لندن کی سرد رات اور تنہا لڑکی


لندن شہر میں ٹیکسی چلانا بہت ہی جان جھوکھوں کا کام ہے۔ لیکن اس میں کمائی بہت زیادہ ہے۔ میں نے بھی ستر کی دھا ئی کے آخری سالوں میں ٹیکسی چلانا شروع کی۔ پہلے پہل تو کافی ڈر لگا رہتا تھا کسی مسافر سے لڑا ئی نہ ہو جایٔے خاص کر کالوں سے۔ غلط چالان نہ ہو جایٔے جس کو ہم یہاں ٹکٹ کہتے ہیں۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ تجربہ ہوتا گیا۔ بہت سے ملکوں کی سیر کے بعد میں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ٹیکسی ڈرایٔہور ہر ملک کے ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ ان کے طور طریقے مسافروں کے ساتھ برتاؤ ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔

لندن میں ٹیکسی چلانے کے دوران بہت سارے واقعات پیش آتے رہے۔ ایسے واقعات کبھی کبھی یاد بھی آتے ہیں۔ چند دن قبل ایک رشتہ دار کے ہاں بیٹھے بیٹھے ایسے ہی برسوں پہلے گزرا ہوا ایک رات کا واقعہ یاد آ گیا۔

وہ دسمبر کی ایک انتہائی سرد رات تھی۔ کرسمس قریب ہونے کی وجہ سے گلیاں اور بازار سجے ہوے تھے۔ ان دنوں ہماری دیہاڑیاں بھی خوب لگ رہی تھیں۔ اس رات میں گیارہ بجے کے قریب اپنے آخری کسٹمر کو اس کے گھر اتار کر واپس اپنے گھر جا رہا تھا۔ شارٹ کٹ کی وجہ سے میں ایک گلی میں سے گزر رہا تھا۔ چند گز دور ایک گھر کے سامنے ایک لڑکی کھڑی دکھا ئی دی۔ جب میں قریب پہنچا تو اس نے مجھے رکنے کا اشارہ کیا۔ کار کی ہیڈ لایٔٹ میں وہ مجھے چوبیس پچیس برس کی خوبصورت انگریز لڑکی نظر آیٔ۔

میں اس وقت کوئی جاب لینے کے موڈ میں نہیں تھا۔ اس لیٔے گاڑی نہیں روکی لیکن کچھ آگے جا کر اس سوچ کے ساتھ گاڑی روکی کہ شایٔد اسے کو ئی ایمرجنسی نہ ہو۔ میں نے گاڑی ریورس کی اور اس کے دروازے کے سامنے گاڑی روکی۔ وہ پیسنجر سیٹ کی طرف سے آ ئی اور دروازہ کھول کر فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیٔ۔ ورنہ ہم عموماً مسافروں کو پچھلی سیٹوں پر بٹھاتے ہیں۔ میں نے اس کا جایٔزہ لیا وہ ایک خوبصورت انگریز لڑکی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کہاں جانا ہے اس نے آکسفورڈ سٹریٹ کہا۔

اس وقت تو آکسفورڈ سٹریٹ میں تمام شاپنگ سینٹر اور کلب وغیرہ تو بند ہو چکے ہیں۔ میں نے اسے بتایا۔ میں نے کہا نہ کہ میں نے وہیں جانا ہے۔ میں نے یہ سن کر گاڑی چلا دی۔ ٹریفک کم ہونے کی وجہ سے ہم جلد ہی وہاں پہنچ گیٔے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کہاں اتاروں تو اس نے جواب دیا کہ چلتے رہو۔ یہ سن کر میں نے گاڑی ایک سایٔیڈ پر روکی اور اسے پوچھا کہ صیح صیح ایڈریس بتاؤ کہ کہاں جانا ہے۔ رات بہت ہو گئی ہے اور میں تو کام ختم کر کے گھر جا رہا تھا۔

اس نے میری یہ بات سن کر رونا شروع کر دیا اور اپنا پرس کھول کر پچاس پاونڈ کا ایک نوٹ میری طرف بڑھایا اور کہا کہ مجھے واپس لے چلو جہاں سے مجھے لیا تھا۔ میں نے نوٹ اس کو واپس کیا اور گاڑی موڑکر اس کے گھر کی طرف چل پڑا۔ آنسو بار بار اس کی آنکھوں میں آ رہے تھے جن کو وہ اپنی ہتھیلیو ں سے صاف کر رہی تھی۔ یہ دیکھ کر میں نے پھر گاڑی سڑک کے کنارے روکی اور اس سے رونے کی وجہ پوچھی اور کہا کہ کیا میں پولیس کو کال کروں۔ اس نے کو ئی اور جواب نہیں دیا اور صرف اتنا کہا کہ نہیں آپ مجھے میرے گھر واپس ڈراپ کر دیں۔

اس کے گھر کے باہر آکر میں نے ٹیکسی روکی تو اس نے نم آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور کہا کہ مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔ تم میرے ساتھ اندر چلو اور دیکھو جو وقت میرے ساتھ رہو گے میں اس کی قیمت تمہیں دوں گی۔ اس کی یہ بات سن کر میں مخمصے میں پڑھ گیا۔ خیراتنا عرصہ ٹیکسی چلاتے ہویٔے ہزاروں مسافروں سے واسطہ پڑا تھا اور کافی تجربہ بھی ہو گیا تھا۔ اس واسطے کہا کہ چلو اندرچل کر دیکھتے ہیں کہ کیا معاملہ ہے۔ اس نے دروازہ کھولا اور مجھے اندر آنے کا راستہ دیا میں فرنٹ روم میں پہنچا اور اس سے پوچھا۔

اب بتاؤ کیا بات ہے۔ تمہیں کیا مدد چایٔے۔ اس نے نم آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور کہا کہ میری ماں کو کچھ ہو گیا ہے۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا ہے۔ میں اس کے ساتھ اوپر بیڈروم میں پہنچا تو دیکھا کہ ادھیڑ عمر کی ایک بلکی سی انگریز خاتون بیڈ سے نیچے گری ہو ئی تھیں۔ میں نے اس لڑکی کی مدد سے خاتون کو اٹھایا اور بیڈ پر لٹایا۔ بغور جایٔزہ لینے پر پتہ چلا کہ خاتون جان کی بازی ہار چکی ہیں۔ جب میں نے اسے بتایا کہ اس کی ماں تو اگلے جہان سدھارچکی ہیں تو اس نے رونا شروع کر دیا۔

میں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے دلاسا دیا تو وہ میرے گلے لگ گئی اور زورزور سے رونے لگی۔ میں نے اس کو اپنے سے الگ کیا۔ خاتون کو بیڈ پر صیح طریقے سے سیدھا کر کے ان کے اوپر کمبل ڈال دیا اور لڑکی کو لے کر نیچے فرنٹ روم میں آگیا۔ لڑکی سے اس کے والد اور کسی رشتہ دار کے بارے میں پوچھا۔ اس نے اپنا نام جیکولین بتایا۔ والد کے بارے میں اسے والدہ نے بتایا تھا کہ وہ انھیں برسوں پہلے چھوڑ کر امریکہ چلا گیا تھا اور اس کا اب کو ئی پتہ نہیں ہے۔

رشتہ دار کبھی کوئی نہیں آیا اور نہ ہی پتہ ہے اور نہ ہی والدہ نے کسی کا ذکر کیا ہے۔ میں نے سوچا کہ اپنی بیوی کو لے کر آتا ہوں کچھ اس کی تنہائی دور ہو جایٔے گی اور اس کا درد بھی تھوڑا بٹ جا ئے گا۔ میں نے اسے کہا کہ میں گھر جا رہا ہوں اور تھوڑی دیر میں واپس آجاتا ہوں۔ اس نے شایٔد یہ سوچا کہ میں جان چھڑا کر بھاگ رہا ہوں اور واپس نہیں آوں گا۔ اس نے مجھے کہا کہ میں اس کے پاس ایک دو گھنٹے اور ٹھہر جاوں۔ اس کے ساتھ باتیں کروں تو وہ اس وقت کی قیمت دینے کے علاوہ میری ہر بات بھی مان لے گی۔ میں اس کی بات کا مطلب سمجھ کر اندر سے کانپ گیا اور مجھے غصہ بھی بہت آیا۔

اس نے پھر کہا۔ کہ جو ہمدردی کے بول تم نے بولے ہیں اور جو وقت تم نے میرے ساتھ گزارا ہے اور گزارو گے اس کے لیٔے تو میں اپنا بدن بھی تمہیں سونپ سکتی ہوں۔ رنج و غم کی تصویر بنی اس لڑکی کے منہ سے یہ باتیں سن کر میرا دل بھر آیا اور میں بے اختیار رو دیا۔ باہر نکل کر میں نے دروازہ بند کیا اور گاڑی اپنے گھر کی طرف بھگا دی۔ گھر پہنچ کر ساری بات اپنی بیوی کو بتائی۔ وہ فوراً میرے ساتھ چلنے پر تیار ہو گیٔ۔ ہم تقریباً ایک گھنٹے بعد واپس اس کے گھر پہنچے اور بیل کی۔

دروازہ فوراً کھل گیا مجھے اور میری بیوی کو دیکھ کر وہ حیران رہ گیٔ۔ میری بیوی اسے ساتھ لے کر اوپر گئی اور بغور جایٔزہ لینے کے بعد نیچے آکر مجھے کہا کہ پولیس کو کال کروں۔ خود وہ اس لڑکی کے پاس بیٹھ کر اسے دلاسا دینے لگی۔ میں نے پولیس کو فون کیا۔ آدھے گھنٹے سے پہلے پولیس ایمبولینس لے کر آگی۔ ٔ انہوں نے لاش کا اچھی طرح معایٔنہ کیا تمام گھر کی تلاشی لی۔ میرا۔ میری بیوی اور جیکولین کا بیان قلمبند کیا اور خاتون کی لاش کو ہسپتال منتقل کر دیا۔

اگلے چار پانچ دنوں میں ہم نے جیکولین کی ماں کی تدفین کا بندوبست کیا ساتھ ہو کر کرسچن روایات کے مطابق تدفین کرا دی۔ آج اس بات کو عرصہ گزر گیا ہے لیکن جیکولین ہمیں نہیں بھولی۔ میری بیوی سے اس کا کہنا تھا کہ جس مشکل میں آپ لوگوں نے میرا ساتھ دیا میں یہ احسان زندگی بھر نہیں بھول سکتی۔ اس کی شادی ہو گیٔ۔ بچے ہو گیٔے۔ لیکن اب بھی وہ ہمارے گھر ایسے آتی ہے جیسے ہماری خواتین اپنے بھایٔیوں کے گھر جاتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).