حضور صدائے حق بلند ہونے دیں


گزشتہ چند ہفتوں میں حکومتی ایوانوں سے، حزب اختلاف کی محفلوں سے، ججز کے احتساب، چیرمین نیب کی مبینہ رومانوی گفتگو، ویڈیو سین اور لاکھوں شہداوں اور غازیوں کی وردی کو داغدار کرنے والوں کے حوالے بہت اہم خبریں سامنے آئیں۔ حکومت نے پوسٹر بوائے سے لے کر پیرا شوٹرز تک کو تبدیل کیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی غیروں کو گلے لگایا۔ مقصد نظام کو بہتر کرنا تھا۔ جب اسد عمر وزیر خزانہ تھے تو کہا گیا کہ یہ نالائق آدمی ہے اس کے بس کی بات نہیں۔ وہ تبدیل ہوئے تو حفیظ شیخ صاحب آئے، پھر یہ کہا گیا کہ یہ آئی ایم ایف کے ایجنٹ ہیں۔

لانگ سٹوری شوٹ، ڈالر کی اونچی اُڑان زیادہ تیزی سے تو نہیں لیکن! کچھوے کی چال کی رفتار کے برابر واپسی کی طرف گامزن ہے۔ پریشان وزیراعظم عمران خان صاحب کے اعتماد میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔ وہ کہتے ہیں کہ چند مہینوں میں حالات بہتری کی طرف گامزن ہوجائیں گے۔ شبر زیدی صاحب کی تعیناتی کو تاجروں نے خوش آمدید کہا۔ اس حکومت میں پہلی بار ملک کے بڑے بڑے سرمایہ کار تھوڑے مطمئن نظر آئے۔ یقیناً مہنگائی ہے، لوگ ابھی بھی پریشان ہیں۔ اس ملک کی خاطر تھوڑا صبر کر بھی لیا جائے گا تو کیا ہو جائے گا؟

افطار پارٹی گروپ کی بات کرتے ہیں جو سب اکٹھے ہوئے اور عید کے بعد احتجاج کا پلان ہے۔ میری عوام سے اپیل ہے کہ اگر یہ صاحبان سانحہ ساہیوال، فرشتہ زیادتی کیس، ایڈز کی تشخیص پہ قتل ہونے والی جوان لڑکی، میٹرو بس منصوبہ یا پھر مہنگائی کے لیے سڑکوں پہ نکلیں تو ان کا ساتھ ضرور دیجیے۔ لیکن! اگر یہ سب سڑکوں پہ آئیں اور ابو بچاؤ تحریک چلائیں۔ تو خدارا! آپ ان سے دور رہیں۔ کوئی مائی کا لعل ہے جو ان سے پوچھے کہ ایک سال تک جب ضرورت تھی کیوں خاموشی رہے۔

کسی نے لوہے کے چنے والے کا حال پوچھا۔ کوئی تو پوچھے کہ حضور لندن والے صاحب واپس کیوں نہیں آرہے! یوم تکبیر والے دن رانا ثنا اللہ اپنے محبوب شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز کو پرموٹ کررہے تھے۔ مریم نواز صاحبہ تشریف لائیں بجائے اس کامیاب دن کی تاریخ پہ کچھ لب کشائی کرتیں، انہوں نے آتے توپوں کا رخ عمران خان کی طرف کردیا۔ کوئی ہے صدائے حق بلند کرنے والا، کہ میاں صاحب ماضی میں آپ کیا انہی ججز اور عدلیہ کے بارے کہتے رہے ہیں۔

آج میاں نواز شریف صاحب جیل سے حکم دے رہے ہیں۔ کہ عدلیہ کی آزادی کے لئے گھروں سے نکلیں اور حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ لوگوں کو جلد بھولنے کے عادت ہے لیکن! مجھے کیوں نکالا کا جملہ ابھی بھی یقیناً یاد ہوگا۔ ان پانچ ججوں نے نکالا اور آف دی کیمرہ بہت کچھ بولا گیا جو ابھی قلم اجازت نہیں دے رہا کہ لکھ پاؤں۔ یہ سب اس لیے کہا جارہا ہے کہ عمران خان ان کو چھوڑنے کو تیار نہیں۔ اگر وہ اپنے بیانیے سے ہٹ گئے تو ان کے پاس تو کھونے کو بھی کچھ نہیں بچے گا۔ یہی چیرمین نیب کے خلاف بولنے والے آج ان کا دفاع کررہے ہیں۔ ماننا پڑے گا کہ سیاست میں سب چلتا ہیں اس موقع پہ خواجہ آصف صاحب کا جملہ یاد آ گیا ہیں کہ کچھ تو۔ ۔ ۔ کچھ تو۔ ۔ ۔

ماضی میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے سابق چیف جسٹس کو معزولی کے دنوں میں سیاسی شخصیت اور جانبدار کہا، جیسے ہی بحال ہوئے تو سب ان کے حق میں بولنا شروع ہوگئے۔

سپریم کورٹ کے جسٹس فائز عیسی اور سندھ ہائی کورٹ کے جج کے کے آغا کے خلاف بیرون ملک پراپرٹی ڈیکلیر نہ کرنے پہ صدر پاکستان کی جانب سے آئین کی شق 209 کے تحت ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجا گیا ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان اور ان کے ساتھ سپریم کورٹ کے دو سنیر ججز جن میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس شیخ عظمت سعید اور پانچوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان ہوں گے۔ اب اس ریفرنس کی سماعت چودہ جون کو ہوں گی۔

سمجھ سے باہر ہے یہ چیز مان بھی لیں کہ یہ حکومت کی ایک سازش ہے تو اس میں کون سی اتنی بری بات ہے اگر ججز صاحبان خود پر لگائے گئے الزامات کا جواب دیں اور سرخرو ہو جائیں تو ان کی ہی عزت میں اضافہ ہوگا۔ اگر قصوروار ہیں توقانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔

پاکستانی تاریخ میں ملٹری کورٹس کے اس لیول پہ فیصلے ہونا اور یوں پبلک ہونا یقینا قابل تعریف عمل ہیں۔ ہائی رینک افسر ز کو سزائیں ہونے سے کم از کم فوج کے اندر احتساب نہ ہونی کی باتیں تو ختم ہوں گی اور یہ سب کے لئے واضع پیغام ہے کہ احتساب سب کا ہوگا۔ No one is above the law۔

آخر میں ایک چھوٹا سا قصہ بیان کرتا چلو، امریکی صدر جان ایف کینڈی نے سیام فام نسل کے باشندوں کے حقوق کے لیے بہت اہم کردار ادا کیا۔ جان ایف کینڈی کو ہیوسٹن میں 1962 میں ایک مجمعے کو دوران ایک سیاہ فام نے دل بھر کے گالیاں دیں اور صدر صاحب نے گالیاں سنیں اورتقریر ختم کرکے مسکراتے ہوئے چلے گئے۔ راستے میں سٹاف نے کہا کہ سر اس نے آپ کو گالی دی اسے گرفتار کرلیتے ہیں، امریکی صدر نے جواب دیا کہ اگر آج یہ گرفتار ہوجاتا تو کسی سیاہ فام میں آئندہ جرات نہ ہوتی کہ وہ صدائے حق بلند کرتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).