پاکستانی کینیڈین ماں نے بیٹی کی سہیلی کو کیسے قبول کیا؟


ہاجرہ ایک سال میں اتنی بدل جائیں گی مجھے بالکل یقین نہ آ رہا تھا۔ آج وہ مسکرا رہی تھیں۔ ہنس رہی تھیں۔ خوش تھیں۔ سکھی تھیں اور مجھے ایک سال پہلے کا وہ دن یاد آ رہا تھا جب وہ پہلی بار مجھ سے ملنے آئی تھیں اور بہت دکھی دکھائی دے رہی تھیں۔ اس دن انہوں نے مجھ سے کہا تھا

‘ڈاکٹر سہیل ! میں چھ ماہ سے اس اپوائنٹمنٹ کا انتظار کر رہی ہوں۔ میرے من میں ایک راز ہے۔ ایک زخم ہے جو بڑھتے بڑھتے ناسور بنتا جا رہا ہے۔ اس نے میرے دن کا چین اور رات کا سکون برباد کر دیا ہے۔ ’

‘وہ کیا راز ہے؟’ میں متجسس تھا۔

‘ میں نے اپنی چھوٹی بیٹی شائستہ کی ڈائری پڑھ لی ہے۔ ڈائری پڑھنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ مجھے اس کے ڈائری نہیں پڑھنی چاہیے تھی’

‘ اس ڈائری میں کیا لکھا تھا؟’

‘ اس میں وہ سب خطوط تھے جن کا اس نے اپنی کینیڈین سہیلی نینسی سے تبادلہ کیا تھا’

‘ ان خطوط میں ایسی کیا بات تھی جس نے آپ کو اتنا پریشان کیا؟’

یہ سوال سن کر ہاجرہ زارو قطار رونے لگیں۔

میں نے ان کی خاموشی کا احترام کیا اور موضوع بدل دیا۔

ہاجرہ نے بتایا کہ وہ ڈیپریشن کا شکار تھیں اور دو ڈاکٹروں سے مل چکی تھیں جنہوں نے ان کا ادویہ سے علاج کرنے کی کوشش کی تھی لیکن خاطر خواہ کامیابی نہ ہوئی تھی۔

مجھے پہلے انٹرویو میں ہی اندازہ ہو گیا کہ ان کی روح میں ایک کانٹا چبھا ہوا تھا اور جب تک وہ کانٹا نہ نکلے گا وہ صحتمند نہیں ہوں گی۔

دو ہفتوں کے بعد میں نے دوبارہ ہاجرہ کی بیٹی اور اس کی سہیلی کا موضوع چھیڑا۔

‘ نینسی نے آپ کی بیٹی سے کیا کہا؟‘

وہ پھر بھی خاموش رہیں۔

‘کیا اس نے لکھا تھا کہ وہ شائستہ کو پسند کرتی ہے؟’

‘جی ہاں‘ انہوں نے اقرار کیا

‘ اور کیا شائستہ نے بھی لکھا کہ وہ نینسی سے پیار کرتی ہے’

‘ جی ہاں’

‘ تو وہ خطوط محبت نامے تھے’

‘ جی ہاں’

میں نے ایک دفعہ پھر ہاجرہ کی ہچکچاہٹ کا احترام کیا اور گفگتو کا رخ ان کی ڈیپریشن کی طرف موڑ دیا۔

ہاجرہ نے وعدہ کیا کہ وہ ہر روز سیر کو جائیں گی تا کہ ورزش کر سکیں کیونکہ ورزش سے ان کی ڈیپریشن کم ہوتی تھی۔

چند ہفتوں کے بعد ہاجرہ نے کہا کہ وہ اپنی بیٹی شائستہ کے مستقبل کے بارے میں پریشان رہتی ہیں۔

میں نے کہا اس نے اچھے نمبروں سے کمپیوٹر انجینیرنگ میں گریجوئیشن کر لی ہے۔ اسے ایک اچھی جوب کی آفر بھی آ گئی ہے۔ فکر کی کیا بات ہے۔

‘ میں اس کی شادی کرنا چاہتی ہوں۔ کئی رشتے آ رہے ہیں’

‘ آپ اس کی شادی کی فکر نہ کریں۔ یہ کینیڈا ہے۔ وہ اپنے لیے خود شریکِ حیات تلاش کر لے گی’

’کیسے فکر نہ کروں۔ میں ایک پاکستانی ماں ہوں’

‘ پاکستانی کینیڈین ماں۔۔۔ آپ نے دونوں بیٹیوں کو کینیڈا میں اعلیٰ تعلیم دلوائی ہے۔ اب ان پر اعتماد کریں۔ وہ اپنی زندگی کے خود فیصلے کر لیں گی’

‘مجھے ڈر ہے کہیں شائستہ غلط راستے پر نہ چل پڑے’

‘ آپ کا مطلب ہے لیسبین راستے پر’

‘ جی ہاں’

‘ میں نہیں چاہتی کہ وہ گناہ کی زندگی گزارے۔ ’

اس دن میں پھر خاموش رہا۔ میں ہاجرہ سے مذہبی گفتگو نہیں کرنا چاہتا تھا۔

ایک انٹرویو میں جب ہاجرہ نے نینسی سے اپنے غصے کا اظہار کیا تو میں نے پوچھا ‘کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ سمجھتی ہیں کہ نینسی نے آپ کی بیٹی کو ورغلایا ہے؟’

‘ جی ہاں۔۔۔ ایسا ہی ہے’

دو ہفتوں کے بعد کہنے لگیں ‘ میں ایک اچھی ماں نہیں ہوں۔ میں نے شائستہ کی صحیح تربیت نہیں کی۔ وہ چھوٹی تھی اسے بہت لاڈ پیار دیا اور اس لاڈ پیار نے اسے خراب کر دیا۔ ‘

‘اگر وہ لیسبین ہے تو اس میں آپ کا کیا قصور ہے؟’

‘ میری غلط تربیت سے وہ ایسی ہو گئی ہے’

‘ ہاجرہ صاحبہ۔۔۔ ایسا نہیں ہے۔ وہ پیدا ہی ایسی ہوئی ہے۔ اگر آپ کی تربیت کا اثر ہوتا تو آپ کی دونوں بیٹیاں لیسبین ہوتیں‘

اس دن ہاجرہ کچھ سوچ میں پڑ گئیں۔

پھر میں نے شائستہ اور اس کی سہیلی نینسی کو بلایا اور ان سے ملاقات کی۔ وہ ایک دوسرے سے محبت کرتی تھیں اور شادی کے منصوبے بنا رہی تھیں۔

شائستہ نے کہا ‘ میں ماما کو بہت چاہتی ہوں۔ کاش وہ نینیسی کو قبول کر لیں اور ہماری شادی میں شریک ہو جائیں’

‘ میں کوشش کروں گا’

Thank you so much Dr Sohail. If you could do that I will be eternally indebted to you.

چند ہفتوں کے بعد میں نے ہاجرہ کے شوہر عبدالمجید کو بھی بلایا۔ کہنے لگے

‘ لیسین اور گے ہونا گناہ ہے۔ سب مذاہب یہی کہتے ہیں‘

میں نے کہا۔ ۔ ‘۔ مجید صاحب۔۔۔ فیصلہ آپ کا ہے۔ آپ کو روایت عزیز ہے یا بیٹی کی محبت۔ سچ بات یہ ہے کہ آپ کی بڑی بیٹی نے مرد سے شادی کی ہے اور چھوٹی بیٹی ایک عورت سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ اگر آپ روایت کو چنیں گے تو آپ کی بیٹی آپ سے دور ہو جائے گی۔ آپ بیٹی کی خوشی چنیں گے تو وہ آپ کے قریب ہو جائے گی۔ فیصلہ آپ کا ہے۔ ’

اگلے ہفتے ہاجرہ آئیں تو انٹرویو میں زارو قطار رو رہی تھیں۔ پتہ چلا کہ ان کے شوہر نے ان سےکئی دن بات نہ کی اور ایک دن پھٹ پڑے کہنے لگے ‘یہ سب تمہارا قصور ہے۔ تم نے شائستہ کو سر پر چڑھا رکھا تھا۔ وہ نہ نماز پڑھتی تھی نہ روزہ رکھتی تھی۔ اب گمراہ ہو گئی ہے۔ اس کی ساری ذمہ داری تمہارے سر ہے’

میں نے ہاجرہ کی بڑی ہمت بندھائی اور بتایا کہ ان کا قصور نہیں ہے۔ وہ ایک محبت کرنے والی ماں ہیں۔ میں نے مشورہ دیا کہ میں ہاجرہ اور شائستہ دونوں سے ملوں۔ ہاجرہ تیار ہو گئیں۔

چنانچہ میں نے ہاجرہ اور شائستہ کو اکٹھے بلایا۔ شائستہ نے اپنی ماں سے کہا ’ ماما۔۔۔ آئی لو یو۔۔۔ ۔ میں شادی کرنے والی ہوں۔۔۔ میری خواہش ہے کہ آپ میری شادی میں شریک ہوں’

ہاجرہ خاموش ہو گئیں اور پھر وہ رونے لگیں۔

تھوڑی دیر کے بعد میں نے ہاجرہ سے پوچھا۔ ‘آپ کے لیے اپنی بیٹی کی شادی میں شامل ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ کیا ہے’؟

وہ کافی دیر سوچتی رہیں۔۔۔ پھرکہنے لگیں ’لوگ کیا کہیں گے‘

میں نے کہا ‘ سوال یہ ہے کہ آپ کو اپنی بیٹی کی خوشی کتنی عزیز ہے؟۔ آپ شائستہ سے محبت کرتی ہیں اورمحبت قربانی مانگتی ہے۔۔۔ کیا آپ اپنی بیٹی کے لیے اپنے شوہر اور رشتہ داروں کی ناراضی کی قربانی دے سکتی ہیں یا نہیں؟’

ہاجرہ کو بات سمجھ میں آ گئی۔ ہاجرہ نے اٹھ کر شائستہ کو گلے لگایا۔

اس کے بعد میں نے ہاجرہ کو شائستہ اور اس کی سہیلی نینسی کے ساتھ بلایا۔ اس میٹنگ کے آخر میں ہاجرہ نے شائستہ کو ہی نہیں نینسی کو بھی گلے لگایا اور اس میٹنگ کے بعد ہاجرہ نے شائستہ اور نینسی کے گھر جانا شروع کر دیا۔

بدقسمتی سے مجید صاحب نے اپنی بیٹی اور اس کی سہیلی سے ملنے سے بالکل انکار کر دیا۔

دو ماہ پیشتر کینیڈا میں شائستہ اور نینسی کی شادی ہوئی جس میں دونوں کے پاکستانی اور کنیڈین دوست سبھی شامل ہوئے۔ اس شادی میں ہاجرہ نے بھی شرکت کی۔

آج ہاجرہ آئیں تو بہت خوش تھیں۔۔۔ مجھے شادی کی تصویریں دکھا کر کہنے لگیں۔۔۔ ڈاکٹر سہیل۔۔۔ آپ کی مدد سے میں نے نینسی کو اپنی بہو اور بیٹی کے طور پر قبول کر لیا ہے۔۔۔ بہت بہت شکریہ’

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail