کباڑن کا خط، ڈیزائنر بے بی کے نام


میری بچی!

میں جانتی ہوں تم کبھی پیدا نہیں ہو سکو گی۔ پھر بھی میرے پاس تمہارے لیے کچھ خواہشیں ہیں۔ کچھ ایسی تاویلیں جو تمہارے ہی جیسے ناموجود اور ان دیکھے خدا کے سامنے میری زندگی کی کڑی مشقت کا جواز ہوسکتی ہیں۔ میں کباڑن ہوں۔ میں زندگی کے اس کاٹھ کباڑ سے بھرے پنڈال کے نیچے بیٹھی اچھی بری چیزوں کی چھانٹی کرتی رہتی ہوں۔ اس کاٹھ کباڑ میں اچھی چیزیں ملنے کا امکان کم ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ اچھی چیزیں اس کباڑ خانے کے تنبووں کی دیوار سے بنے احاطے میں بھلا کیسے آ سکتی ہیں۔ انہیں ذوق یافتہ ذہن اور تربیت یافتہ ہاتھ گھروں کے اندر ہی روک لیتے ہیں۔ لہذا اس کاٹھ کباڑ کی دنیا میں ٹوٹی پھوٹی، پھٹی پرانی، ادھڑی اکھڑی ہوئی، بھدی اور میلی چیزوں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ پھر بھی میری آ نکھیں اچھی چیزوں کو پالینے کی گنجائش سے خالی نہیں ہوتیں۔

میری بیٹی!

جیسے تم ان دیکھی اور ناموجود ہو تمہارا والد ایسا ان دیکھا اور ناموجود نہیں ہے۔ پھر بھی وہ موجود نہیں۔ وہ میری ساری حسوں میں اپنے پورے وجود کے ساتھ پھیلا ہوا ہے لیکن میرے قریب ہرگز نہیں، کیونکہ وہ ایک بڑا آ دمی ہے۔ اس کی ایک کباڑن کے ساتھ کیا نسبت ہوسکتی ہے جس کی خام مال سے لے کر صنعت اور کارخانے کے اندر سے ملفوف ہوکر نکلتے تازہ مال تک رسائی ہو۔ میں یہ سارے حقائق جانتی ہوں۔ میں جانتی ہوں وہ زندگی کے اس کاٹھ کباڑ سے بھرے احاطے میں پھٹے ہوئے شامیانے کی چھت کے نیچے میرے ساتھ چوکی پہ بیٹھ کر اچھی بری چیزوں کی چھانٹی نہیں کرے گا، میں پھر بھی اس کے لیے اچھی چیزیں تلاشتی رہتی ہوں۔ سب سے اچھے لفظ، سب سے خوبصورت نظمیں، سب سے عمدہ جملے اور سب سے اعلیٰ متن۔ مجھے جہاں بھی ملتے ہیں میں الگ کرکے اس کی خاطر رکھ دیتی ہوں۔ اور پھر اسے روانہ کردیتی ہوں۔

میری بیٹی! میں چاہتی ہوں کہ مجھے جو کچھ نہیں ملا وہ تم اپنے نامہ تقدیر میں لے کر آ ؤ۔ اور جو کچھ میرے پاس ہے وہ تمہارے پاس نہ ہو۔ بے شک تمہارے پاس ذہن نہ ہو لیکن تم تازہ چہرے کے ساتھ ہمیشہ جوان رہنے والا بدن لے کر آ نا۔ جانتی ہو ذہانت بوڑھا کردیتی ہے۔ ذہانت ایک درد ہے۔ ذہانت ایک روگ ہے۔ ذہانت ایک عذاب ہے۔ تم کند ذہن پیدا ہوگی تاکہ تم وہ ساری زندگی اپنے آ س پاس پھیلی دنیا میں جیو، جو میں نے اپنے اندر اتری دنیا میں ڈوب کے بتائی ہے۔ بیٹی میں جانتی ہوں تم جب بڑی ہوگی تو اپنے باپ جیسے آ دمی سے محبت کرو گی۔ اس لیے میں تمہاری تربیت اس ڈھب پہ کررہی ہوں جو اس شخص کو پسند آ ئے جس سے تم محبت کروگی۔ میں نہیں چاہتی کہ میری طرح تم استرداد کے ستم سے گزرو، کوئی کپڑے کے تھان کی طرح تمہاری کتربیونت کرے، تم پہلے ہی اس کے ناپ کا سلا سلایا لباس بن کے جاؤ تاکہ وہ جاتے ہی تمہیں پہنے۔ میں وراثت کے اس کوڈ کو توڑنا چاہتی ہوں جس نے مجھ سے پہلی میری تین نسلوں کا خون پیا ہے۔

میری ماں، میری نانی اور میری پرنانی۔ سگھڑاپا، صبر، برداشت، وفاداری، سادگی اور کردار کے اسباق نے جنہیں کچھ نہیں دیا تھا۔ میری ماں نے اپنی ماں اور اپنی ماں کی ماں کے یہ فارمولے مجھے بھی ازبر کرائے تھے، لیکن افسوس کہ زمانہ بدل چکا تھا اور میرے زمانے کے بازار میں یہ سارے سکے کھوٹے ہوچکے تھے، متروک ہوچکے تھے۔ تب ہر ایک نے مجھے حیرتوں سے دیکھا، مجھ پہ آ وازے کسے، مجھے مسترد کیا۔

میری ماں کہا کرتی تھی سادگی اور کردار ہی اصل حسن ہے۔ لیکن زمانے کے بازار میں پیوند لگے جسموں اور غازے کے پیچھے چھپے چہروں کی مانگ تھی۔ سو میں اپنے خالص پن کے باوجود ہر بار ناکام واپس لوٹی۔

میری بچی!

میں نے اچھی طرح سوچ لیا ہے میں ان تین نسلیں پہلے کی عورتوں کا ناکام فلسفہ تمہیں نہیں پڑھاؤں گی۔ مجھے اس جین کوڈ کو توڑنا ہے جس نے نسل در نسل عورتوں کی زندگیاں تباہ کی ہیں۔ بیٹی زمانہ دو نہیں اب تین دھاری تلوار ہوچکا ہے۔ 3 D۔ ہاں تم تھری ڈی کے دور میں پیدا ہورہی ہو جہاں التباس اب حقیقت اور حقیقت التباس بن چکی ہے۔ جہاں جنگیں اور دوائیاں اپنی پانچویں نسل میں داخل ہوچکی ہیں۔ وہاں گھر گھرہستی اور خاندان کا تصور بھی بدل گیا ہے۔ اب مرد کے دل تک جانے کے لیے عورت کو چوبیس میں سے اٹھارہ گھنٹے ایک پاؤں پہ کچن میں کھڑے رہنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس کی جگہ چوبیس میں سے اٹھارہ گھنٹے بیوٹی پارلر میں گزارنا ہوں گے۔ جو کچن کی نسبت کافی آ سان ہے۔

میں ایک کباڑن ہوں بیٹی۔ میرے چہرے پہ میری پچھلی نسلوں کی مشقت کی تھکن ہے۔ اس تھکن کی گرد کو میں صاف کرنے سے قاصر ہوں کہ میں جب بھی اس سے نکلنے کی تگ و دو کرتی ہوں اور زیادہ تھک جاتی ہوں۔ میں تمہارے لیے خواہشیں لائی ہوں جو میں نے جمع کرادی ہیں۔ وہ تمہارے باپ کے نطفے کے ساتھ تمہاری شخصیت میں بھردی جائیں گی۔ تم ایک ڈیزائنر بچی ہوگی بالکل ایسی جیسی میں ہونا چاہتی ہوں اور بن نہیں پارہی، بالکل ایسی جیسی تمہارے باپ کو پسند ہے، بالکل ایسی جیسی تمہارے باپ جیسے آ دمی کو پسند ہوگی۔ تمہارا قد، تمہارے بال، تمہاری آ نکھوں کا رنگ، تمہاری ناک، تمہارے ہونٹ، تمہارا بدن، تمہاری چھاتیاں، ہر چیز کا ناپ بھی میں نے دے دیا ہے۔ ہاں میں نے تمہارے لیے دماغ نہیں مانگا۔ دماغ بدن اور چہرے کی موت ہوتا ہے۔

اور جو زمانہ تم جیو گی اس میں دماغ کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے۔

میری بیٹی!

تمہارا باپ ایک شکر گزار آ دمی ہے۔ وہ میری محبت کی ناشکری نہیں کرتا۔ وہ میری اچھی جمع کی ہوئی چیزوں کو سنبھال کے وصول کرتا ہے۔ انہیں دیکھتا ہے کچھ دیر ان سے لطف اندوز ہوتا ہے اور پھر اپنی ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتا ہے۔ وہاں سے ہوکر وہ ساری اچھی چیزیں پھر میرے پاس لوٹ آ تی ہیں۔ لیکن ان میں تمہارے بابا کی نگاہ کی روشنی اور ہاتھوں کا لمس ہوتا ہے۔ میں وہ روشنی اور لمس سمیٹ لیتی ہوں اور ان اچھی چیزوں کو دفن کرکے نئی چیزوں کی تلاش شروع کردیتی ہوں۔ میں اس عمل کو ترک نہیں کرسکتی کیونکہ میں جانتی ہوں کہ میں اس دھرتی پہ اپنی وضع کی آ خری عورت ہوں۔ اس لیے کہ میں نے اپنی پچھلی تین نسلوں سے جاری جین کوڈ کو توڑ دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).