تبدیلی آئی ہے


یہاں مراد پی ٹی آئی والی تبدیلی نہیں ہے بلکہ ذرائع ابلاغ کی اصلی اور انقلابی تبدیلی ہے۔ ماضی میں صرف سرکاری میڈیا ہوا کرتاتھا۔ مگر جمہوریت کے ارتقا ٕ کے ساتھ ساتھ میڈیا آزاد ہوتا گیا اور نجی میڈیا نے سرکاری میڈیا کو پیچھے چھوڈ دیا۔ نجی میڈیا نے انسانی حقوق اور جمہوریت کے سفر میں بے مثال قربانیاں دیں۔ جس کے نتیجے میں دنیا میں آزادی اظہار رائے اور معلومات تک رسائی کو اہم اور بنیادی حقوق کی حیثیت مل گئی۔

اقوام متحدہ اور بعد ازاں رکن ممالک نے ان حقوق کی اہمیت کے پیش نظر خصوصی قوانین بنا کر ان کو تحفظ فراہم کرنے کا عہد کیا۔ مگر اس کے باجود آج تک انسان ان دونوں حقوق کے حصول میں مکمل کامیاب نہیں ہوا ہے۔

دنیا کے کئی ممالک میں آج بھی پرائیوٹ میڈیا کا وجود نہیں ہے۔ بعض ممالک میں پرائیوٹ میڈیا کا وجود تو ہے مگر وہ کنٹرولڈ ہے۔ ان کا دیکھا دیکھی جن ممالک میں چند سال قبل تک پرائیوٹ میڈیا قدرے آزاد تھا اب وہاں بھی اس کو زیر نگین کرنے کا کام جاری ہے۔

پرائیوٹ میڈیا چونکہ حکومت کی اجازت یعنی ڈکلریشن کے بغیر کام نہیں کر سکتا اس لئے اس کو کنٹرول کرنا حکومت کے لئے مشکل نہیں ہوتا ہے۔ ماسوائے ان ممالک کے جہاں حکومتیں آزادی اظہار رائے کی اہمیت سے مکمل آگاہ ہیں اور اس پر سمجھوتہ کرنا مناسب نہیں سمجھتی ہیں۔

انسان شعور رکھنے والا جانور ہے۔ سوچنے، اپنی رائے قائم کرنے اور اس کا اظہار کرنے کی صلاحیت انسان کو دیگر جانوروں سے ممتازکرتی ہے۔ اس لئے انسان کو سوچنے اور اپنی رائے قائم کر کے اس کا اظہار کرنے کا جب تک موقع نہ دیا جائے وہ سکون نہیں پاتا ہے۔ انسان نے روز اول سے اپنے اس حق کے لئے صعبتیں اور تکالیف سہی ہیں۔ انسان کو اپنی رائے کا اظہار کرنے کی قیمت زندانوں اور ٹارچر سیلوں میں ڈالے جانے سے لے کر زندگی سے ہاتھ دھونے کی صورت میں ادا کرنا پڑی ہے۔

ایک طرف انسان اپنے اس حق کے لئے تگ دو کرتا ہے دوسری طرف حکمران اس حق کو سلب کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ کیونکہ حکمرانوں کو یہ خوف ہوتا ہے کہ انسان کی آزاد فکر ہمیشہ حکمرانی کے طور طریقوں پرسوال اٹھاتی اور اس کی تبدیلی کی راہ ہموار کرتی ہے۔ اس لئے دنیا کی کئی نامور شخصیات محض اپنی فکر اور نئی سوچ کی وجہ سے حکمرانوں کے ظلم و جبر کی بھینٹ چڑھی ہیں۔ حکمران جنگوں میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں سے اتنے خوف زدہ نہیں ہوتے ہیں جتنا وہ ایک صاحب رائے کی نئی بات عوام تک پہنچننے یا عوامی سطح پر حکمرانوں کے ناپسندیدہ موضوعات پر مکالمے سے ہوتے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ تمام تر مشکلات کے باوجود انسان اپنے اس بنیادی حق سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ وہ ہر حال میں اپنے اس بنیادی حق کے استعمال لئے راستہ نکال ہی لیتا ہے۔ ماضی میں جب جب اظہار رائے کے ذرائع پر قدغنیں لگیں انسانوں نے نت نیئے زرائع ایجاد کیے۔ انسان کو بولنے پر پابندی لگی تو اس نے لکھ کر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ جس رفتار سے انسانوں کی طرف سے لکھنے اور بولنے کے لئے کلاس روم، جلسہ، جلوس، کتاب، اخبار، ریڈیو، ٹیلی فون، ٹیلی ویژن، لوڈ سپیکر سمیت مختلف ذرائع ایجاد کیے جاتے رہے ہیں اسی رفتار سے حکمران ان تمام ذرائع پر پابندیاں لگانے کے گر بھی ایجاد کرتے رہے ہیں۔

شروع شروع میں سرکاری میڈیا کا آغاز بھی اسی سوچ سے ہوا تھا کہ عوامی رائے کے مقابلے میں سرکار کا اپنا نقطہ نظر شدو مد سے پیش کیا جائے۔ جب انسان نے سرکاری میڈیا کے مقابلے میں پرائیو ٹ میڈیا کی بنیاد رکھی تو اس پر مختلف طریقوں سے قدغنیں لگا ئی جاتی رہیں۔ یہاں تک کی پرائیو یٹ میڈیا سے وابسطہ لوگوں کو سخت سزاوں اور مصائب سے گزرنا پڑا۔ یہ سلسلہ صدیوں جاری رہا۔ آج دنیا جہاں کے بیشتر ممالک میں پرائیو ٹ میڈیا کی حالت سرکاری میڈیا سے مختلف نہیں ہے۔ مگر ہر دور کی طرح اب انسان نے اپنی رائے کے اظہار کے لئے نئے ذرائع ایجاد کر لیا ہے۔ دور حاضر میں ذرائع ابلاغ کا وہ ہتھیار انسانوں کے ہاتھ لگ گیا جس کا تصور آج سے نصف صدی قبل تک بھی ناممکن تھا۔ حکمرانوں کے لئے اب اس ذرائع ابلاغ کو روکنا ایک بڑا چیلنج بن گیا۔

دور حاضر میں سرکاری اور پرائیویٹ میڈیا میں جو سرکار کا موقف چلتا ہے سوشل میڈیا اس کے مقابلے میں عوامی نقطہ نظر سامنے لانے میں دیر نہیں کرتا۔ سوشل میڈیا نے صحافت کا بنیادی تصور ہی تبدیل کر دیا ہے۔ شہری صحافت نے پیشہ ور صحافت کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ جس جس کے ہاتھ میں موبائل اور انٹر نیٹ ہے وہ اب صحافی بن چکے ہیں۔ سوشل میڈیا میں معلومات کی آلودگی اور غلط خبروں کی پر چار اس کا منفی پہلو ضرور ہے۔ مگر اس کا ایل پہلو یہ بھی ہے کہ لوگ بغیر لگی لپٹی اور سنسر شپ کے منٹوں میں حقائق تک پہنچ جاتے ہیں۔

سرکاری اور پرائیوٹ میڈیا کی جگہ لوگ اب سوشل میڈیا کی طرف زیادہ راغب ہیں۔ اس لئے پرائیوٹ میڈیا کو خیر باد کہنے والے سینکڑوں کہنہ مشق صحافی بھی سوشل میڈیا میں اپنا اپنا چینل بنا کر معلومات کا کاروبار کر رہے ہیں۔ کیونکہ سوشل میڈیا خبر کا سب سے آسان اور سیدھا راستہ ہے۔ اب حکمرانوں کے لئے سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنا ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ سائبر کرائم کے قوانین بھی اس ضمن میں زیادہ کار گر ثابت نہیں ہو رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے سوشل میڈیا نے طرز حکمرانی کو بھی چیلنج کر رکھا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہی سوشل میڈیا ہی عرب بہار کا باعث بھی بنا تھا۔ میڈیا کی تاریخ کے اس انقلابی تبدیلی کو روکنا اور سنسر شپ سے گزرانا تو ممکن نظر نہیں آتا تاہم دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق طرز حکمرانی میں تبدیلی لا کر عوام کو مطمئن کرنے کی سبیل پیدا کی جا سکتی ہے کیونکہ روایتی طرز حکمرانی اس وقت سوشل میڈیا میں سخت تنقید کی زد میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).