آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا


 پاکستان مملکت ِ خداداد ہے، اس کی پاک مٹی شہیدوں کے لہو، ہجرت کے دل سوز لمحات، عفتوں کے لٹنے اورکرپانوں پہ پِروئے جانے کی دل خراش سچائیوں کی امین ہے۔ تو پھر ہم یہ سچائیاں کیوں بھول گئے، اپنے اوپر لاتعلقی کی دبیز چادر کیوں اوڑھ لی کہ کہیں ہمارا ضمیر بیدار نہ ہوجائے۔ اس وقت پاکستان میں انارکی کی وجوہات کیا ہیں، بھائی بھائی کا دشمن کیوں ہے، شیعہ سنی فسادات کی جڑ کیا ہے، مسئلہ بلوچستان کا بروقت اور دیرپا حل ابھی تک شرمندۂ تعبیر کیوں نہیں ہوسکا، این ایف سی ایوارڈز میں وسائل کی غیر مساوی تقسیم کیوں ہے، صنفی، لسانی اور علاقائی بنیادوں پر نفرت کی آگ کس نے سلگائی؟

ہمارے ملک میں ایک بڑا مسئلہ لسانی اور علاقائی بنیادوں پر قتلِ عام کا ہے۔ پچھلے دنوں ایک برطانوی تنظیم نے اپنی جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں یہ عندیہ دیا کہ پشتون اور ہزارہ گروپوں کے درمیان نسلی کشیدگی میں اضافے کا خطرہ بدستور موجود ہے۔ لسانی بنیادوں پر قتل کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی کہ ہمارے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے میں بسوں میں سے افراد کو اتار کر صرف اس بنا پر قتل کر دیا جاتا رہا ہے کہ ان کے شناختی کارڈ کسی اور صوبے کے تھے۔

ایسی نفرت دلوں میں کیسے آ بسی۔ کیا ان مارنے والوں کے دل میں ایک لحظے کو بھی یہ خیال نہ آیا کہ یہ سب لوگ عام انسان ہیں، اور ان کے ساتھ ان کے خاندان بھی منسلک ہیں؟ اور ان کے پیچھے ان کے خاندان کا کیا ہوگا۔ ہمارے سب سے بڑے شہر، کہ جسے روشنیوں کا شہر کہا جاتا ہے، میں حالات اس نہج پر پہنچ گئے تھے کہ شہر کا شہر مختلف حصوں بخروں میں بانٹ دیا گیا۔ ایک حصہ اردو بولنے والے لوگوں پر مشتمل تھا تو دوسرا حصہ مکرانیوں کا۔ مکرانی پٹھانوں کے علاقے میں جانے سے ڈرتے تھے، اور پٹھان، پنجابیوں کے علاقے سے۔ خوف تھا تو صرف موت کا، بوری میں بند لاش کی صورت ملنے کا۔ حالاں کہ سب کے سب کلمہ گو بھی تھے اور پاکستانی بھی!

پاکستان میں انسانی حقوق کی ایک بڑی تنظیم ’ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان‘ نے 2013 کے اوائل میں جاری ہونے والی اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا تھا کہ بلوچستان میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں 200 سے زائد ہزارہ شیعہ ہلاک ہوئے۔ جب کہ اسی سال دو سو سے زائد فرقہ وارانہ حملوں میں 687 افراد مارے گئے۔ پاکستان میں مسلکی اختلافات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی عدم برداشت اور خونریزی کے حوالے سے یہ جواب دیا جاتا ہے کہ انگریز ہی اس کے واحد ذمہ دارہیں۔

کیا ہمارے علماء نفرت کی آگ میں حصے دار نہیں ہیں؟ کیا ان لوگوں نے ایک مسلسل عمل کے ذریعے سادہ لوح مسلمانوں کو ایک دوسرے سے نفرت کا سبق نہیں پڑھایا؟ وہ جن کے اسلاف قرآن و سنت کے ہر پہلو کو لوگوں پر روشن کیا کرتے تھے، ان کا سارا زورِ بیاں اس بات پر صرف ہونے لگا کہ فلاں شخص یا گروہ اللہ کی وحدانیت پر یقین رکھتا ہے یا نہیں، فلاں دل میں سیّدالانبیاؑء ؐکے احترام کی مشعل روشن ہے یا بجھ چکی۔ مشرک، بدعتی، گستاخِ رسول، منکرینِ اولیاء، گستاخِ صحابہ اور منکرینِ اہل بیت جیسے موضوعات ہمارے مذہبی اکابرین کا پسندیدہ موضوع بن گئے۔ جنہوں نے بھائیوں کو بھائیوں کے خلاف صف آرا کر وادیا۔ اور ہم نے یہ منظر دیکھا کہ ایک شخص نعرۂ تکبیر بلند کرکے فائرنگ کا آغاز کرتا ہے اور دوسرا مرتے دم یاعلی کہہ کر جان دے دیتا ہے۔

؂ہر ایک شاخ پہ برقِ بتاں ہے رقص کناں

فضائے صحنِ چمن تجھ پہ رحم آتا ہے

(حبیب جالب)

یہ سب نفرتیں ہم میں رائج کیسے ہوئیں، ان کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک بہت بڑی وجہ وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے۔ پاکستان میں قومی وسائل کی تقسیم کا کوئی متفقہ فارمولا نہیں ہے، جس وجہ سے قومی مالیاتی کمیشن کے اعلان میں وفاقی حکومت ہمیشہ مشکلات کا شکار ہی رہی ہے۔ پاکستان میں تین صوبے وسائل کی تقسیم کے لیے صرف آبادی کے فارمولے کے خلاف ہیں، لیکن گزشتہ پینتیس سالوں میں اس فارمولے کو تبدیل نہیں کیا گیا ہے۔ دسمبر 2017 کی رپورٹ کے مطابق اقتصادی ترقی کی راہ داری میں بلوچستان کو اس کا جائز مقام نہیں دیا گیا۔ اور اگر مردم شماری کی حالیہ رپورٹ کا جائزہ لیا جائے تو یہ صاف نظر آتا ہے کہ بلوچستان میں بلوچوں سے زیادہ پشتون آباد ہو رہے ہیں اور حکومت ان کو تحفظ فراہم کرنے سے قاصر ہے۔

ہمارے معاشرے میں یہ بگاڑ، ہماری اپنی عدم دل چسپی سے پیدا ہوا۔ وہ محبِ وطن قبائلی جو 1948 میں کشمیر آزاد کروانے کے لیے پیش پیش تھے، ہمارے وجود کا انکار کرنے لگے اور دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے ہمیں کافر، مرتد کہنے لگے۔ ہمارے سنگ لڑنے والے، ہمارے خلاف لڑنے لگے۔ ہمیں اس کے اسباب بھی پتا ہیں اور حل بھی۔ دیر صرف ان اسباب کا سدباب کرکے جڑ سے اکھاڑنے کی ہے۔

میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون مانا جاتا ہے۔ میڈیا چاہے تو ان مسائل کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ مگر تیز ترین خبر رسانی کی دوڑ میں ہمارا میڈیا، اس نادان دوست کا کردار ادا کر رہا ہے جو سمجھدار دشمن سے زیادہ خطر ناک ہے۔ قومی مسائل پر ہم آہنگی پیدا کرنے بجائے یہ منافرت پیدا کر رہا ہے۔ میڈیا کو اس ضمن میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالناچاہییں۔

یہ سب مسائل اپنی جگہ، مگر یہ لوگ ہمارے اپنے ہیں۔ وہ بھی جو کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کرتے ہیں، اپنے ہی بھائیوں کے قتل میں ملوث ہیں، وہ بھی جو پے در پے آپریشنوں کی وجہ سے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں، وہ بھی جو اپنے ہی ہم وطنوں کو دھماکے سے اڑانے کو جنت کے حصول کا ذریعہ مانتے ہیں اوروہ بھی جو ملک دشمن عناصر کے کہنے میں آکر وفاق سے الگ ہو جانے کی بات کرتے ہیں۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ اپنا دل صاف کرکے ان کو ایک میز پر بٹھا یا جائے۔

ان کے گلے شکوے سنے جائیں اور ان کی شکایات کا ازالہ کیا جائے۔ جس جس کا جس قدر بھی حصہ بنتا ہے، اسے دیا جائے۔ بڑے شہروں کو مزید بڑا اور چھوٹے شہروں کو مزید چھوٹانہ کیا جائے۔ جب ہم نے پاکستان بنایا تو ہم سب کے درمیان ثقافتی اختلاف موجود تھا، لیکن جو چیز قدرِ مشترک تھی وہ کلمہ تھا۔ آج اسی کلمے کا احیا اور تبلیغ کی جائے اور اسی رشتے کو بڑھاوا دیا جائے۔ ایک پرچم، سبز ہلالی پرچم تلے سب کو اکٹھا کیا جائے۔ اور مستقل کی طرف نظر جما کر آئندہ کے اہداف کی جانب اپنی صلاحیتوں کا منہ موڑا جائے۔ تب ہی یہ مٹی ذرخیز ہوگی اور تب ہی ہمارے ملک سے ایسے لوگ منظرِ عام پر آئیں گے، جن پر نسلِ انسانی فخر کرے گی۔ وگرنہ ہمارا یہ سفر رائیگاں ہی جائے گا۔

ابھی وقت ہے، ہم سنبھل جائیں، کب تک تقدیراور حالات کا رونا روتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت صرف انہیں نصیب ہوتی ہے، جو فضائے بدر پیدا کر سکتے ہوں۔ ہاتھ پر پاتھ دھرے بیٹھے رہ کرگوہرِ نایاب کی توقع رکھنا عبث ہے۔ اس وقت ہمارا اپنا وطن داخلی اور خارجی طور پر شدید دباؤ کا شکار ہے۔ یہاں مرنے والے بھی مسلمان ہیں اور مارنے والے بھی، تو پرندے کس کی مدد کو آئیں؟ کنکر کس پر گرائیں؟ اگر ہم باہمی اختلافات بھلا کر نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر تک ایک ہو جائیں تو یہ آسمان ہماری را ہگزر کا ایک سنگِ میل بن کر رہ جائے!

مجھے یقین ہے :

؂جب قافلہ اپنا عزم و یقیں سے نکلے گا

جہاں سے چاہیں گے، رستہ وہیں سے نکلے گا

وطن کی مٹی، مجھے ایڑیاں رگڑنے دے

مجھے یقیں ہے کہ چشمہ یہیں سے نکلے گا

(مظفر وارثی)

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).