روحانیت کی عسکری صورتیں


بیسویں صدی میں جدیدیت کے سبب پنپنے والی فکری تبدیلی، تہذیبی اور ثقافتی چیلنج کے ردعمل میں ایک انوکھا مگر اپنے جوہر میں حیرت انگیز تصور تخلیق کیا گیا۔ اس تصور کے پیروؤں کے لئے نہ صرف جدیدیت ناقابل قبول ہے، بلکہ یہ تشدد پسندانہ روئیے کے ساتھ اس تصور کو رد کرنے کے غمآز بھی ہے۔ یہ وہ گروہ ہے جن کی روحیں ماضی کی اسیر ہے، جو اپنے طرزعمل میں ایک کہنہ تجربے کی بازیافت کے لئے جدید انداز اپنائے ہوئے ہے۔ اپنی داخلی پہلو میں پرانی اور طرز عمل میں اسباب کے اختیار میں جائیز و ناجائیز کی تعبیر بدلتے رہتے ہے۔

ان کا یہ طرز عمل اور رویہ شناخت اور ثقافتی بانجھ پن کے خوف سے ابھرا جو کہ ان کی حیثیت کو ان سے چھین رہا تھا۔ اور اس طور ہم ان کے تقاضے کی تائید کرتے ہے اور یہ رویہ قدر کا مستحق ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ جدید معاشرے کی مثبت اقدار کو بھی رد کرتے ہے اور یوں ہمیں ایک ذہنی الجھن میں ڈال دیتے ہے۔ مثلا جمہوریت، تنوع، رواداری، تحمل اور برداشت، بقائے امن، آزادی اظہاررائے، اور ساتھ ہی چرچ یا محراب ومنبر کی ریاست سے علحیدگی کا احترام نہیں کرتے بلکہ برملا رد کرتے ہے، اور ایک اجتماعی نعرہ تخلیق کرکے اپنے نظریے کی تائید چاہتے ہیں۔ اور حکومت کو اپنے ایجنڈے پر عمل کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اب یہ ایک ایسی قوت کے طور پر ابھر رہا ہے جسے آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارے سیاق میں اس نے نہ صرف مذببی بلکہ معاشی، سماجی، ترقیاتی پہلوؤں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ اور یوں ہمارے ارتقا میں حرکت کے اصول کا انکار کرتی ہے اور سماجی سطح پر ہمیں جمود کی جانب لے جانے پر گامزن ہے۔ عالمی سطح پر جیسے یہودیت، عیسائیت، اسلام، کنفیوسش، بدھ مت، ہندومت میں یکساں طور پر پایاجانے و الا یہ پراثر نظریہ، ثقافت و تہذیب کی اپنے اصل تک پہنچ کا ایک جدید مگر سخت اظہار ہے۔

میں نے عالمی سطح پر اظہار کی اس رنگا رنگی کو روحانیت کی عسکری صورتوں کے موضوع سے تعبیرکیا ہے۔ جس کو دنیا اصطلاحی معنوں میں بنیاد پرستی سے تعبیر کرتی ہے۔ جن میں امریکہ میں پروٹسٹنٹ بنیاد پرستی، اسرائیل میں یہودی بنیاد پرستی، مصر، ایراں جو کہ سنی اور شیعہ ریاستیں ہے، میں مسلم بنیاد پرستی، اورپاکستاں میں بنیاد پرستی شامل ہے۔

بنیاد پرستی اپنے باطن میں ایک خوشگوار لاشعوری اسطور ہے۔ جو تسکین قلب اور ماورائیت کی سیر کراتی ہے۔ لیکن اپنے ظاہر میں خود کو حق اور دوسرے کو ناحق کے پلٹرے میں ڈال کر سماجی ہم آہنگی کو ویراں کر دیتی ہے۔ اگر ہم اس جملے کی مختصر لفظی تشریح کریں تویوں ہوگا۔ ”میں جو ہوں حق پر ہوں اور آپ کو بھی مجھ جیسا طرز عمل اور عقیدہ رکھنا ہوگا کہ یہ تلقین میرا روحانی فریضہ ہے جو قدما کی دین ہے“۔ یہ رویہ معاشرتی تنوع کی رحمت کو مشکل میں ڈال دیتا ہے اور جوابی خواہش کا اظہار کرتی ہے اور یوں یہ سلسلہ ایک جنگ کی صورت اختیار کرتا ہے۔

یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہر روایت اور ہر عہد کے لوگ اپنے زمانے کی جدیدیت سے نہ صرف متصادم رہے ہیں۔ بلکہ سخت فکری شعار بھی اپنائے رکھتے ہیں، تاکہ برے وقت میں فیصلہ کن جواب دے سکیں۔ لیکن وجاہت مسعود نے بنیاد پرستی کی ہمہ گیرتشریح کی ہے جن کے بقول ”بنیاد پرستی مذہب کے نام پر قوموں کے انتظامی اقتدار، معاشی وسائل اور سماجی اختیار پر قبضے کی سیاسی تحریک ہے جس کا مفروضہ مقصد جدید سیاسی ڈھانچوں، اجتماعی اداروں، سماجی رویوں اور فکری رجحانات کو رد کر کے معاشرے میں رہنما اصول کے طور پر مذہبی احکامات کی لفظی تشریح اور قدیم مذہبی روایات کی بالادستی قائم کرنا ہے۔

بنیاد پرست گروہ ریاست اور معاشرے میں مذہبی قیادت کی مطلق، مکمل اور تنقید سے ماورا بالادستی تسلیم کرانا چاہتا ہے۔ اس سیاسی خواہش کا اظہار چیدہ چیدہ مذہبی عقاید اور ان سے اخذ کردہ روزمرہ اخلاقیات سے متعلق احکامات کی اجتماعی توثیق اور قانونی نفاذ کے مطالبے کی صورت میں کیا جاتا ہے ”۔ اس موضوع کی غایت یہ تقاضا کرتی ہے کہ اگرچہ سیاسی اور ثقافتی مفاد کی تشنگی اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے۔ لیکن ہمیں ان ابھرتی نظریاتی قوتوں پر سنجیدگی سے غور کرنا چائیے۔ تاکہ ہم عمیق تر گہرائی سے ان کی جڑوں کو سمجھ سکیں، اور ایک پرامن علمی معاشرہ قائم کریں جو روحانیت کی عسکری قوتوں کی ہمہ گیریت کو اپنے اندر سمو سکیں۔

اور جدید معاشرے کے مثبت اقدار کا خیر مقدم کریں۔ کیونکہ عصری تقاضا یہ ہے کہ ہم ایک ایسے سماج کی تشکیل میں کردار ادا کریں، جہاں آزادی اظہار کا احترام ہو تاکہ تخلیقیت کا اظہار ممکن ہوسکیں۔ بقا کی جنگ نہ ہو بلکہ امن ہو۔ تاکہ انسانیت ایک عالمگیر اور پائیدار خوشحالی کا خواب دیکھ سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).