اردو بولنے والے اور تعصب!


\"usmanملک میں صرف آٹھ فیصد اردو بولنے والوں کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ان کا سیاسی مسئلہ اس وقت ایک قومی بحران بن چکا ہے

ملک کے 92 فیصد عوام کو ایم کیوایم سے کوئی سروکار نہیں مگر اس وقت پورے پاکستان میں ہر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ الطاف حسین کا اگلا ایکشن کیا ہوگا، فاروق ستار کیا دھوکا دے رہا ہے اور مصطفیٰ کمال کا اب کیا مستقبل ہے

یہ اردو بولنے والوں کی ایک بالادست کمیونٹی ہونے کی علامت ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم خود کو مظلوم بھی ڈیکلئیر کرتے ہیں

سرکاری نوکری کرنا ہمارا مزاج نہیں، فوج میں بھرتی ہونے سےہماری شان گھٹتی ہے، اگر نوکری بھی کریں گے تو فوج میں کمیشن پر جائیں گے یا مقابلے کا امتحان پاس کرکے اسٹنٹ کمشنر لگیں گے اور پھر بھی ہمارا یہ ماننا ہے کہ نوکریوں میں ہماری حق تلفی ہوتی ہے

شوبز سے لے کر سیاست تک اور ملکی اسٹبلشمنٹ میں اہم عہدوں سے صحافت تک ہمارا راج ہے مگر پھر بھی شکوہ کرتے ہیں کہ ہمیں کم ملا ہے

کراچی میں ٹریفک جام بھی اتنی بڑی خبر ہے کہ بلوچستان میں چار پانچ ہلاکتوں کی خبر کو آرام سے کھا جاتی ہے، سکھر میں بس الٹ جائے، مسافر جان سے جائیں، کوئی بات نہیں مگر لالوکھیت میں گٹر کا ڈھکن اپنی جگہ رہنا چاہیے ورنہ کسی سندھی وزیراعلیٰ کی عزت اچھال دی جائے گی۔

کراچی کے چھ اضلاع ہیں جن میں سے تین اضلاع میں اردو بولنے والوں کی اکثریت ہے یعنی ایم کیوایم کا معاملہ پورے کراچی کا بھی ایشو نہیں ہے

میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ پنجابی اسٹبلشمنٹ کا وجود ہے مگر اس سے اردو بولنے والوں کو کیا مسئلہ ہے؟ سرمایہ داروں اور جرنیلوں پر مشتمل وسطی پنجاب کی یہ اسٹبلشمنٹ بالائی اور جنوبی پنجاب سمیت سندھ اور بلوچستان کی حق تلفی کرتی ہے، اردو بولنے والوں نے اس اسٹبشلمنٹ کے خلاف کب آواز اٹھائی ہے؟

سندھی بھٹو سولی پر چڑھ گیا، بلوچ بزنجو لڑتا رہا، پختون ولی خان جیلوں میں رہا، خود پنجابی اس اسٹبلشمنٹ کے خلاف کھڑے ہوئے، کیا کسی ایسے اردو بولنے والے ملکی سطح کے لیڈر کا نام بتا سکتے ہیں جس نے آمروں کے خلاف مزاحمت کی ہو؟

اگر آپ شہید حسن ناصر اور معراج محمد صاحب کا نام لیں گے تو جانے دیں جناب ۔۔ اگر اردو بولنے والے کمیونسٹوں کو اس دور میں پھر طاقت مل جائے تو شاید وہ سب سے پہلے اپنی کمیونٹی کو جوتے رسید کریں کہ خدارا تم کہاں جارہے ہو ۔۔ تمہیں کیا ہو گیا ہے!!

کون سی ایسی عوامی یا مذہبی جماعت ہے، جس میں اردوبولنے والوں کو فیصلہ سازی کی قوت حاصل نہ ہو، جماعت اسلامی سے پیپلزپارٹی تک یوپی کے لوگ ہی انہی جماعتوں میں ملتے ہیں، وڈیروں کی جماعت کہلانے والی پیپلزپارٹی کا یہ حال ہے کہ بلاول بھٹو کی ساری ٹیم اردو بولنے والوں پر مشتمل ہے، مراد علی شاہ تک پہچنے کے لئے کئی بھائی لوگوں سے رابطہ کرنا پڑتا ہے، صرف شیری رحمان، رضا ربانی، تاج حیدر، پروفیسر این ڈی خان، ڈاکٹر مبشر حسن اور سعید غنی کی بات نہیں ہے، سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا کی پوری پیپلزپارٹی اٹھا کر دیکھ لیں، اکثریتی مقامی لیڈرشپ ان علاقوں میں ہجرت کرنے والے اردواسپیکنگ کی ملے گی اور یہ بھی کہیں لکھ کر رکھ لیں کہ جماعت اسلامی میں اردو بولنے والوں کے لئے وہی حساسیت ہے، جو ایم کیوایم میں ہے۔

ابھی بھارتی فلم فلائنگ جٹ کا پوسٹر سینما پر آویزاں دیکھا تو پہلا خیال شعیب منصور کے ففٹی ففٹی کا آیا جس میں پنجابی کو پینڈو، بلوچ کو گنوار، پختون کو گھامڑ اور سندھی کو جاہل بنا کر تمسخرانہ انداز میں پیش کیا جاتا تھا، کیا کہیں کبھی کسی اردو بولنے والے کا ہمارے ادب میں اس طرح مذاق بنایا گیا ہے؟

صاحب! ادب بھی اردو بولنے والے تخلیق کرتے ہیں، کیسے اپنا مذاق بنائیں گے، کاش سندھی کو تہذیب کا وارث، پختون کو چٹانوں کا فرزند، بلوچ کو یاروں کا یار اور پنجابی کو ادب میں ہر حال میں خوش رہنے والے کردار کے طور پر اسی طرح پیش کیا جائے کہ جس طرح بھارت میں قومیتوں کے مابین ایک دوسرے کے تاثر کو بہتر بنانے کے لئے فلموں کے ذریعے کام ہورہا ہے

کوئی اردو بولنے ایسا نہیں ہوگا جس کے بچپن میں اسے یہ نہ بتایا گیا ہو کہ پنجابی، پختون، بلوچ اور سندھی صبح اٹھے تو پاکستان بن چکا تھا، ساری جدوجہد ہم نے کی، ہر نام نہاد زیادتی کی وجہ دھرتی کا فرزند نہ ہونا قرار دے دی جاتی ہے، پنجابی، پختون، بلوچ اور سندھی اگر اپنی اپنی اسمبلیوں اور ریفرنڈم میں پاکستان کے حق میں ووٹ نہیں دیتے تو یہ ملک نہیں بنتا، ہجرت پنجابیوں نے بھی مشرقی پنجاب سے کی ہے، مہمان نواز سندھیوں کی زمین پر بیٹھ کر اس طرز کی باتیں کیا ہمیں زیب دیتی ہیں؟ اگر ہم پاکستان کے لیے سب کچھ چھوڑ کر آئے تھے تو اپنی خوشی اور خواہش سے آئے تھے، کسی نے ہمیں دھکا تو نہیں دیا تھا۔ یہ بھی تو دیکھیں کہ صرف آٹھ فیصد ہونے پر دیگر قومیتیں ہمیں وسائل میں کتنا شئیر دے رہی ہیں، میں جب پہلی بار لاہور گیا تو داتا دربار کے باہر سے رکشہ لے کر کہا کہ مجھے شاہی قلعہ جانا ہے تو رکشہ ڈرائیور نے مجھ سے تاریخی جملہ کہا

صاحب۔۔ تم لوگ کراچی جا کر بولتے ہو کہ دوقدم کے فاصلے پر موجود ہونے کے باوجود پنجابی رکشہ ڈرائیور قلعے کی آڑ میں پورا شہر گھما کر اردو بولنے والوں کو لوٹ لیتے ہیں، میں تمہیں مفت میں چھوڑوں گا اور اس نے ایسا ہی کیا۔

جب میں رکشے سے اتر رہا تھا تو وہ بولا کہ اپنے اردو بولنے والوں سے کہنا کہ پنجابی ڈرائیور اردو بولنے والے مسافروں کو نہیں لوٹتے بلکہ لٹیرے ہر اجنبی کو لوٹتے ہیں

میں اردو بولنے والوں میں بھی خاص یوپی کے افراد کی بات کروں گا، میرےآباؤاجداد کا تعلق بھی یوپی سے ہی ہے، احساس برتری کا یہ عالم ہے کہ عموماً یوپی کے علاوہ دیگر قومیتوں میں شادیاں تک نہیں کی جاتیں یہاں تک کہ اردو بولنے والے بہاریوں اور بنارسیوں کی بھی اکثر تضحیک کی جاتی ہےکیونکہ ان کا لہجہ یوپی والوں سے مختلف ہے

متعصب افراد تمام قومیتوں میں ہوتے ہیں اور یہ ان قومیتوں کا بدترین طبقہ کہلاتے ہیں، کیا اردو بولنے والوں میں نہیں ہوسکتے؟ اور کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کا تناسب زیادہ ہوگیا ہو اور گزشتہ 30 برسوں میں کہیں تعصب کی اس زیادتی نے ہمیں پیچھے نہ دھکیل دیا ہو

دوسری قومیتوں کو متعصب سمجھنے والے کہیں خود تو متعصب نہیں ہو گئے؟

ہوسکتا ہے کہ ایسا نہ ہو مگر اس پہلو سے اک بار سوچنے میں حرج ہی کیا ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments