یوم تکبیر قومی دن کیسے بن سکتا ہے


پاکستان مسلم لیگ ن نے ہر سال کی طرح اس بار بھی 28 مئی کو یوم تکبیرشایان شان طریقے سے منایا۔ 21 سال قبل 11 مئی کو جب انڈیا نے پوکھران میں تین ایٹمی دھماکے کیے تو اس کے فوراً بعد اندرونی اور بیرونی دباؤ پاکستانی حکومت اورفیصلہ سازوں پر آ گیا۔ سیاسی جماعتیں اور پاکستانی عوام انڈیا کے ایٹمی دھماکوں کا فوری جواب چاہتے تھے، اور دنیا کی بڑی طاقتیں پاکستان کو کسی بھی قیمت پرایسا کرنے سے باز رکھنا چاہتی تھیں۔

پوری دنیا کی نظریں پاکستان پر تھیں۔ ایک طرف بھارت دھمکیوں اور اسرائیل کی مدد سے پاکستان کی ایٹمی تجربہ گاہوں پرحملے کی تیاری کررہا تھاتو دوسری جانب مغربی ممالک پابندیوں سے ڈرا کرپاکستان کو ایٹمی تجربے سے بازرکھنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ اْس وقت کے امریکی صدربل کلنٹن نے بھی پانچ بار فون کرکے وزیراعظم نواز شریف کو ایٹمی دھماکہ نہ کرنے کا مشورہ دیا جبکہ اس کے بدلے کروڑوں ڈالر امداد کی پیشکش بھی کی گئی۔

عالمی دباؤ کے باوجود اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے جرات مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 28 مئی کے دن 5 ایٹمی دھماکے کرنے کا حکم دے دیا اورصوبہ بلوچستان میں چاغی کے پہاڑوں پر نعرہ تکبیر کی گونج میں ایٹمی تجربات کردیے گئے۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان نے مسلم دنیا کی پہلی جبکہ دنیا کی 7 ویں ایٹمی طاقت بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ پاکستان کے جوہری پروگرام کے خالق اور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے مطابق پاکستان کا جوہری پروگرام امریکا اور برطانیہ سے زیادہ محفوظ ہے۔

پاکستان میں دھائیوں سے سیاسی المیہ رہا ہے کہ سیاسی جماعتیں بڑے سے بڑے قومی پراجیکٹ کو اپنی جماعت کا پراڈیکٹ سمجھ لیتی ہیں اور اس پر ساری زندگی عوام سے ووٹ مانگتی رہتی ہیں۔ یہی کچھ ایٹمی دھماکوں کے ساتھ بھی ہوا۔ اتنے بڑے قومی دن کو ہر سال صرف مسلم لیگ ن کے رہنما اور کارکن پورے پاکستان میں ’یوم تکبیر‘ اہتمام کے ساتھ مناتے ہیں۔

لہذا 28 مئی کو یوم تکبیر کے سلسلے میں منعقدہ تقریب میں شرکت کرنے مسلم لیگ ن کے رہنما داکٹر طارق فضل چوہدری کی دعوت پراسلام آباد میں واقع ان کے آشیانے پرپہنچے۔ تقریب کے مہمان خصوصی مسلم لیگ ن کے چیئرمین راجہ ظفر الحق تھے۔ تقریب میں سابق وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب اور سابق ایم این اے انجم عقیل سمیت پارٹی کے دیگر عہدے داران اور کارکنان کی تعداد میرے ساتھ بیٹھے ”مہمان خاص“ نے اپنی خدمات سرانجام دیتے ہوئے بتائی کہ ”سر تقریب میں یہی کل 500 کے قریب افراد ہوں گے“۔

ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کی زیر سرپرستی اس تقریب میں میاں نواز شریف کی قربانیوں، ان کے دور میں ایٹمی دھماکے کرنے کے دلیرانہ فیصلے اوراس کے نتیجے میں درپیش مشکلات کا ذکر ہوا۔ اسی سلسلے کی مرکزی تقریب کا انعقاد لاہور میں ہوا، جس مین مریم نواز شریف اور حمزہ شہباز شریف سمیت پارٹی کے اعلی عہدیداران اور کارکنان نے شرکت کی۔ مریم نواز اور حمزہ شہباز نے اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ تو کیا مگر اس کے ساتھ ہی تمام شرکاء نے عمران خان اور ان کی ناقص حکومتی کارکردگی کو نشانہ بنایا۔ میری خواہش تھی کہ لاہور کی مرکزی یوم تکبیر کے اجتماع میں مریم نواز یا حمزہ شہباز وہ بات کرتے جو اسلام آباد میں راجہ ظفر الحق نے کی کہ ”یوم تکبیر صرف مسلم لیگ ن کے لئے ہی یادگار اور اہم دن نہیں بلکہ اس دن کو ساری سیاسی جماعتیں پوری قوم کے ساتھ مل کر منائیں“۔

انہوں نے بالکل درست فرمایا کیونکہ ایٹمی دھماکوں کے بعد جو استحکام پاکستان کو ملا ہے اس کے لئے اللہ کا شکر گزار صرف پاکستان مسلم لیگ ن یا نواز شریف کو ہی نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ پوری قوم کو بھی ہونا چاہیے۔ قوم میں مسلم لیگ ن کے ووٹرز بھی ہیں، پیپلز پارٹی کے ووٹرزبھی اور تحریک انصاف سمیت باقی تمام سیاسی پارٹیوں کے ووٹرز اور سپورٹرز شامل ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے علاوہ ہماری فوج کو تو خاص کر یوم تکبیرمنانا چاہیے، کیونکہ ایٹم بم جیسے کارآمد ہتھیار کے استعمال کا تعلق براہ راست ہماری بہادر افواج کے ساتھ ہے۔

اسی لئے سب سے پہلے فوج کو چاہیے کہ کبھی بھی کوئی بھی حکومت ہو 28 مئی کو ہماری فوج تمام سیاسی جماعتوں اور پوری قوم کے ساتھ مل کر جوش اور ولولے کے ساتھ ہر سا ل یوم تکبیر منائیں۔ مگر! کیونکہ 28 مئی کو پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کے ساتھ میاں نواز شریف کا نام پیوست ہے لہذا سیاسی منافقت اور بغض نوا زمیں یوم تکبیر صرف اور صرف مسلم لیگ ن کا حصہ بن چکا ہے۔ پاکستان کے چپے چپے کی حفاظت کرنا ہماری فوج کی ذمہ داری ہے جس سے وہ کبھی غافل نہیں ہوئے۔ لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایٹم بم کی موجودگی سے ہماری عسکری قوت، رعب اور دبدبے میں مذید اضافہ ہوا، جس کی وجہ سے بھارت سمیت پاکستان کے دشمن ہماری فوج سے پنجہ آزمائی سے گریز کرتے ہیں۔

مسلم لیگ نے بھی تو آج سے پہلے کبھی یوم تکبیر کا کریڈٹ دوسری سیاسی پارٹیوں میں بانٹنے کی کوشش نہیں کی۔ جنرل ایوب اور جنرل یحیی خان کے علاوہ جنرل ضیاء الحق اور مشرف ایٹمی قوت کے حصول کے زبردست حامی رہے۔ عید کے بعد عمران ہٹاؤ تحریک میں ن لیگ کی بڑی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی ہے، اور ذوالفقار علی بھٹو پاکستان میں ایٹمی پروگرام کے بانی مانے جاتے ہیں۔ خوش نصیبی جانئے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خالق ڈاکٹرعبدالقدیر نے 1974 میں وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو خط لکھ کرایٹمی پروگرام کے لیے کام کرنے کی پیشکش اور اسی سال کہوٹہ لیبارٹریز میں یورینیم کی افزودگی کا عمل شروع کردیا گیا۔

پاکستانی کی ایٹمی طاقت کئی عالمی طاقتوں سمیت امریکہ نے قطعی پسند نہیں کیا اور اس زمانہ کے وزیر خارجہ کیسنجر نے تو کھلم کھلا دھمکی دی تھی کہ اگر بھٹو نے ایٹمی ری پراسسنگ پلانٹ کے منصوبہ پر اصرار کیا تو وہ نہ رہیں گے۔ اور آخر کار 1977 میں بھٹو نہ صرف اقتدار سے معزول کردیے گئے بلکہ 1979 میں بھٹو سولی پر چڑھا دیے گئے۔ پیپلز پارٹی تو پاکستان کوایٹمی قوت بنانے کی قیمت اپنا قائد کھو کر دے دی۔

پاکستان کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن سے میری دل کی گہرائیوں سے مخلصانہ درخواست ہے کہ وہ شوق سے عمران ہٹاؤ تحریک چلائیں، لیکن مریم نواز شریف اور بلاول بھٹو زردار ی صرف ایک مشترکہ بیان دے دیں کہ دونوں جماعتیں اپنی تمام اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر آئندہ 28 مئی کو یوم تکبیر مل کر منائیں گے اور عسکری اداروں کو اس دن کو منانے کی سرپرستی دیتے ہیں۔ یقین کریں اس دن صحیح معنوں میں یوم تکبیر پاکستان کاقومی دن بن جائے گا۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے اس ایک اعلان سے پاکستان کے دشمنوں کے گھر صف ماتم بچھ جائے گی۔ بحثیت قوم ہم ایک دوسرے سے جتنا مرضی سیاسی اختلاف رکھیں یہ ہمارا معاشرتی اورآئینی حق ہے، مگر قومی استحکام اور سالمیت پر کسی قسم کا اختلاف قوموں کو تقسیم کر دیتا ہے جس کی وجہ سے بنگلہ دیش جیسے سانحے جنم لیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).