فاشسٹ بنیادیں رکھنے والے ایل کے ایڈوانی کی قیادت میں وہ ہندوستانی سرمائے کے لیے قابل اعتبار نہیں تھی۔ مگر گزشتہ پانچ سالوں میں مودی ’تاجر دوست‘ حکمرانی کرتا نظر آیا جس کو مودی نومکس کا نام دیا گیا۔ ایسا کرتے ہوئے مودی سرکار نے عوام پر نئے ٹیکس لاگو کیے اور بینکوں کو مزید کریڈٹ کے قبضے میں کرنے کے لیے ’اسقاط زر‘ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بڑے نوٹوں کا خاتمہ کیا۔

مودی نومکس اپنے ابتدائی سالوں میں تو یوں دکھائی دیتی ہے کہ حقیقی شرح نمو چین کی نسبت زیادہ تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے اور شہری محنت کشوں اور دیہی کسانوں کی آمدن، جیسا کہ ووٹ لینے کے لیے ان سے وعدہ تھا، میں اضافے کے ساتھ بھارت آگے کی طرف ایک لمبی چھلانگ لے رہا ہے۔ لیکن اب دنیا کی تیز ترین بڑھتی ہوئی معیشت کا سر نیچے کی طرف ہے۔ نمو کے سرکاری اعداد و شمار 6.6 فیصد پر منجمند ہو گئے ہیں۔ مگر یہ اعداد و شمار بھی قابل یقین نہیں کیونکہ 2015 میں اپنے نظر ثانی شدہ اعداد و شمار میں راتوں رات سال ہا سال نمو میں 2 % pts اضافہ کر دیا گیا تھا۔ اور یہ اضافہ پوری معیشت پر لاگو نہیں ہوا، اس کرشمہ سازی کے بعد ’کوئی نہیں جانتا کہ معیشت کا 2015 سے پہلے کی معیشت سے موازنہ کیسے کیا جائے! ‘

انڈیا میں صنعتی پیداوار کا پیمانہ صفر کو چھو رہا ہے۔ ”مودی حکومت کے تحت یہ پیشگوئی جاری ہیں کہ بھارت جلد جاپان اور جرمنی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی تیسری موٹر منڈی بن جائے گا مگر گزشتہ ماہ مسافر گاڑیوں کی فروخت گزشتہ سال کی نسبت 17.7 فیصد کم سطح پر کھڑی ہے۔ اخبار فنائنشنل ایکسپریس کے مطابق 334 کمپنیوں (بشمول بینکوں اور مالیات) کا سال ہا سال منافع 18 فیصد سے بھی زیادہ گر چکا ہے۔ یہ نظر آتا ہے کہ مڈل کلاس کی کھپت کا بلبلا جو مودی کی تخلیق تھا اپنے اپنے کو نگل چکا ہے۔ “ گزشتہ 5 سالوں سے درآمدت کی ترقی صفر ہے۔ اور اب مقامی صارفین کی کھپت کا بلبلا بھی کمزور ہوو چکا ہے جو قرض پر مبنی تھا۔

مائیکل رابرٹس لکھتے ہیں : ”چین کے برعکس بھارت اس جال میں پھنسنے کی طرف جا رہا ہے جہاں آبادی کی اکثریت غربت میں رہے اور صرف 10 % فیصد شاندار زندگی گزاریں اور بہتر خرچ کر سکیں لیکن وہاں روزگار مہیا کرنے یا تربیت کے لیے اور رہائش کے لیے اور ان سب کے لیے کوئی سرمایہ کاری یا اس کا تحرک نہ ہو اس جال کو آئی ایم ایف“ متوسط آمدن ”کا جال کہتا ہے۔ بھارت کا انجام برازیل کی طرح ہو گا نہ کہ چین یا جاپان جیسا۔ یعنی کہ اس نے کہیں نہیں جانا۔ مودی کے ماتحت بے روزگاری بلند ترین سطح پر ہے۔ “ Make in India ”منصوبہ ناکام نظر آتا ہے اور نہ ہی کوئی Beoing، Airbus یا Apple ہی انڈیا کی فیکٹریوں میں سرمایہ کاری کرنے آ رہے ہیں۔ “

بھارتی محنت کشوں کی دو تہائی اکثریت چھوٹے کاروباروں میں جزوی روزگار پیشہ ہیں جہاں دس یا اس سے کم مزدور کام کرتے ہیں جہاں مزدوروں کے حقوق بدترین انداز میں غصب کیے جاتے ہیں۔ بھارت میں محنت کی پیداواریت میں 2010 میں پہلی بار 10.2 فیصد اضافہ ہوا جو اس وقت سے تنزلی کا شکار ہے اور 2016 میں 4.75 فیصد پر کھڑا تھا۔ یہ نمو کی ان منازل کو پانے کے لیے انتہائی ناکافی ہے جو معیار زندگی کو بلند کرنے کے لیے ضروری ہیں۔

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق بے روزگاری 45 سالوں کی بلند ترین سطح پر کھڑی ہے اور ایک اندازے کے مطابق 10 سے 12 ملین نوجوان ہر سال محنت کی منڈی میں داخل ہوتے ہیں اور انتہائی چند روزگار پاتے ہیں۔

زراعت کے شعبے کے اعدا و شمار زراعت کی زبوں حالی کو بیان کرتے ہیں کہ زراعت کی آمدن گزشتہ 18 سالوں کی کم ترین سطح پر ہے۔ اور کسانوں کی حالت زار یہ کہ وہ قرض، رہن اور افلاس کے ہاتھوں مجبور ہو کر خود کشیاں کر رہے ہیں۔

مائیکل رابرٹس بھارتی سرمائے کا تجربہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ”بھارتی سرمائے کا سب سے بڑا مسئلہ اس کے کاروباری شعبے کی منفعت بخشی میں رکاوٹ ہے۔ کئی ابھرتی ہوئی معیشتوں کی طرح شرح منافع بہت بلند ہے، جن کے پاس دیہاتوں میں سستی محنت کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ لیکن دہائیوں سے محنت کے مقابلے میں سرمائے کے اوزاروں میں سرمایہ کاری نے گرتی ہوئی منفعت بخشی کے ساتھ ساتھ محنت کشوں کی ایک بڑی بیروزگار فوج کو کھڑا کرنا شروع کر دیا ہے۔

۔ ۔ ۔ بھارتی سرمائے کی طرف سے اس کا جواب مودی کی نافذ کردہ پالیسی نجکاری، ایندھن اور خوراک کی سبسڈیز میں کٹوتی اور نئے سیل ٹیکس کے لیے ابال لے رہی ہے۔ ٹیکس جو کہ آمدن کا سب سے رجعتی طریقہ ہے جو ہمیشہ غریب کو مار دیتا ہے، یہاں مطلب شرح منافع میں اضافے کے لیے استحصال کی شرح میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔ جیسا کہ یہ ہمیشہ نیو لبرل پالیسیوں کا اہم حصہ ہوتا ہے۔ اور یہی بھارتی سرمایہ ابھی کرنے سے انکاری ہے۔ ”

ابھرتی ہوئی معیشتوں میں سب سے بڑا غیر قانونی شعبہ انڈیا میں ہے۔ ٹیکس محصولات انتہائی کم ہیں کیونکہ بھارت کی کمپنیاں کم اور انفرادی امیر کم تر ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ’بھارت نے اسی مقام پر رہنا ہے کہیں نہیں جانا‘ اور مودی نومکس نے نہ صرف عوام پر قہر ڈھانا ہے بلکہ معیشت کو بھی خطرے سے دو چار رکھنا ہے۔

*عدم مساوات* : مودی نومکس صرف عام مساوات میں اضافہ کر سکتی ہے۔ پہلے ہی سب سے بڑی سرمایہ دارانہ جمہوریت ہونے کے ساتھ ساتھ بھارت روس کے بعد دوسرے نمبر پر دنیا کا سب سے بڑا عدم مساوات والا ملک ہے۔ آبادی کا غریب ترین 10 فیصد مجموعی ملکی دولت کے صرف 0.2 فیصد کی مالک ہے۔ جبکہ آبادی کا امیر ترین 1 فیصد 2015 میں ملکی دولت کے مجموعے کے 53 فیصد کا مالک تھا اور صرف 2 سالوں میں یہ 1 فیصد 2014 کے 49 فیصد سے 2016 میں ملکی دولت کے 58 فیصد کا مالک ہو گیا۔ یہ اضافہ خطرناک تیز رفتاری سے ہوا ہے۔ جبکہ حکومت نے 2017۔ 18 کے اعداد و شمار کی رپورٹ شائع ہونے سے رکوا دی۔

آکسفم کے مطابق آمدن کی عدم مساوات بھارت میں بدترین ہے : امیر ترین 1 فیصد ملکی مجموعی آمدن کے 73 فیصد کے دعویدار ہیں۔ جبکہ اکثریتی آبادی پینے کے صاف پانی اور رفع حاجت کے لیے بیت الخلاء سے محروم ہے۔ یہ عدم مساوات تنہا مودی حکومت کا کارنامہ نہیں بلکہ کانگریسی حکومتوں نے بھی اس عدم مساوات کو مسلسل جاری رکھا۔ اگر بھارت کی ایک فیصد آبادی اور اکثریت کے درمیان عدم مساوات کا یہ خیلج کم نہ ہوا تو بھارت کے سماجی اور جمہوری ڈھانچے کو انہدام کا خطرہ لاحق ہوجائے گا۔

*مودی کی فتح*: دنیا کی 17.74 فیصد آبادی کے مالک یعنی 1,367,137,953 نفوس پر مشتمل دنیا کی سب سے بڑی سرمایہ دارانہ جمہوریت میں 7 مراحل پر مشتمل انتخابات میں جہاں دوران پولنگ دھاندلی کے امکانات کم ہوتے ہیں وہاں حکمران جماعت کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے پوری ریاستی مشینری کے استعمال سے باز نہیں رکھا جا سکتا۔ ان انتخاب میں بھی مودی سرکار پر نہ صرف سرکاری ذرائع اور ریاستی مشینری کے استعمال کے الزمات لگتے رہے بلکہ، میڈیا، فوج، عدلیہ، سوشل میڈیا، تعلیمی اداروں اور دیگر تمام کو اپنے کنٹرول میں لیتے ہوئے اپنے مقاصد کے حصول کے ثبوت بھی منظر عام پر آتے رہے اور یہ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں طاقت پر قبضے کے حصول کا اہم اصول ہے۔ ان انتخابات میں فتح کے بعد بہت سے لکھاری اور محقق مودی کا موازنہ ہٹلر اور مسولینی سے کرتے نظر آئے۔ اس سب کے باوجود ووٹرز ٹرن آؤٹ 67.11 فیصد رہا جو انڈیا کی انتخابی تاریخ میں سب سے بلند شرح ہے۔

جب 2014 کے انتخابات میں کیا گیا وعدہ ”اچھے دن آنے کو ہیں“ معاشی نمو کی گراوٹ، کاروباری سرمایہ کاری کے انجماد، منفعت بخشی میں گراوٹ، صارفین کے اخراجات میں واضع کمی، بھارتی کمپنیوں کا قرض کے بوجھ تلے دب جانا اور قرض کے واپس بینکوں پر دباؤ کی صورت میں مودی سرکار کے گلے کی ہڈی بن گیا تو مقبوضہ کشمیر میں 14 فروری کو پلوامہ حملے نے تمام تر توجہ کو منتقل کر دیا۔ قوم پرستی اور ملکی سالمیت سب سے اہم اور بڑا مسئلہ بن گیا۔ اس حملے میں پاکستانی میں اپنی بنیادیں رکھنے والے دہشتگرد گروپ کے ملوث ہونے نے مودی کو اس ڈرامے کے لیے سٹیج مہیا کیا۔

مودی نے ”چوکیدارا“ اسٹائل اپنایا اور قومی سلامتی اس کی ابتدائی انتخابی مہم کا سب سے غالب پیغام بن گئی۔ یقینا مودی نے رائے دہندگان کے مزاج کو بدلنے کے لیے مسلح افواج کے مہم جوہانہ عمل کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا جس میں پاکستانی ریاست اور امریکہ نے اہم کردار ادا کیا۔ پلوامہ میں 14 فروری کو سی آر پی ایف کے جوانوں پر حملے کے 12 دن بعد پاکستان کی حدود بالا کوٹ میں مودی کی ”2.0 سرجیکل سٹرائیک“ نے بھارت بھر میں ووٹرز کے مزاج میں تیز ترین تبدیلی کو ممکن بنایا۔

اگر پلوامہ حملہ نہ ہوتا تو وہی لہر جس نے 2014 میں مودی کی جیت کی بنیاد رکھی تھی وہی 2019 میں اس کی ہار کا بگل بجاتی۔ اب حالات بدل چکے تھے مودی نومکس کی کامیابی کے برعکس سرجیکل سٹرائیک نے مودی کے بہادر اور فیصلہ کن لیڈر ہونے کے ابہام کو مزید ہوا دی۔ بلخصوص چین اور پاکستان کی طرف بھارتی جنتا پارٹی کی استبدادانہ خارجہ پالیسی مودی کے لیے سب سے قیمتی جوہر ثابت ہوا جس نے ہندوازم، قوم پرستی اور قومی سلامتی کے جذبے پر ووٹ حاصل کیا۔

اس ہفتے ”ترقی پذیر معاشروں پر مطالعے کے مرکز“ (سی ایف ایس ڈی ایس) نے اپنے مطالعہ میں یہ پایا کہ ایک تہائی لوگ جنہوں نے بی جے پی کو ووٹ دیا انہوں نے ایسا بجائے بی جے پی یا اس کے علاقائی نمائندوں کے لیے نہیں بلکہ صرف مودی کے لیے کیا۔ محققین کا کہنا ہے کہ درحقیقت 2014 کے مقابلے میں (جب مودی اپنی پہلی بڑی جیت کی نمائندگی کر رہا تھا کہ مقابلے میں ) 2019 میں بہت زیادہ مشہور ہے۔

اپنی انتخابی مہم اور ملک بھر میں بڑھتے ہوئے فاشسٹ رجحان کے اضافے کے ساتھ مودی کی نہ ختم ہونے والی لہر کا ایک اہم عنصر وہ تاریخی پروپیگنڈہ اور لٹریچر تھا جس میں انتہائی شاطرانہ انداز میں ہندو مذہب پرستی، بھارتی قوم پرستی اور قومی سلامتی کا چورن شامل تھا۔ انتخابی مہم میں بھارتی جنتا پارٹی مکمل تیار اور پر اعتماد نظر آئی۔ پارٹی مہم کے لیے مواد کمیٹی کی چیئرمین سشما سوراج نے لٹریچر اور پروپیگنڈہ بشمول مودی کی کامیابیوں پر کشش بھرے آڈیو اور ویڈیو گانوں کی ایک بڑی مقدار فراہم کی۔

یہ مواد کچھ اس طرح کے پروپیگنڈہ اور لٹریچر: ”ووٹ سے پہلے سوچو“، ”کانگریس کے 20 سال بمقابلہ مودی کے پانچ سال“، ”ناممکن کا ممکن ہونا کیونکہ مودی ہے“ اور ”ہر پرت جیسا کہ غریب، مزدور، کسان، نوجوان، خواتین، ضعیف العمر اور بزرگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کی حکومتی حاصل“ اور ”انفراسٹرکچر، معاشی نمو، معیشت اور خدمات وغیرہ میں حاصلات“ پر مبنی تھا۔ جس کا ہر زبان میں ترجمہ کیا گیا اور ملکی اور علاقائی دونوں سطح پر تقسیم کیا گیا۔

فنڈز کے معاملے میں بھی بھارتی جنتا پارٹی سب سے آگے رہی اے آر ڈی (جمہوری اصلاحات کی انجمن) کی ایک رپورٹ کے مطابق 2017۔ 18 میں 7 بڑی پارٹیوں کے ڈکلیئر اثاثوں میں 78 فیصد حصہ بھارتی جنتا پارٹی کا ہے۔ حکومتی پارٹی نے فیس بک، یوٹیوب، انسٹا گرام پر تشہیر کی مد میں 260 ملین سے زائد روپے خرچ کیے۔ اور لیڈر کے طور پر ان کا واضع آدمی مودی موجود تھا۔

اس کے موازنے میں کانگریس کی مہم رائے دہندگان پر اثر انداز ہونے میں ناکام رہی۔ کانگریس اپنے آپ کو یا UPA+ کو مودی کے متبادل کے طور پر سامنے لانے میں قابل رحم ناکامی سے دوچار ہوئی اور دیگر بلنڈرز کے ساتھ مشغول رہی۔ راہول گاندھی تھوڑے بدلے انداز میں مودی کے سامنے آیا۔ اس کی کم از کم آمدن کی سکیم (NAYA) اور ”چور چوکیدار“ کا نعرہ کم تخلیقی اور کم متاثر کن نہ تھا۔ لیکن کانگریس کی ذیلی تنظیمیں یا تو انہدام یا تو انتہائی کمزوری کا شکار ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ نعرہ آبادی کے ایک بڑے حصے تک رسائی نہ حاصل کر سکا۔ رائے دہندگان اپوزیشن اتحاد کے اس منصوبہ سے بھی متاثر نہ ہو سکے کہ پہلے مودی کو روکا جائے اور بعد از انتخاب لیڈر چنا جائے۔ لوگ دیکھ رہے تھے کہ کیا انہوں نے مودی کو روکنے کے لیے ہر حلقے میں اپوزیشن کے صرف ایک متفقہ امیدوار کو کھڑا کیا؟

اپوزیشن کی حکمت عملی آغاز سے ہی غلطیوں سے بھر پور تھی۔ ان کے پاس کوئی مشترکہ ایجنڈا نہ تھا۔ کوئی عملی منصوبہ نہ تھا۔ اور کانگریس کا منشور Break India Bridge اس عالم میں جب بالاکوٹ حملہ اور ملکی سلامتی زیر بحث ہو ایک ناممکن بات تھی۔ انتخابات کے ساتوں مراحل میں کانگریس اپنا ایجنڈا سیٹ کرنے میں ناکام رہی۔ اس کا پورا پروگرام کسی متبادل کے بجائے مودی کے عوام کے سامنے رکھے گئے منصوبے کو برا بھلا کہنے تک محدود نظر آتا ہے۔

اپوزیشن منقسم رہی، کانگریس اور اس کے اتحادی ریاستی سطح پر اتحاد بنانے کے قابل نہ تھے ؛ کانگریس اور 1998 میں بننے والی کانگریس trinomale بینگال میں ایک دوسرے کے خلاف لڑتے رہے۔ یوپی میں کانگریس اور BSP۔ SP اتحاد ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔ اسی طرح دہلی میں کانگریس اور اے اے پی اتحاد کے مذاکرات کا انجام ناکامی نکلا تھا۔ اس انجام نے دونوں جماعتوں کو نہ صرف ملکی دارالحکومت دہلی میں بلکہ ہریانہ میں بھی سزا دی۔ اسی طرح کرناٹک میں JD (s کے ساتھ کانگریس کا اتحاد مکمل غلط تھا۔

حکومتی پارٹی کے مقابلے میں اس منقسم اتحاد، جس کا کوئی اتحاد نہ تھا، کی سب سے بڑی پارٹی کانگریس نے فیس بک، یوٹیوب، انسٹا گرام پر تشہیر کی مد میں صرف 35 ملین روپے خرچ کیے۔ اپوزیشن اتحاد کا کوئی متفقہ امیدوار نہ تھا اور سب سے بڑھ کر کرپٹ گاندھی خاندان کو لوگ بغیر کسی متبادل پروگرام کے مزید ووٹ نہیں کرنا چاہتے۔

2014 کی طرح اب بھی رائے دہندگان کو وراثتی طور پر بڑے کاروباریوں اور جاگیرداروں کے مفادات کے لیے چلائی جانے والی کرپٹ جماعت اور ہندو انتہا پسند قوم پرست ( بڑے کاروباریوں اور سرمایہ کاروں کے اضافے کے ساتھ) پارٹی کے درمیان انتخاب کا سامنا کرنا پڑا۔ لمحوں کے لیے مودی نے ان کا ووٹ حاصل کر لیا۔

آنے والے پانچ سال بھارت کے لیے سخت ترین ہوں گے آیا اس نے فاشزم کی طرف پیش قدمی جاری رکھنی ہے یا واپس اپنی سیکولر بنیادوں کی طرف جانا ہے؟

یقینا ان پانچ سالوں اور اگلی دہائی میں بھارتی سرمایہ دار کی تخلیق کردہ ریزرو فوج مزید توانا مزید سرکش ہو گی۔ عدم مساوات اور دیگر سماجی مسائل کے حل کے لیے طبقاتی جدوجہد بھی عروج حاصل کرے گی۔ بھارت محنت کے استحصال و تحقیر کی ایک بدترین منڈی ہے۔ اس منڈی میں عوامی پسماندگی اور سرمایہ دارانہ غلاظتیں عروج پر ہیں۔ بائیں بازو نے اگر اپنی بینگانگی اور ماضی سے چمٹے رہنے والے کٹر پنے سے نکل کر ایک قابل عمل متبادل پروگرام دے دیا تو طبقاتی جدوجہد اپنی معراج کو پہنچے گی۔ مگر اگر قوم پرستی اور ماضی پر فخر کرنے والے لیفٹ نے سرمایہ دارانہ طرز ختم نہ کی تو حالات بنگال جیسے ہوں گے جہاں 34 برس کیمونسٹوں نے حکومت کی مگر صرف ایک کیمونسٹ اپنی ضمانت ضبط ہونے سے بچا سکا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).