پاکستان، ترکی کے نقش قدم پر


\"khaldune\"پندرہ جولائی کی شب ترکی میں شروع ہونے والی فوجی بغاوت میں 300 سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور 2100 سے زائد زخمی ہوئے، یہ فوجی بغاوت سولہ جولائی کی صبح تک جاری رہی۔ اس بغاوت میں خود کو \’دی پیس ایٹ ہوم کونسل\’ کہنے والے فوجی دھڑے نے اقتدار پر قبضے کی ناکام کوشش کی۔ ترک پارلیمان پر بمباری کی گئی، انقرہ میں قائم صدارتی محل پر گولہ باری ہوئی اور بحریہ کے درجن بھر جہاز اس عرصے میں لاپتہ رہے۔ باسفورس پل پر چند گھنٹے تک فائرنگ کے تبادلے کے بعد عوام اور پولیس نے بغاوت ناکام بنا دی۔ پلوں کے اوپر فوجی طیاروں کو پہلی مرتبہ رات گیارہ بجے پرواز کرتے دیکھا گیا صبح ساڑھے چھ بجے صدر رجب طیب اردگان نے شہریوں سے خطاب کیا اور فیس ٹائم کے ذریعے اپنے حامیوں کو جوش دلاتے رہے۔

ترکی میں فوجی بغاوت پاکستان میں \’موو آن پاکستان\’ نامی جماعت کی طرف سے لگائے گئے بینرز کے تین روز بعد ہوئی۔ لاہور، اسلام آباد اور کراچی سمیت مختلف شہروں میں لگائے گئے ان بینرز میں فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت دی گئی تھی۔ ایک جانب جہاں فیصل آباد کی یہ غیر معروف سیاسی جماعت طنزومزاح کا نشانہ بنی رہی وہیں ان کے اس اقدام پر سامنے آنے والا ردعمل صرف پریشانی کے اظہار تک ہی محدود نہیں تھا۔

\"moveاگرچہ حکومت اور حزبِ اختلاف کی بیشتر جماعتوں کی جانب سے ترک فوجی بغاوت کی مذمت کی گئی لیکن پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ایک انتخابی جلسے میں کہا، \”اگر فوج نے ملک کا اقتدار سنبھال لیا تو پاکستانی عوام مٹھائیاں بانٹیں گے\”۔ پاکستان میں ترکی جیسے فوجی انقلاب کے متصورین کا یہ فوری ردعمل پاکستان اور ترکی کی ریاستوں (درحقیقت پاک ترک افواج) کے مابین پائے جانے والے تاریخی تضادات کے برخلاف ہے۔

ایک ایسی ریاست جو دو متواتر جمہوری ادوار مکمل کرنے کے قریب ہے، وہاں سیاسی جماعتوں کا فوجی بغاوتوں سے متعلق چوکنے رہنا فطری امر ہے۔ سیاسی حلقوں کی اس فکرمندی کا ایک ایسے وقت میں دوچند ہوجانا فطری ہے جب فوجی بغاوتوں کو بار بار قصہ پارینہ قرار دیا جا رہا ہو۔ سیاسی جماعتوں میں ایسی ہی تشویش تب بھی دیکھنے کو ملی تھی جب مصر میں محمد مرسی کی حکومت گرا کر جنرل عبدالفتح السیسی نے اقتدار سنبھالا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب موجودہ وزیراعظم نواز شریف کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائے ابھی ایک ماہ ہی ہوا تھا۔

سیکولر اور اسلام پسند مناقشے کے تناظر میں بظاہر 2013 کی مصری فوجی بغاوت اور حال ہی میں ترک فوج کے ایک دھڑے کی جانب سے اقتدار پر قابض ہونے کی ناکام کوشش میں مماثلت نظر آتی ہے۔ لیکن ترک فوج کے باغی دھڑے کی فتح اللہ گولن سے وابستگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ \’کمال ازم کے رکھوالوں\’ کی جانب سے اقتدار پر قابض ہونے کی کوشش نہیں تھی۔ ترک فوج سیکولر اقدار کے تحفظ کے لیے 1960، 1971 اور 1980 میں اقتدار پر قبضہ کر چکی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ1997 میں اسلام پسند ویلفیئر پارٹی کو سیکولرازم کے تحفط کے لیے ہی اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ طیب اردگان ویلفیئر پارٹی کی باقیات سے ہی ابھرے اور اب ان کی جماعت اے کے پارٹی نو گیارہ کے بعد کے ترکی میں حکمران ہے۔

تاہم پاکستان میں اسلام پسندی کی سب سے بڑی داعی خود افواجِ پاکستان رہی ہیں اور پاکستانی فوج اسلام پسندی کو خطے میں طاقت کا توازن اپنے حق میں کرنے کے لیے استعمال بھی کرتی رہی ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران فوجی افسران اور عام فوجیوں میں جہاد پسندی کے جزبے کو ہوا دی گئی۔ مذہب پرست ضیاء الحق اور روشن خیال پرویز مشرف دونوں نے پاکستان بھر میں قائم مدارس کے ذریعے جہاد پسندی کے نظریے کو پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ دونوں فوجی آمروں کی اس حکمت عملی کا مقصد عسکریت پسندوں کے ذریعے ہندوستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں اپنا اثرورسوخ قائم رکھنا اور افغانستان کی سرزمین کو تزویراتی گہرائی کے لیے استعمال کرنے کی گنجائش پیدا کرنا تھا۔

یوں پاک ترک سول عسکری حرکیات کا موازنہ ایک ایسے دلچسپ ملغوبے کی شکل میں سامنے آتا ہے جو بظاہر مماثلتوں پر مشتمل ہے مگر جس کی ترکیب تضادات کا مجموعہ ہے۔

\"turkey4\"پاکستان کے برعکس ترک فوج کو اقتدار کے حصول یا کسی بھی قسم کی مداخلت کے لیے کسی غیر آئینی جواز کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ ترک فوج ملکی آئین کے تحت \”جمہوریت کی پاسبان\” ہے۔ کمال اتاترک نے آئین کی بنیاد جن اصولوں پر رکھی تھی ان کے تحت فوج ملک کے وحدانی اور سیکولر طرزِ ریاست کی محافظ ہے۔ ترکی میں خارجہ حکمت عملی کے تحت بھی حکومت کو معزول کیا جا چکا ہے، جیسا کہ 1997 میں ویلفیئر پارٹی کو مغرب کے ساتھ روایتی صف بندی سے نکلنے کی پاداش میں اقتدار سے علیحدہ ہونے پر مجبور کیا گیا۔ ترکی کے مغرب سے قریبی روابط کی پالیسی مصطفی کمال اتاترک نے وضع کی تھی۔

سول عسکری تعلقات کے ضمن میں ترکی اور پاکستان کے مابین ایک اور فرق وہ اتحاد بھی ہے جو ترک سیاستدانوں کے مابین موجود ہے۔ ترک سیاستدان پاکستانی سیاست دانوں کے برعکس فوجی نرسریوں میں کاشت نہیں کیے گئے۔ تاریخی اعتبار سے پاکستانی سیاست دان خواہ وہ ذوالفقار علی بھٹو ہوں، نواز شریف یا عمران خان سبھی فوجی آمروں کے زیر سایہ پرورش پاتے رہے ہیں۔ ان سب سیاست دانوں میں فوج کے ٹانگے پر سوار ہونے کا رحجان رہا ہے، خواہ وہ 1971 سے قبل بنگالی اکثریت کی عددی برتری کا اثر کم کرنے کے لیے ہو یا خود کو سیاسی طور پر اہم اور بارسوخ ثابت کرنے کے لیے۔

عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف اور مولانا طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں سے متعلق یہ افواہ گرم رہی کہ ان کے پیچھے سابق فوجی سربراہ اشفاق پرویز کیانی کے وفادار فوجی افسران کا ہاتھ ہے۔ یہ افواہ ملک بھر میں خطرے کی گھنٹیاں بجانے کا باعث بنی، یوں محسوس ہوتا تھا گویا فوج کی جانب سے اقتدار پر قبضہ ہوا ہی چاہتا ہے۔لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بظاہر جنرل راحیل شریف کی قیادت میں فوج اقتدار پر قبضہ کرنے کی خواہاں نہیں تھی۔ تاہم خارجہ حکمتِ عملی کے معاملے میں فوج معاملات میں پس پردہ رہ کر دخل اندازی کرتی رہی ہے۔

پاکستان اور ترکی دونوں ممالک میں سول عسکری تعلقات کی صورت حال مختلف ہونے کے باوجود خواہ معاملہ \’سیکولرازم کے تحفظ\’ کا ہو یا \’قومی مفادات کے تحفظ\’ کا دونوں ملکوں کی افواج میں بغاوتوں کے سہولت کار افسران موجود ہیں۔

بالکل ویسے ہی جیسے مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کے نتیجے میں 2014 کے لانگ مارچ برپا ہوئے، اسی طرح ارگینیکون مقدمات نے بھی ترک اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کیا ہے۔ ارگینیکون مقدمے میں سینیر فوجی افسران سمیت 275 افراد کو حکومت کے خلاف بغاوت کی منصوبہ بندی کے الزام میں نامزد کیا گیا تھا۔ جس طرح پاکستان میں حکمران جماعت مسلم لیگ نواز کے خلاف 2014 کے دھرنے انتخابی دھاندلی اور مالی بدعنوانی کے الزامات کے تحت شروع کیے گئے اسی طرح ترکی میں اے کے پی پارٹی 2013 میں سامنے آنے والے مالی بدعنوانیوں کے سکینڈل کی زد میں ہے۔

فوجی دائرہ اختیار میں \’غیر ضروری مداخلت\’ اور سول حکومتوں کی \’نااہلی\’ کو دنیا بھر میں فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضے کے جواز کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان کو ترکی میں برپا ہونے والی حالیہ بغاوت سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی سول حکومت کو اداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم اور خاص کر سول حکومت کی عوام میں پذیرائی کے معاملات پر ترک حکومت سے سبق سیکھنا چاہیئے، کیوں کہ یہی عوامی پذیرائی طیب اردگان کو بچانے کا باعث بنی۔

ترک صدر کے نو عثمانی عزائم اور اسلام پسند رحجانات کے باوجود فوجی بغاوت کی راہ میں مزاحم ہونے والے عوام مذہبی جتھے نہیں تھے۔ طیب اردگان نے اپنی معاشی حکمت عملی اور ترقی کے ثمرات عام آدمی تک پہنچا کر عوام کا اعتماد حاصل کیا ہے۔ اگرچہ پاکستان کی معیشت میں استحکام کی تعریف عالمی بنک اور ایشیائی ترقیتی بنک کی جانب سے کی جا رہی ہے مگر اس ترقی کے فوائد عام آدمی تک نہیں پہنچ پائے۔

سول عسکری تعلقات کے لیے مثالی نمونہ وہی ہو گا جس میں فوج طاقتور ہو مگر سول حکومت کے تابع ہو، اور اس مثالی صورت حال کے لیے ایک اہم عامل سول حکومت کے لیے عوامی حمایت کا ہونا ہے۔ سو یہ ممکن ہے کہ موجودہ صورت حال میں عمران خان کا یہ کہنا درست ہو کہ \”فوج کے آنے پر عوام مٹھائیاں بانٹیں گے\” لیکن اس کا مطلب یہ نہیں عمران خان یا کوئی بھی اور اس مسئلے کے ایک اہم پہلو کو نظر انداز کر دے۔ معاشی ترقی کے فوائد عام آدمی تک پہنچانے اور سول بالادستی کے قیام کے لیے سول اداروں کو مستحکم اور مضبوط ہونے کے لیے وقت درکار ہے اور ایک اور فوجی مداخلت اس مسئلے کا حل نہیں ہو سکتی۔

______________________

کنور خلدون شاہد کا یہ مضمون نیوز لائن کے لئے لکھا گیا یہ مضمون لالٹین پر ترجمہ کر کے پیش کیا گیا جسے ‘ہم سب’ کے قارئین کے لئے پوسٹ کیا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments