وزیرِا عظم صاحب اور ہیرو پنتی کا آخری موقع


عمران خان کے غلط فیصلوں کا اندازہ آپ اس بات سے لگالیں کہ اپنی ہی چھوڑی ہوئی دو سیٹیں عمران خان ضمنی انتخابات میں ہار گیا تھا۔ اس قوم کی قسمت پہ ماتم ہی کیا جاسکتا ہے جب ایک طرف آپ کی بہادر فوج دشمن سے برسرِ پیکار ہو اور ایک ایسے دشمن سے جس نے اس قوم کے چالیس ہزار بے گناہوں کو خون میں نہلا دیا، جب ایک طرف سیلاب کشمیر سے لے کر سمندر تباہی پھیلا رہا ہو، لاکھوں ایکٹر پر کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہوں، کراچی میں روزانہ دسیوں افراد قتل کیے جا رہے ہوں، مشرقی سرحد پر بھارت آپ سے چھیڑ خانی کر رہا ہو، خیبر پختونخواہ میں بی آر ٹی سے متاثرہ عوام حسرت سے آپ کی طرف دیکھ رہے ہوں، اس وقت آپ بطورِ وزیرِ اعظم ایک فیصلہ بھی زمینی نہیں کرتے۔

تبدیلی کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے۔ لوگوں کو گھر بناکر دینے والا عمران خان لوگوں کے سروں سے چھت چھیننے والوں کو روکنے سے قاصر ہے۔ ن لیگ پر پیش بینی کے فقدان کا نعرہ لگانے والا سڑکوں کو برا بھلا کہنے والا، بنیادی مسائل جن میں سے سب سے اہم صحت کی سہولیات کا فقدان ہے، کو چھوڑ کرعوام کو ایک لایعنی خوا ب یعنی لاکھوں گھروں کی تعمیر کی سرخ بتی کے پیچھے لگا چکا ہے۔ اس کے وزیر متبادل اور متوازی بیانیوں کی بولی بولتے ہیں۔

غیر متخب اداکار اس کی کابینہ کے رکن ہیں۔ اپنے ہی نام نہاد ذہین وزیروں کو کابینہ سے لات مار کر نکال بار کیا۔ ڈالر تاریخ ساز اونچائی پر سر اٹھا کر کھڑا ہے۔ ایچ ای سی کی فنڈنگ روک دی گئی ہے۔ یعنی بائیس برس تعلیم کا رونا رونے والے نے تعلیم کر سب سے پہلے اپنے عناد کا نشانہ بنایا۔ اپنی ساری توجہ ن لیگ دشمنی پر مرکوز کردی اور عوام کو منہا کردیا۔ پندرہ سے بیس ہزار ماہانہ کمانے والے کو اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر زندگی کی جنگ لڑنا پڑ رہی ہے۔

قوم کو بیانیوں کی چمک دمک کی ضرورت نہیں بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ملک کی معیشت تو دُور کی بات، پاکستان میں انصاف کو یقینی بنانے میں کیا چیز مانع ہے؟ پاکستان کے عدالتی نظام کا کوئی قابلِ بھروسا ریکارڈ موجود نہیں۔ عمران خان کو بھی معلوم ہے کہ ملک کی حالت پانچ برس میں ٹھیک نہیں ہوگی لیکن اسے اتنا تو پتہ ہونا چاہیے کہ ان پانچ برس میں وہ ایسی قانون سازی کروا جائے کہ آنے والا دور واقعتا نئے پاکستان کی بنیاد بنے۔

ملک میں سینکڑوں بیمار کارخانے بند پڑے ہیں۔ انہیں چلانے کے لیے کوئی پالیسی نہیں۔ ملک میں ہزاروں سرکاری عمارات خالی پڑی ہیں جو رفتہ رفتہ تباہ ہوجائیں گی، کیا ان کو شیلٹر ہومز کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا؟ ملک میں بلدیاتی نمائندوں نے ٹکا کام نہیں کیا ان پر خرچ ہونے والی رقم سے تحصیل کی سطح سے طبی مراکز کی بحالی اور بہتری کا کام نہیں کیا جا سکتا کیا؟ اشعر عظیم (دھواں فیم) کا نادرا کی مدد سے تیار کردہ پلان برائے تھانہ اور کچہری نظام کا اطلاق کیوں نہیں کیا گیا؟

زیادہ دُور نہ جائیں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے دل میں واقع سرکاری ہسپتالوں پمز اور پولی کلینک کا ہی چکر لگا کر دیکھ لیں کہ ان کی کیا حالت ہے۔ مریض علاج کے لیے فرش پر لیٹنے پر مجبور ہیں۔ مشینوں کی حالت بری ہے۔ کیا ان دونوں ہسپتالوں کو مثالی ہسپتال نہیں بنایا جا سکتا۔ اور سب سے اہم بات بلکہ سوال۔ پاکستان کا ہر شہری کسی نہ کسی صورت میں ٹیکس دیتا ہے۔ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ایک صابن کی ٹکیہ پر جو پندرہ روپے ٹیکس عوام کی جیب سے گیا ہے وہ ریاست کے خزانے میں واقعی پہنچا بھی ہے کہ نہیں۔

کیا معلوم یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں کتنی تعداد میں مصنوعات بناتی ہیں، کتنی ظاہر کرتی ہیں اور کتنا پیسہ دیتی ہیں؟ بڑے بڑے پلازوں میں کروڑوں کا کاروبار کرنے والے تاجرکیا واقعی ٹیکس دیتے ہیں؟ کیا ان کی آمدن کا درست ریکارڈ دستیاب ہے۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ ریاست ہر بڑی فیکٹری یا کارخانے میں کچھ ایسے افراد کو تعینات کرے جو وہاں تیار ہونے والے اشیا کا ریکارڈ مرتب کریں اور ان کی مد میں درست ٹیکس کا حساب رکھیں اور یہ بات یقینی بنائیں کہ اتنا ہی ٹیکس ریاست کے خزانے میں گیا ہے۔

کفایت شعار ی کا رونا رونے والے خود کیوں کوئی مثال قائم نہیں کرتے۔ کیا اسمبلیوں میں بیٹھنے والے افراد غریب لوگ ہیں؟ یہ کیوں نہیں غریبوں کے ساتھ یک جہتی کی خاطر اپنی تن خواہوں کی قربانی دینے کو تیار؟ کیا حکومت کوئی ایسی قانون سازی نہیں کرسکتی کہ تمام ریاستی کارندے، قومی اسمبلی کے اراکین، سینٹ اور دیگر اداروں کے اراکین آج سے کسی بھی نجی ہسپتال میں علاج نہیں کرائیں گے، سب کے سب سرکاری ٹرانسپورٹ استعمال کریں گے، سب کے سب سرکاری ہسپتالوں سے علاج کروائیں گے، سب کے بچے سرکاری سکولوں اور جامعات میں پڑھیں گے۔

یہ لوگ خود سرکاری اداروں کو درست کریں گے کوئی نہیں چاہے گا کہ اس کا بچے ایک سرکاری ہسپتال کی راہدی پر زمین پر پڑا ہوا ہو۔ ایک وفاقی وزیر نے اقربا پروری اور اختیارات کا ناجائز استعمال دستاویز ی طور پر کیا۔ کیا اس کے لیے محض تنبیہہ کافی ہے؟ آپ کیوں نے اسے برطرف کرکے قانونی کارروائی کرتے تاکہ آپ کی تبدیلی سرکار مثال قائم کرے جو اس سے قبل کے حکمران نہ کرسکے۔ کیا آپ کی کابینہ میں کوئی ٹیکس چور موجود نہیں، کیا سب کے سب صاف اور پاک باز ہیں؟ خدارا قوم کو ایک ہائیپر رئیل منظر نامے میں مت رکھیے زمین پر تشریف لائیے۔ زمینی کام کیجیے، آپ قوم کی آخری امید ہیں۔ اگر آپ نے یہ کام نہیں کیے جو مستقبل کا لائحہ عمل طے کرسکیں تو یقین مانیے اگلے پانچ سو برس تک کوئی بھی نہ کرسکے گا۔ اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2