جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف بھیجے گئے ریفرنس کے ممکنہ محرکات


جسٹس قاضی فائز ﻋﯿﺴﯽٰ چھبیس ﺍﮐﺘﻮﺑﺮ ﺍﻧﯿﺲ ﺳﻮ ﺍﻧسٹھ کو ﺑﻠﻮﭼﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﻋﻼﻗﮯ ﭘﺸﯿﻦ ﻣﯿﮟ پیدا ہوئے۔ ﻗﺎﺿﯽ فائز ﻋﯿﺴﯽٰ ﻧﮯ ﺍﺑﺘﺪﺍﺋﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﮐﻮﺋﭩﮧ ﮔﺮﺍﺋﻤﺮ ﺳﮑﻮﻝ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯽ۔ اس کے بعد انگلینڈ چلے گئے۔ وہاں سے ﺑﯽ ﺍﮮ ﺁﻧﺮﺯ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﮐﯽ ﮈﮔﺮﯼ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯽ۔ 1983 میں ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻭﮐﺎﻟﺖ ﮐﯽ ﭘﺮﯾﮑﭩﺲ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯼ۔

قاضی فائز عیسی کا شمار ﮐﺎﺭﭘﻮﺭﯾﭧ فیلڈ میں پاکستان کے چند گنے چنے مشہور وکلا میں ہو تا تھا۔ قاضی فائز عیسی اپنی وکالت کے دنوں کبھی بار کی سیاست میں حصہ نہی لیا۔ ہمارے ہاں اکثر ججز صاحبان بار کی سیاست میں نام پیدا کر کے جوڈیشری میں اتے ہیں۔ اس کی ایک مثال محترم ثاقب نثار صاحب بھی ہے جو لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسیشن کے جنرل سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں۔ اور ابھی بھی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں کئی ججز ایسے ہے جو بار کی سیاست سے ہوتے ہوئے جوڈیشری میں آئے، مگر قاضی فائز عیسی نے جج بننے کے لئے کبھی بھی ﺑﺎﺭ ﮐﯽ ﺳﯿﺎﺳﺖ کا سہارا نہیں لیا۔

ﻗﺎﺿﯽ فائز ﻋﯿﺴﯽٰ ﮐﺎ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﺑﻠﻮﭼﺴﺘﺎﻥ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﺎﺳﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﮐﺎ ﺣﺎﻣﻞ ﮨﮯ۔ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﻗﺎﺿﯽ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﯿﺴﯽٰ ﻣﺴﻠﻢ ﻟﯿﮓ ﺑﻠﻮﭼﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺻﻮﺑﺎﺋﯽ ﺻﺪﺭ ﺗﮭﮯ۔ اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے کے قریبی ساتھیوں میں ان کا شمار ہو تا تھا۔

ﺟﺴﭩﺲ ﻗﺎﺿﯽ فائز ﻋﯿﺴﯽٰ ﮐﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺮ ﭘﺮﯾﮑﭩﺲ ﮐﺮﺍﭼﯽ میں رہی۔ وہ کئی کیسز میں بطور عدالتی معاون اپنی خدمات انجام دیں۔ ﺳﻨﺪﮪ ﮨﺎﺋﯽ ﮐﻮﺭﭦ ﻣﯿﮟ ﭘﯽ ﺳﯽ ﺍﻭ ﺟﺠﺰ ﮐﯽ ﺗﻮﺛﯿﻖ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺳﻨﺪﮪ ﮨﺎﺋﯽ ﮐﻮﺭﭦ ﺑﺎﺭ ﮐﯽ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﮐﯽ ﻣﻌﺎﻭﻧﺖ ﮐﯽ، ﺍﺱ ﻣﻘﺪﻣﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮨﺎﺋﯽ ﮐﻮﺭﭦ ﺑﺎﺭ ﻧﮯ ﺁﮔﮯ ﭼﻞ ﮐﺮ ﺳﭙﺮﯾﻢ ﮐﻮﺭﭦ ﻣﯿﮟ ﭘﭩﯿﺸﻦ ﺩﺍﺋﺮ ﮐﯽ ﺟﺲ ﭘﺮ 31 جولائی 2009 کے تاریخی ﻓﯿﺼﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﯽ ﺳﯽ ﺍﻭ ﺟﺠﺰ ﮐﻮ ﻏﯿﺮ ﺁﺋﯿﻨﯽ ﺍﻭﺭ ﻏﯿﺮ ﻗﺎﻧﻮﻧﯽ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔ اس تاریخی فیصلے نے ملک میں مارشل لا لگانے کے تمام دروازے بند کر دیے۔

مارچ 2007 میں جب اس وقت کے ڈکٹیٹر جنرل مشرف نے ﺳﭙﺮﯾﻢ ﮐﻮﺭﭦ ﮐﮯ ﭼﯿﻒ ﺟﺴﭩﺲ ﺍﻓﺘﺨﺎﺭ ﻣﺤﻤﺪ ﭼﻮﺩﮬﺮﯼ ﮐو ﻣﻌﺰﻭل کیا، تو قاضی فائز عیسی ان وکلا میں سے تھے جنہوں نے اس فیصلے کے خلاف سخت آواز اٹھائی۔ جب پرویز مشرف نے نومبر 2007 کو ملک میں ﺍﯾﻤﺮﺟﻨﺴﯽ نافذ کر کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت ہائی کورٹ کے 60 سے زیادہ ججوں کو معزول کر کے عہدوں سے برطرف کیا، تو مشرف کے اس غیر آئینی فیصلے ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﻗﺎﺿﯽ فائز ﻧﮯ ﺳﺨﺖ ﻣﻮﻗﻒ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﺧﺒﺎﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﺭﮨﮯ۔ عدلیہ بحالی تحریک میں قاضی فائز عیسی نے اہم کردار ادا کیا۔

قاضی فائز عیسی کے خلاف بھیجے گئے حکومتی ریفرنس کے حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں، زیادہ تر لوگ اس ریفرنس کے پیچھے خفیہ کرداروں کا ذکر کر رہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے جسٹس قاضی فائز نے فائز آباد دھرنا کیس میں ایک تاریخی فیصلہ سنایا تھا۔

ﻋﺪﺍﻟﺖِ ﻋﻈﻤﯽٰ ﻧﮯ ﺗﺤﺮﯾﮏ ﻟﺒﯿﮏ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ نومبر 2017 ﻣﯿﮟ ﺍﺳﻼﻡ ﺁﺑﺎﺩ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮯ ﮔﺌﮯ ﺩﮬﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻣﻌﺎﻣﻠﮯ ﭘﺮ ﺍﺯﺧﻮﺩ ﻧﻮﭨﺲ ﮐﺎ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺳﻨﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ تھا ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﯾﺴﮯ ﻓﻮﺟﯽ ﺍﮨﻠﮑﺎﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﮐﺎﺭﺭﻭﺍﺋﯽ ﮐﺮﮮ ﺟﻨﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﻠﻒ ﮐﯽ ﺧﻼﻑ ﻭﺯﺭﯼ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺳﯿﺎﺳﯽ ﺳﺮﮔﺮﻣﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺣﺼﮧ ﻟﯿﺎ۔

ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻧﮯ ﺁﺋﯽ ﺍﯾﺲ ﺁﺋﯽ، ﻣﻠﭩﺮﯼ ﺍﻧﭩﯿﻠﯿﺠﻨﺲ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﭩﯿﻠﯿﺠﻨﺲ ﺑﯿﻮﺭﻭ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﻓﻮﺝ ﮐﮯ ﺷﻌﺒﮧ ﺗﻌﻠﻘﺎﺕ ﻋﺎﻣﮧ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﮐﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﺍﺋﺮﮦ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﯾﮟ۔

عدالت ﻧﮯ ﺁﺭﻣﯽ ﭼﯿﻒ، ﺑﺤﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﻓﻀﺎﺋﯽ ﺍﻓﻮﺍﺝ ﮐﮯ ﺳﺮﺑﺮﺍﮨﺎﻥ ﮐﻮ ﻭﺯﺍﺭﺕِ ﺩﻓﺎﻉ ﮐﮯ ﺗﻮﺳﻂ ﺳﮯ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻓﻮﺝ ﮐﮯ ﺍﻥ ﺍﮨﻠﮑﺎﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﮐﺎﺭﺭﻭﺍﺋﯽ ﮐﺮﯾﮟ ﺟﻨﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﻠﻒ ﮐﯽ ﺧﻼﻑ ﻭﺭﺯﯼ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﺴﯽ ﺳﯿﺎﺳﯽ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﯾﺎ ﮔﺮﻭﮦ ﮐﯽ ﺣﻤﺎﯾﺖ ﮐﯽ۔

ﻓﯿﺼﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ، ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﺁﺋﯿﻦ ﻣﺴﻠﺢ ﺍﻓﻮﺍﺝ ﮐﮯ ﺍﺭﮐﺎﻥ ﮐﻮ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻗﺴﻢ ﮐﯽ ﺳﯿﺎﺳﯽ ﺳﺮﮔﺮﻣﯿﻮﮞ ﺑﺸﻤﻮﻝ ﮐﺴﯽ ﺳﯿﺎﺳﯽ ﺟﻤﺎﻋﺖ، ﺩﮬﮍﮮ ﯾﺎ ﻓﺮﺩ ﮐﯽ ﺣﻤﺎﯾﺖ ﺳﮯ ﺭﻭﮐﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﺣﮑﻮﻣﺖِ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻭﺯﺍﺭﺕِ ﺩﻓﺎﻉ ﺍﻭﺭ ﺍﻓﻮﺍﺝ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻘﮧ ﺳﺮﺑﺮﺍﮨﺎﻥ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺍﻥ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﮐﺎﺭﺭﻭﺍﺋﯽ ﮐﺮﯾﮟ ﺟﻨﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﻠﻒ ﮐﯽ ﺧﻼﻑ ﻭﺭﺯﯼ ﮐﯽ۔

ﺍﺱ ﻓﯿﺼﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﮈﯼ ﺟﯽ ﺁﺋﯽ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﺁﺭ میجر جنرل آصف غفور کے ﺍﺱ ﺳﯿﺎﺳﯽ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺣﻮﺍﻟﮧ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ تھا ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺍُﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮﮮ ﮔﯽ ﮐﮧ ﺳﻨﮧ 2018 ﻣﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻋﺎﻡ ﺍﻧﺘﺨﺎﺑﺎﺕ ﻏﯿﺮ ﺟﺎﻧﺒﺪﺍﺭﺍﻧﮧ تھے۔

اس فیصلے کے خلاف وزرات دفاع، تحریک انصاف اور شیخ رشید کی جانب سے سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی اپیلیں دائر ہو چکی ہے، جو کسی بھی وقت لگ سکتی ہیں۔ عمومی روایت ہے کہ نظر ثانی کی اپیل وہی جج سنتے ہیں جو کیس کا فیصلہ دیتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ان ریفرنس میں سازش کی بو واضح ہے۔ کچھ قوتوں کو قاضی فائز عیسی بالکل بھی پسند نہیں۔ اب 14 جون کو سپریم جوڈیشل کونسل کیا فیصلہ کرتی ہے سب کو اس فیصلے کا انتظار رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).