وزیرِا عظم صاحب اور ہیرو پنتی کا آخری موقع


یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ہم اسکول میں پڑھتے تھے۔ اسی کی دہائی کے ہر بچے کی طرح عمران خان اس قوم کا ہیرو تھا۔ کسی بچے سے سوال کیا جاتا کہ بڑے ہو کر کیا بننا پسند کرو گے تو وہ جواب دیتا۔ عمران خان۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں نے اپنے کمروں کی دیواروں پہ فلمی ستاروں کی تصاویر کی جگہ عمران خان کے پوسٹرز لگائے ہوتے تھے۔ بھارتی اداکارئیں ہوں یا مغربی حسینائیں سب کی سب اس کی وجاہت کی اسیر تھیں۔ بحیثیت ایک فاسٹ باؤلر اس کی الگ ہی شان تھی، عمران خان جب کرکٹ گراؤنڈ میں مخالف ٹیم کے بیٹسمین کی طرف بھاگ رہا ہوتا تو اس کے قدموں کی دھمک اسٹیڈیم اور ٹی وی سکرینز کے سامنے بت بنے ناظرین کے دلوں پر محسوس ہوتی۔

عمران خان کے نام پہ مختلف کمپنیوں نے انعامی سکیمز شروع کی ہوئی تھیں جن میں اسکولز کے بچے اس کی تصاویر جمع کرکے البمز مکمل کرتے اور بدلے میں مختلف انعامات حاصل کرتے۔ پھر ایک وقت آیا جب عمران خان کی قیادت میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے ورلڈ کپ کا اعزاز حاصل کیا۔ پاکستان کی مایوسیوں سے بھری تاریخ میں ایسے خوشی کے لمحے بہت کم آئے، پوری قوم نے ہفتوں اس فتح کا جشن منایا۔ قوم نے کھلاڑیوں کو انعامات سے لاد دیا۔

اور پھر عمران خان کے لیے مجھ جیسے لاکھوں بچوں نے چندہ جمع کیا تاکہ اس کا شوکت خانم کینسر ہسپتال بن جائے۔ بچوں نے اپنی پاکٹ منی، خواتین نے اپنے زیورات اور ہزاروں لوگوں نے اپنی عمر بھر کی جمع پونجی لا کر اس کی ہتھیلی پر رکھ دی۔ اس قوم کو ایسا اعتماد شاید کسی سیاستدان پر نہ تھا جتنا اُن دنوں عمران خان پر تھا۔ تب عمران خان کا خواب محض عمران خان کا خواب نہ تھا بلکہ یہ پوری قوم کا مشترکہ خواب تھا۔ شوکت خانم کی دیواروں میں لگنے والی ایک ایک اینٹ کے پیچھے اس قوم کے ایک ایک فرد کا کسی نہ کسی صورت میں حصہ ہے، بلاشبہ پاکستان کا پہلا کینسر ہسپتال عمران خان کا اس قوم کے لیے تحفہ تھا۔

اس قوم کا عمران خان پر اعتماد صرف ایک عمارت کھڑی کرنے تک محدود نہ رہا بلکہ سارا سال مجھ سے ہزاروں لوگ اپنے عطیات اس عظیم مقصد کے لیے کسی نہ کسی صورت میں جمع کرواتے رہے۔ مجھے یاد ہے کہ فورٹریس اسٹیڈیم لاہور میں عمران خان نے شوکت خانم کیسنر ہسپتال کے لیے ایک پروگرام منعقد کروایا تھا، اسٹیڈیم کے عین درمیان میں لگائے گئے عظیم سٹیج پر اس ملک کے بڑے بڑے فنکار اور گلوکار موجود تھے۔ اسٹیڈیم کھچا کھچ بھرا ہُوا تھا۔

نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد عین سٹیج کے سامنے موجود تھی جب عمران خان اسٹیج پر وارد ہواتو نوجوان اپنے ہیرو کو دیکھ کر بے قابو ہوگئے پولیس کو ان نوجوانوں کو روکنے کے لیے ہلکا پھلکا لاٹھی چارج کرنا پڑا، مگر نوجوان کسی طرح قابو میں نہیں آرہے تھے۔ عمران خان نے مائیک سنبھالا اور اپنے مخصوص انداز میں پولیس والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، اؤے پولیس والو! چھوڑ دو انہیں، اور پھر نوجوانوں کو کہا کہ کوئی اسٹیج پر نہیں چڑھے گا سب آرام سے نیچے بیٹھ جاؤ، نوجوان گویا اسی حکم کے منتظر تھے، میں نے اپنے چاروں طرف نگاہ دوڑائی نوجوانوں کا واقعتاً ٹھاٹھیں مارتا سمندر ایسے ساکت ہوگیا جیسے ان کی گویائی کی تاریں عمران خان کے ہاتھ میں ہوں۔

پروگرام کے آخر میں جب عمران خان سٹیج سے اتر رہا تھا تو وہاں کھڑے ہر شخص کی یہی خواہش تھی کہ کسی طرح اپنے ہیرو تک پہنچ سکے، اُسے قریب سے دیکھ سکے، اُس سے ہاتھ ملا سکے، میں بھی ان خوش نصیبوں میں تھا جس نے بیسیوں لوگوں کے سروں اور شانوں سے ہوتے ہوئے عمران خان تک رسائی حاصل کی اور عمران خان سے ہاتھ ملانے میں کامیاب ہوگیا۔ مجھے یاد ہے کہ میں اسکول میں بڑے فخر سے اپنے ساتھیوں کو عمران خان سے ہاتھ ملانے کا قصہ بیان کرتا۔

عمران خان ہمارا ہیرو تھا، یہ قوم والہانہ اس سے پیار کرتی تھی، عوام الناس سے لے کر اقتدار کے ایوانوں میں عمران خان کی ایک عزت تھی۔ جب عمران خان نے جمائمہ سے شادی کی تو اس قوم کی خواتین کے دل ٹوٹ گئے یوں لگا کہ عمران خان نے اس قوم پر خطِ تنسیخ پھیر دیا ہو۔ ایسی سوچ صرف اسی لیے تھی لوگ عمران خان سے بے پناہ پیار کرتے تھے۔ عمران خان نے جب سیاسی جماعت کی بنیاد ڈالی تو میرے بہت سے دوست جو اب تحریک ِ انصاف کی اگلی صفوں میں ہیں نے مجھے تحریکِ انصاف میں شامل ہونے کی دعوت دی لیکن مجھے عمران خان کا سیاست میں آنا بالکل نہ بھایا۔

پاکستان سے انگریز تو چلا گیا لیکن اپنی نوآبادیاتی فکر یہیں پہ چھوڑ گیا۔ بہت سی غیر جمہوری قوتیں پاکستان کی ابتدا ہی سے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے سرگرم رہی ہیں۔ محترمہ فاطمہ جناح سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو تک ہر وہ سیاسی کردار جو عوام کی رگوں میں لہو بن کے دوڑتا تھا مقامی سامراج کے ایجنٹس کی فکر کی بھینٹ چڑھ گیا، ان کرداروں کا انجام تاریخ کی کتابوں میں ہمیشہ کے لیے ایک یاد، ایک آہ اور ایک دکھ بن کر رہ گیا۔

اقتدار کی سانپ سیڑھی کا کھیل عمران خان کے لیے بنا ہی نہیں تھا، یہ قوم جس کی آنکھیں قائدِ اعظم جیسے رہنما کے انتظار میں پتھرا چکی ہیں، عمران خان اُسے ایک مسیحا کے طور پر نظر آیا لیکن افسوس عمران خان بھی اُسی روایتی سیاسی طرزِ فکر کی بھینٹ چڑھ گیا جو زمانوں سے اس قوم پہ مسلط ہے، ہماری تاریخ کے کوڑے دان میں بڑے بڑے ناموں کی بیسیوں تختیاں پڑی ہوئی ہیں لیکن اس قوم کو بڑے بڑے نام نہیں بڑے بڑے فیصلوں کی ضرورت ہے۔

ہماری روایتی سیاست میں ایسا شخص کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا جو اس نظام کے متوازی کوئی نظام لانے کی بات کرے۔ اس قوم کی ایسی تربیت ہی نہیں ہوئی۔ نظام کی تبدیلی ایک مسلسل عمل ہے جس کے لیے محض نوجوانوں کو نہیں بلکہ ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اپنی فکر سے متاثر کرنا ہوتا ہے، عمران خان کے جلسوں میں اکثریت اس عمر کے نوجوان کی ہوتی تھی جو نوے یا نوے کے بعد پیدا ہوئے، یہ لوگ بعد از ضیا نئی جمہوری پیدائش کے عمل سے شعوری طور پر واقف ہی نہیں، یوں بھی عمران خان کے جلسوں میں بورژوا اور ایلیٹ کلاس کے لیے بہت کچھ ہے، اور یہی وہ لوگ ہیں جو پاکستان کے بنیادی مسائل سے ہی آگاہ نہیں ہیں۔

یاد رہے کہ دنیا کے بڑے بڑے انقلاب اور تبدیلیوں میں بورژوا کلاس کا کردار محض تالیاں بجانے والے تماش بینوں سے زیادہ نہیں ہوتا۔ عمران خان نے پاکستان کو بھی ایک کرکٹ گراؤنڈ سمجھ لیا، اس کے اندر کا آمر پارٹی الیکشنز کی صورت میں سامنے آیا۔ عمران خان کے کرکٹ گراؤنڈ میں آمرانہ رویے سے کون واقف نہیں اور یہی رویہ اُسے کرکٹ اسٹیڈیم سے کنٹینر تک لے آیا۔ مخدوم جاوید ہاشمی کو اس نے قاسم عمر سمجھ لیا۔ جاوید ہاشمی کو دودھ سے مکھی کی طرح نکال باہر پھینکنے والے عمران خان کو شاید یہ یاد نہ رہا کہ اس کی انگلیاں ان حواریوں سے ہاتھ ملا ملا کر غلیظ ہوچکی تھیں جن کا مقصد محض حصولِ اقتدار ہوتا ہے اور اس نے اپنے ہی ہاتھوں دودھ کا گلاس گندہ کر دیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2