رمضان اور یادیں ساہیوال کی


1998 ء سے 2002 ء تک ساہیوال شہر میں بسلسلہ تعلیم مقیم رہا۔ یہ میری زندگی کے یاد گار ترین سال ہیں اس وقت ساہیوال اتنا پھیلا ہوا شہر نہیں تھا بلکہ ایک چھوٹا سا شہر تھا جہاں سب کچھ قریب قریب ہی تھا۔ ماہ رمضان کے آتے ہی والد صاحب مرحوم کی طرف سے حکم صادر ہوتا کہ مغربین کی نماز ہر صورت میں مرکزی مسجد وامام بارگاہ قصر بتولؑ میں ادا کرنی ہے تمام سستی کو دور کرتے ہوئے ہم آمادہ تسلیم ِحکم ہوتے۔ مسجد میں آنے والے اکثر نوجوانوں ہمارے جاننے والے تھے اور بزرگ والد محترم کے شناسا تھے اس لیے گھر سا ماحول لگتا علی بھائی اپنے بردران کے ساتھ ایک سائیکل پر بیٹھ کر آ جاتے علی بھائی ڈرائیور ہوتے اور طیب چھوٹا سا آگے بیٹھا ہوتا۔

شب ہائے قدر میں شب بیداری کا اپنا ہی سرور تھا دعائے کمیل اور دعائے جوشن کبیر کی تلاوت ماحول کو روحانی بنا دیتی تھی۔ ساتھ ساتھ سیاسی باتوں کے لیے الگ سے وقت نکال ہی لیا جاتا تھا تیسری منزل وضو خانے کے ساتھ گھنٹوں کھڑے ہو کر محفلیں کیں۔ قصر بتولؑ میں نماز کے بعد کھانا ہوا کرتا تھا یہ جو افطار پر دسترخوان کے نام نہاد آداب آئے ہیں علی بھائی گواہی دیں گے ہم ان سے زیادہ کو خود تجربے سے دریافت کر چکے تھے کہ کہاں بیٹھنا ہے؟ کس ترتیب سے کھانا ہے اور کب رفتار کو ڈبل کرنا ہے۔

یوم علی ؑ پر اکیس رمضان کا جلوس نہیں بھولتا والد صاحب مرحوم اور انکل آغا ریاض مرحوم دونوں بڑی تاکید کرتے تھے کہ جلوس میں لازمی شرکت کریں کیا محبت تھی انکل آغا ریاض حسین مرحوم اور والد محترم میں اور وجہ محبت عشق حسین ؑ تھا کئی بار دیکھا دونوں امام حسینؑ کا ذکر کر رہے ہیں ساتھ ساتھ گریہ جاری ہے۔ انکل آغا ریاض نے آنا اور آتے ہی حکم جاری کرنا بیٹا ایک عدد چائے میٹھاکم پتی دودھ تیز حاضر کی جائے اور میں جیسے منتظر ہوتا تھا فورا دوڑ پڑنا اور ایک کی جگہ ڈیڑھ کپ حاضر کر دینی۔

مجھے خوش کرنے کے لیے والد صاحب کی طرف اشارہ کر کے کہتے بیٹا یہ ہمارے بزرگ ہیں ان کی عمر اس وقت کوئی ساڑھے چار سو سال تو ہو گی وہ یہ اس انداز سے کہتے کہ جتنا بھی بور بیٹھا ہوتا بے اختیار ہنسی نکل جاتی تھی۔ کئی بار دیکھا جوگی چوک کے ہوٹل پر سامنے پراٹھا، چائے کا کپ ہاتھ میں اور مصروف گفتگو ہیں۔ شہر چونکہ چھوٹا تھا اس لیے وہاں چائے پینے والے بھی مستقل تھے وہ ایک دوسرے کو جانتے ہی تھے اس لیے کوئی اجنبی نہیں ہوتا تھا چار پائیوں پر گروہ در گروہ بیٹھے ہوتے اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد زور دار قہقہہ گزرنے والوں کو متوجہ کرتا رہتا تھا۔

میں افطاریوں کا ذکر کر رہا جیسے ہی قصر بتول ؑ کی افطاری ختم ہوتی قصر بتول ؑ سے نکلتے اور فورا انکل زاہد کے گھر پہنچ جاتے جن کے ہاں ان دنوں میں نیم مقیم تھا۔ انکل اور آنٹی بھی اس دور میں فرشتہ صفت انسان ہیں یہ میرے منتظر ہوتے جیسے ہی پہنچتا آنٹی کے ہاتھ کا بنا لذیذ کھانا منتظر ہوتا، آپ اندازہ لگائیں افطاری ہو چکی ہے، اس کے بعد ایک کھانا بھی ہو چکا ہے اب یہاں پہنچنے پر دوسرا کھانا بالکل تیار ہے۔ ہم اسے بالکل اسی طرح کھاتے جیسے خان نے کہا تھا تم گنتی میں بے ایمانی کرتے ہو خان شروع سے کھائے گا۔

اس وقت گلفام پیدا نہیں ہوا تھا شاید جب میں اسلام آباد منتقل ہوا وہ اس سے ایک سال پہلے پیدا ہوا، خدا عمر دراز کرے۔ آنٹی کے ہاتھ کی بنی سحریاں اور افطاریاں بہت یاد آتی ہیں اور کبھی تو خواب میں ساہیوال پہنچ کر آنٹی کو پتہ چلے بغیر افطاری کر بھی آتا ہوں۔ آنٹی نے میرے بہت نخرے برداشت کیے اللہ انہیں جزائے خیر دے ایک بار انہوں نے کہا تھا ندیم تم تو سبزیاں بالکل نہیں کھاتے اور اسی طرح بہت سی چیزیں نہیں کھاتے اب اسلام آباد میں کیا کرتے ہو؟

میں ان سے عرض کیا تھا آنٹی اب میں سب کچھ کھا لیتا ہوں۔ پردیس ایسی چیز ہے جو دوسرا آپشن دیتا ہی نہیں بلکہ بعض اوقات تو پہلا آپشن بھی دن میں ایک بار ہی ملتا ہے وہاں نہ کھانے کا سوال نہیں ہوتا۔ کیا خوبصورت دن تھے کالج جانا اور وہاں بھی صرف لائبریری میں رہنا کلاس تو خیراس وقت تک کم ہی اچھی لگی بس اپنی پسند کی کتابیں نکلوا کر پڑتا رہتا تھا اور دو تین اخبار بھی باقاعدگی سے چاٹ جاتا تھا۔ گورنمنٹ کالج ساہیوال سے نکل کر ننگل انبیاء سکول کے سامنے سٹوڈنٹ فروٹ چاٹ والے بابا جی سے ہاف پلیٹ فروٹ چاٹ اور ایک گلاس پانی روح کو تازہ کر دیتا تھا، گرمیوں میں شہتوت کے درختوں کا گھنا سایہ اور ساتھ بہتی نہر ایک اور ہی دنیا کا منظر پیش کرتی تھی۔

بہت سال بعد ایک دن میں وہاں گیا تو بابا جی موجود نہیں تھے، میں نے وہاں سے وہی ہاف پلیٹ کھائی اور پانی پیا تیس فیصد مزا باقی تھا باقی شاید وقت کی آندھی لے گئی یا ہم ہی بھول گئے۔ میں نے اٹھتے ہوئے پوچھا جوان بابا جی نظر نہیں آ رہے؟ شاید میرے طرح گورنمنٹ کالج ساہیوال کے بھولے بھٹکے مسافر سالوں بعد آ کر یہ سوال پوچھتے رہتے ہوں گے کہ جو بابا جی کے بغیر اس چاٹ کا اور چاٹ کے بغیر کالج کی زندگی کا مزا نہیں لے سکتے اس نے بھرائی آواز میں کہاتھا بھائی لگتا ہے بہت عرصے بعد آئے ہو بابا جی کو فوت ہوئے مدت گزر گئی میں بڑی تیزی سے پیسے دے کر چل دیا کہ کہیں میری آنکھوں میں بے تاب پانی اپنے وجود کا اظہار کر کے اسے غمگین نہ کر دے۔ آج ہی کہیں کہہ رہا تھا ہمارا اب اپنے آبائی گاؤں سے صرف قبر کا تعلق رہ گیا ہے کچھ قبریں ہمیں گاؤں کھینچ لے جاتی ہیں اور شاید ہم بھی وہاں ایک قبر کی خواہش رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).