ناقص ڈیٹا اور ناکام حکمت عملی


اردو زبان میں ڈیٹا کی تعریف ہے، اعداد و شمار کا مجموعہ۔ ہماری زیادہ تر مستقبل کی پالیسییاں ناکام کیوں ہوتی ہیں؟ کیوں کہ جس ڈیٹا کو بنیاد بنا کر یہ بنائی جاتیں ہیں، وہ نہ تو مکمل ہوتا ہے اور نہ ہی درست۔ ہمارا ہر شعبہ زوال کا شکاربی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہے ہے، ایک تو ہمارے پاس پہلے ہی فنڈز کی کمی ہے، اوپر سے جن پروجیکٹس پر دستیاب فنڈز خرچ کیے جا رہے ہیں، وہ مستقبل کی منصوبہ بندی کیے بنا کچھ ہی سالوں میں کسی کام کے نہیں رہنے ۔

صحت کے شعبہ کی مثال ہی لیں لیجیے، پوری دنیا میں سب سے زیادہ ڈیٹا کلیکشن اور انالیسس پر توجہ صحت کے شعبہ میں بہتری لانے کے لیے دی جاتی ہے ۔ ماضی کے ڈیٹا کا مطالعہ مستقبل کی کارآمد پالیسیوں کا ضامن سمجھا جاتا ہے ۔ بد قسمتی دیکھیے وطن عزیز میں اس سلسلے میں کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی، ہونا تو یہ چائیے تھا کہ ہر سرکاری ہسپتال کو اس بات کا پابند کیا جاتا کہ مریضوں کا کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ رکھا جاہے ۔ مگر کمپیوٹرائزڈ تو دور کی بات یہاں تو رجسٹری ریکارڈ بی دستیاب نہیں ۔ وائٹل سٹیٹسٹکس کا ڈیٹا موجود نہ ہونے کی وجہ سے اندازوں کی بنیاد پر صحت جیسا حساس شعبہ چل رہا ہے ۔سرکاری تو ایک طرف، شوکت خانم کینسر ہسپتال جو سب سے جدید ادارہ سمجھا جاتا ہے، اپنا درست ڈیٹا چھپانے اور غلط تشہیر کے لیے استعمال کرنے کے لیے پورے پاکستان میں مشہورہے ۔

ہمارے ناکام تعلیمی شعبہ کے تانے بانے بھی درست ڈیٹا موجود نہیں ہونے سے ملتے ہیں، جس کی وجہ سے ایک طرف تو تعلیمی اداروں میں اعلی تعلیم یافتہ اساتذہ کی کمی بتا کر مزید داخلوں میں پابندی لگائی جا رہی ہے، تو دوسری طرف پچھلے دس سالوں میں 14101 ڈاکٹریٹ تیار ہوئے، جن میں سے زیادہ تر بے روزگار ہیں ۔ یہاں تو ارباب اختیار سے یہ پوچھنا بنتا ہے، کہ جن شعبوں میں اعلی تعلیم یافتہ افراد کی ضرورت نہیں تھی، ان میں لاکھوں کے فنڈز خرچ کر کے ڈاکٹریٹ کیوں تیار کیے؟

سیاحت کی بربادی کی داستان میں دہشت گردی کے علاوہ درست ڈیٹا جمع نہ کرنا ایک اہم عنصر ہے، پاکستان ٹورازم اینڈ ڈویلپمنٹ کارپوریشن اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے ناقابل یقین اعدادو شمار شائع کروانے میں پیش پیش ہے ۔ بہت سے دیدہ زیب مکامات تک رسائی کی کوئی صورت نہیں، نہ ہی موجودہ سڑکوں کی حالت درست کرنے پر کوئی توجہ دی جا رہی ہے ۔ یہاں بی مستقبل کا جھوٹا خواب کہ 2025 میں سیاحت 1 ٹریلین پاکستان کی معیشت میں شامل کرے گی، جس جعلی اعدادو شمار کو بنیاد بنا کر قوم کو دکھایا جا رہا ہے، دوسرے بہت سے خوابوں کی طرح دیوانے کی بڑ ثابت ہونے جا رہا ہے ۔

شماریات کی زبان میں کہا جاتا ہے، ”معیاری ڈیٹا 90% کامیاب پالیسی کی وجہ بنتا ہے“ ۔

ترقی یافتہ ممالک (BIG) بگ ڈیٹا سے فائدہ اٹھانے کی حد تک جا پہنچے ہیں جب کہ ہمارے یہاں تو آج تک سوالنامہ کا انڈیکس کیا ہونا چاہیے، اس کے بارے میں بھی حتمی فیصلہ نہ ہو سکا ۔

پاکستان ادارہ شماریات اکثر کئی نوعیت کے سروے کرواتا رہتا ہے، جس کا مقصد وقت کے لحاظ سے اعداد و شمار میں آئی تبدیلی کو نوٹ کرنا ہے ۔ مردم شماری کے نتائج کراس چیک کرنے کے کام بھی یہ سروے آتے ہیں ۔مگر یہاں بھی سیاسی مداخلت کی وجہ سے درست اعداد و شمار مہیا نہیں کیے جاتے، 19 سال بعد پاکستان میں ہونے والی چھٹی مردم شماری 2017، مارچ 15 سے 25 مئی 2017 کو ہوہی، جس کے اعداد و شمار کے مطابق کل آبادی212742631 ہے۔ 2017 کی مردم شماری کے نتایج بہت سے حلقوں کی طرف سے قبولیت کی سند نہ پا سکیں ۔ انہی اعداد و شمار کو بنیاد بنا کر کیے گے غلط فیصلوں کی وجہ سے ہی موجودہ حکومت اپنے بہت بلند و بالا دعووں سے یو ٹرن لینے پر کئی بار مجبور ہوئی ۔

پاکستان ادارہ شماریات کے علاوہ اور بہت سے سرکاری، نیم سرکاری اور نجی ادارے پاکستان میں کئی طرح کے سروے کرواتے رہتے ہیں، لیکن ہر سروے کروانے والا ادارہ اپنے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوہے کبھی بھی درست اعدادو شمار مہیا نہیں کرتا۔ انہی مہیا کردہ اعدادو شمار کو محققین اپنے مضامین کا، اور پالیسی بنانے والے اپنی پالیسیوں کا حصّہ بنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم مسائل کا باعث بنتی ہے ۔

ماضی میں بھی ہر بر سراقتدار حکومت کا یہی وتیرہ رہا، عوام کو غلط اعدادو شمار بتا کر اپنی کامیاب معیشت کا یقین دلوانا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ، قوم کو غلط اعدادو شمار بتا کر خوش کرنے کے بجاہے، اگر سچ کے کڑوے گھونٹ بھر کر کچھ مشکل فیصلے حال میں لے لیے جائیں، تو مستقبل میں بہتری کی امید کی جا سکتی ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).