آزادی اظہار کا عذاب اور کم حوصلہ معاشرہ


بچوں کے سکول سے چھٹیاں ہوئیں تو جو تھوڑا بہت وقت اپنے لئے نکلتا تھا وہ بھی گیا۔ لکھنا بھی اور پڑھنا بھی تو بالآخر شامت چلتے پھرتے تبصروں کی آ گئی۔ ایک دو سٹیٹس اپ ڈیٹ، ایک دو لوگوں سے چلتے پھرتے سوشل میڈیا پر اختلاف رائے اور ایک ہی دن میں کئی دوست خفا ہوئے، کچھ نے گروپ چھوڑا کچھ لوگ فیس بک پر بلاک کر گئے اور صرف دوست ہی نہیں کئی ڈیپی دیکھ کر چپکے سے بیٹھے دوستی کے شوقین بھی فٹا فٹ نکلے۔ سوچا فرینڈ لسٹ کو فلٹر کرنے کا یہ طریقہ بھی خاصا بہتر ہے کہ سوشل میڈیا پر سیاسی گفتگو کی جائے، نفرت پھیلانا بھی اک کام ہے اور کٹوتیاں کرنے میں بڑا کام آتا ہے۔ کم سے کم انگارے نگلتے حروف لوگوں کو ڈیپی کے زیر اثر نہیں آنے دیتے۔

ہمارے ہاں فیشن بن چکا ہے خود کو ایلیٹ کلاس دکھانے کے لئے ہم بلند بانگ قہقہے لگاتے ہیں، مذہب کا مذاق اڑاتے ہیں اور فوج کو گالی نکالتے ہیں۔ دراصل ایسا کر کے ہم خود کو صرف خود کو اس عقیدت کے دھارے سے خارج کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو کچھ عرصہ پہلے تک سب پر چھائے رہتی تھی۔ تو خود کو خاص ثابت کرنے کے لئے ہم اس مشہور زمانہ سوچ کے خلاف جاتے ہیں، سر اٹھا کر ماتھے پر لبرل اور لیفٹی کا بورڈ لگاتے ہیں، اور پھر سوشل میڈیا پر اور عام زندگی میں جی بھر کر دوسری سمت والوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ کیا ہم اپنے اوپر ہنس رہے ہیں؟

یہ ضروری بھی نہیں کہ ساری دنیا دن کو دن کہ رہی ہے تو جھوٹ کہہ رہی ہے۔ یہ ضروری بھی نہیں کہ عام ہو جانے والی ہر بات جھوٹ ہو ایسے ہی جیسے یہ بھی ضروری نہیں کہ مخالف کی جانے والی ہر بات سچ ہی ہو۔

یہ وہ لوگ ہیں جو خود کو پاکستان کے ذہین ترین دماغ سمجھتے ہیں۔ ، خود کو پڑھا لکھا ثابت کرنے کے لئے دوسروں کو جاہل کہنے والا انٹیلیجنٹسیا، اور اپنی انگلش کی بڑ مارنے کے لئے دوسروں کی غلطیاں نکالنا ضروری سمجھنے والا۔ جنہوں نے باپوں کے پیسوں سے مہنگے اداروں سے تعلیم لی ہے، اردو نہیں آتی مگر اس غریبوں کی زبان کا کرنا بھی کیا ہے کہ انگلش ہمارے گھر کی باندی ہے اور ایک زبان پر عبور ہی ہماری تمامتر قابلیت ہے پھر فلسفہ، تاریخ، منطق، چاہے چولہے میں جائیں ہمارے سامنے کیا بیچتے ہیں۔

مجھے حیرت بھی ہوئی اور کئی نئے رویے بھی سوجھے۔ احساس کمتری اور برتری دراصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ دونوں کا مطلب ہے کہ اندر کہیں خرابی ہے، کوئی محرومی ہے جو واضح ہے تو کمتری ہے، اور پس پردہ ہے تو برتری ہے۔ بڑے بڑے عہدوں پر بڑی یونیورسٹیوں میں بیٹھے لوگ بھی تعصب، عدم برداشت، اور عدم تحفظ کا شکار ہیں تو پھر ان کروڑوں لوگوں سے کیا شکایت کی جائے جو ایک دو بڑے شہروں سے پرے وہاں رہتے ہیں جہاں سورج کی روشنی تو مکمل پہنچتی ہے مگر معیاری تعلیم، آسائیشیں اور سرکاری سہولیات نہیں پہنچتیں۔

اگر وہ کلاس جو سوسائٹی کو راستہ دکھاتی ہے، ان کے لئے اقدار و روایات کی تشکیل دیتی ہے اگر وہی ان سب سے عاری ہے تو پھر جس تک یہ تعلیم اور یہ معیار زندگی پہنچا ہی نہیں ان سے کیا شکایت کیجیے۔ پھر اگر پاکستان میں سیاسی پارٹیوں سے لے کر میڈیا تک، سیاست سے لے کر مذہب تک، شہر سے لے کر تعلیمی اداروں تک ہر جگہ ہر بنیاد پر نفرت ابل رہی ہے تو اس میں اچنبھے کی بات کیا ہے؟

ہمارا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم دوسروں کے گال گلابی دیکھ کر اپنے منہ تھپڑوں سے لال کر لیتے ہیں۔ یہ نہیں سو چتے کہ ہم میں اور دوسروں میں کیا فرق ہے۔ شاید اب وقت ہے کہ پرویز مشرف سے ایک کریڈٹ واپس لے کر اس پر ایک اور الزام لگایا جائے اور وہ میڈیا کو آزادی دینے کی کوشش۔ دنیا کے ممالک میں تعلیم، ترقی، شعور میں ہم آخری نمبروں پر ہیں مگر نقل ہم نے امریکہ اور برطانیہ اور یورپ کے آزاد میڈیا کی کرنی ہے۔ امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی ڈیڑھ صدی پرانی ہے، برطانیہ کی آکسفورڈ دس صدیوں سے بھی پرانی ہے اور ان کے ہاں اٹھانوے فی صد آبادی تعلیم یافتہ ہے۔

جو قومیں دس صدیوں سے پڑھ رہی ہیں ہمیں ان کے طریقے اپنانے ہیں، ان سے مقابلہ کرنا ہے مگر ان کی طرح دس صدیاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد نہیں بلکہ ان کی اندھا دھند تقلید کر کے یا ان کو اندھا دھند گالیاں نکال کر۔ دس صدیوں سے تعلیم حاصل کرتی قوم کی نقل کرتے آپ سوچتے نہیں کہ آپ کی دس فی صد آبادی بھی سیکھنے سمجھنے کے اس عمل میں سے گزری نہیں جس مفید عمل میں سے وہ قومیں دس صدیوں سے گزر رہی ہیں۔ پنجابی کے ایک محاورے کا آسان ترجمعہ ہے کہ اس سونے کا نہ ہونا بہتر ہے جو کان میں پہننے سے کان ہی پھٹ جائے۔

تو ہم نے اپنی ایسی قوم کو جس کے تعلیم یافتہ طبقے میں بھی ابھی تحمل، رواداری اور برداشت کا مادہ جنم نہیں لے سکا اس کے ہر فرد کے سامنے آپ نے آزاد (اگر اسے آزاد میڈیا مان بھی لیا جائے تو) میڈیا کا ڈرامہ رچا کر عوام کو اپنے بال نوچنے پر لگا دیا ہے۔ ابھی تو ہمارے لوگ دس طرح کے فلٹرز لگائے بغیر اپنی تصویر برداشت نہیں کر سکتے اور آ پ نے ان کے سامنے سارے حقائق کے کچرے کے ڈھیر لگا کر اس معاشرے کو ایک آفت میں مبتلا کر کے رکھ دیا۔

بے ہنگم میڈیا کی آزادی میں مسابقت کی دوڑ نے سیاسی، انفرادی، یا معاشی مفادات کی خاطر وہ حشر بپا کیا گیا ہے کہ ملک تو ملک، گھروں اور خاندانوں تک کا شیرازہ بکھر کے رہ گیا۔ جس ملک میں پہلے شیعہ سنی اختلاف تھے، یعنی بڑے بڑے گروہوں کے بیچ، وہاں کے ہر گھر میں ہر بندہ ایک دوجے سے سیاسی پارٹی کی بنا پر ٹوٹ چکا۔ سوائے مفاد پرست طبقے کہ کہ جو اپنی طاقت اور مفادات کی خاطر ان نفرتوں کو فروغ دیتے کامیابی سے پروان چڑھ رہے ہیں، ہر عام فرد، پڑھا لکھا یا انپڑھ، باشعور یا بے شعور، چھوٹا یا بڑا ایک اضطراب ایک نفرت کی زد میں آ چکے ہیں۔

مذہب، فرقہ سے شروع ہو کر اب یہ نفرت برادری، سیاسی پارٹی، شہروں، علاقوں، زبانوں تک اتنی شدت سے پھیل چکی کہ کوئی ایک ہاتھ دوسرے کو تھام نہیں پا رہا۔ ہم جیب میں پتھر ڈالے ہیروں کی تلاش کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ فیس بک سے لے کر ٹویٹر تک اور شہروں سے لے کر قصبوں تک نعروں، گالیوں، دھمکیوں کے اور کچھ نہیں بچا۔ ہر کوئی دوسرے کا گریباں چاک کرنا چاہتا ہے۔ سوشل میڈیا کو ہمارے ہاں کچرہ کنڈی سمجھا جاتا ہے جس میں دیوار پر اپنے ناخالص جذبات چسپاں کیے جاتے ہیں۔

ہر کوئی خود کو مظلوم کہنا چاہتا ہے۔ انسان کا سینہ چیرا جائے تو کوئی انسان پرسکون نہ نکلے مگر انہیں انسانوں پر اقدارو روایات کے صحیفے اترے ہیں، انہیں انسانوں اور انہیں معاشروں کے لئے اخلاق و کردار و نظم و نسق تشکیل دیے جاتے ہیں۔ نفس کی پوجا کو پروان چڑھایا جائے گا تو معاشرے کو آگ تو لگے گی ہی۔ آزادی رائے کی بے تحاشا آزادی اس قوم کو زندہ نگل نہ جائے کہیں۔

قدرت کا قانون ہے کہ شر جلدی پھیلتا ہے اسی لئے نفرت کی سیاست تیزی سے رفتار پکڑتی ہے جبکہ محبت اور رواداری کو چلنے کے لئے بہت محنت اور ریاضت چاہیے، سال اور صدیاں چاہییں، نسل در نسل ریاضت چاہیے ورنہ وحشی بننے کے لئے کچھ نہیں کرنا پڑتا صرف ہر عمل اور اخلاق پر سے کنٹرول چھوڑ دینا پڑتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا آزادی کی ریس میں آگے بڑھنے کی بجائے یہ مقابلہ پہلے ہم شعور، علم اور اخلاق کا رکھ لیتے! کیا ہی اچھا ہوتا اگر ہم میڈیا کو آزادی کرنے سے پہلے اپنے لوگوں کو کم سے کم سو سال تعلیم دے لیتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).