بلوچستان میں سیاسی تبدیلی کے امکانات؟


بلوچستان کی سیاست پر کسی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سیاست میں بلوچستان کو یہ اختصاص حاصل ہے کہ اس نے اپنی ڈور آج تک اسلام آباد کے ہاتھ میں نہیں دی۔ مقصود اس سے شاید یہ تھا کہ بلوچستان ہی وہ واحد صوبہ رہ گیا ہے جہاں اب تک صوبائی جماعتیں وجود رکھتی ہیں اور ایسا شخصی ووٹ بینک جو کسی بھی وفاقی جماعت میں ڈھل کر بھی اپنا رنگ نہیں جانے دیتا۔ حتیٰ کہ حتمی مقتدر قوتوں کو بھی جب یہاں اپنی مرضی کا ووٹ چاہا اور راتوں رات اپنی مرضی کی جماعت کھڑی کر دی تو انہیں بھی اس کے ساتھ ’بلوچستان‘ کا سابقہ لگانا پڑا، تبھی وہ ’باپ‘ (بلوچستان عوامی پارٹی) بنا پائے۔

مگر دیکھئے کہ راتوں رات بننے والی طاقتور ترین قوتوں کی طاقتور ترین جماعت بھی اتنی قوت حاصل نہ کر پائی کہ صرف اپنے بل بوتے پر صوبے میں حکومت بنا پاتی۔ یہاں کی اینٹ، وہاں کا روڑا ملا کر بھان متی کا کنبہ جوڑ تو لیا گیا مگر یہ گھر زیادہ دیر چلتا دکھائی نہیں دیتا۔ یہ کیسی عجب بات ہے کہ بلوچستان میں پہلی بار ایک ایسی حکومت قائم ہے جسے مقتدر قوتوں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے، مگر اس کے باوجود یہ روزِ اول سے ہی عدم استحکام کا شکار ہے۔ اسے ہمہ وقت اپنے ہی گھر کے بھیدی کے ہاتھوں لنکا ڈھائے جانے کا خدشہ لاحق رہتا ہے۔ محض دس گیارہ ماہ کے دوران کوئی مہینہ ایسا نہیں گذرا کہ صوبائی حکومت کی تبدیلی کی خبریں کوئٹہ کے صحافتی حلقوں میں زیر بحث نہ رہی ہوں۔

بمشکل ایک برس گزارنے والی اس حکومت کے خلاف اب باضابطہ تحریک عدم اعتماد کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ یہ بازگشت حال ہی میں سردار اختر مینگل اور جام کمال اور اُن کے حامیوں کی جانب سے ہونے والی ’ٹوئٹرانہ نوک جھونک‘ کے بعد باآوازِ بلند سنی گئی ہے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ 12 جون کو ہونے والے صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں جام کمال کے خلاف اپوزیشن مشترکہ طور پر تحریک عدم اعتماد لا رہی ہے، جس میں انہیں حکومتی جماعت کے بعض ناراض اراکین کی بھی حمایت حاصل ہے۔ واضح رہے کہ عید سے چند روز قبل ہی سردار اختر جان نے واضح عندیہ دیا کہ عید کے بعد بلوچستان میں تبدیلی لائیں گے۔

اس سے قبل تبدیلی کی باتیں تو ہوتی رہی ہیں، مگر واضح اکثریت نہ ہونے کے باعث اسے سنجیدہ نہیں لیا گیا۔ اب جب کہ اختر مینگل نے خود کھل کر اس تبدیلی کا عندیہ دیا ہے تو یہ معاملہ زیادہ شدت سے زیربحث ہے کہ کیا واقعی ایسی کسی تبدیلی کا امکان ہے؟۔ بی این پی کے بعض قریبی حلقوں کی جانب سے تو وزارتِ اعلیٰ کے متوقع امیدواروں کے نام تک لیے جا رہے ہیں (دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں بی این پی کے مضبوط ترین امیدوار سمجھے جانے والے ثنا بلوچ کا نام دور دور تک شامل نہیں)۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ بی این پی، جے یو آئی اور پشتونخوا کے ایک وزیر سمیت چند آزاد امیدوار اور ’باپ‘ کے ناراض اراکین کو اب اتنی اکثریت حاصل ہے کہ وہ باآسانی حکومت گرا سکتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا واقعی عملاً ایسا ممکن ہے؟ اور کیا واقعی بلوچستان میں ایک سال کے اندر پارلیمانی تبدیلی ہونے جا رہی ہے؟ میرا سادہ سا جواب ہو گا، نہیں۔ کیوں؟، آئیے اس کی وجوہات دیکھتے ہیں۔

پہلی بات یہ کہ بی این پی اور جے یو آئی کو اب تک نمبر گیم میں وہ واضح برتری حاصل نہیں، جو حکومت بنانے کے لیے لازم ہے۔ باپ کے ناراض اراکین کی حمایت کا دعویٰ کیا جا رہا ہے، وہ اول تو اتنی تعداد میں نہیں کہ ان کے آنے سے حکومت گرائی جا سکے۔ دوم‘ یہ وہ لوگ ہیں جو محض جام حکومت پر دباؤ ڈال کر آنے والے بجٹ میں اپنا خاطر خواہ حصہ لینے کے خواہاں ہیں۔ یہ انہیں بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ جام کی حکومت کے خلاف استعمال ہونے کا مطلب، کس کے خلاف جانا ہے۔ اور ان تلوں میں وہ تیل نہیں کہ وہ باپ کا حصہ ہوتے ہوئے اپنے مائی باپ کے خلاف استعمال ہو سکیں۔

دوسری بات یہ کہ خود اپوزیشن اب تک حکومت سازی کے معاملے میں گومگو کیفیت کا شکار ہے۔ بی این پی، جام حکومت کو تو گرانا چاہتی ہے مگر ایسی کمزور حکومت بھی نہیں لینا چاہتی جس میں مرکزی حکومت کی طرح اہم فیصلوں میں اس کا کوئی اختیار نہ ہو۔ اس سے بھی اہم بات یہ کہ، میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اختر جان کے ہوتے ہوئے بی این پی میں وزارتِ اعلیٰ کا کوئی اور امیدوار قابلِ قبول نہیں ہو سکتا، اور اخترجان صوبے میں موجود نہیں، اس لیے بی این پی نے اگر سرکار بنائی بھی تو وزارتِ اعلیٰ کی بجائے تگڑی وزارتیں لینا پسند کرے گی۔

تیسری اہم ترین بات یہ کہ، بی اے پی کو بنانے اور حکومت میں لانے والی مقتدر قوتیں بظاہر اب تک جام سرکار کی ’کارکردگی‘ سے مطمئن ہیں۔ ان کی رضا و منشا کے بغیر محض اپنے بل بوتے پر حکومت گرانا ایسا سہل بھی نہیں۔

تو کیا بلوچستان میں کسی سیاسی تبدیلی کے امکانات نہیں؟

میرا خیال ہے کہ فی الحال ایسا ممکن نہیں۔ حالیہ واویلا اور ڈراوا صرف اور صرف پی ایس ڈی پی میں حصہ بقدرِ جثہ کے معاملے پر ہے۔ بجٹ آنے تک ایک دوسرے کے خلاف ایسی ہلکی پھلکی موسیقی جاری رہے گی۔ ایک بار بجٹ پیش ہو جائے تو یہ ہوا تھم جائے گی۔ البتہ جیسا کہ عرض کی، یہ موجودہ حکومت، مقتدر قوتوں کی مکمل آشیرباد کے باوجود کمزور ترین حکومت ثابت ہوئی ہے۔ جس سے عوام تو ایک طرف، خود ان کے اپنے اراکین اور وزرا تک مطمئن نہیں۔ اس لیے بھان متی کا یہ کنبہ زیادہ دیر چلتا نظر نہیں آتا۔ اس گھر کے بھیدی خود ہی لنکا ڈھانے کو بے قرار ہیں۔ جلد یا بادیر اس حکومت نے عدم استحکام کا شکار ہونا ہے۔ نیز بلوچستان میں اب ڈھائی،ڈھائی برس حکومت والا معاملہ بھی روایت کی صورت جڑ پکڑ رہا ہے۔ موجودہ لاوا دراصل مستقبل قریب میں حتمی نتائج کے لیے ہی پک رہا ہے۔

توقع یہی ہے کہ جام حکومت یہ برس تو کسی نہ کسی طرح نکال لے گی۔ گوادر پورٹ اور سیندک و ریکوڈک کے معاملات ملک کے ’حقیقی وارث‘ اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں۔ یہ کام اسی حکومت کے ہاتھوں ہونا ہے۔ یہ اہم ترین فریضہ سرانجام دینے کے بعد جام حکومت خود اپنے مالکان کے لیے ایکسپائر ہو جائے گی۔ اس لیے اس کے رہنے نہ رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بلکہ ان کی جگہ ’ناراض‘ گروپ کو لاکر انہیں بھی مطمئن کرنے کا بہانہ ہاتھ آئے گا۔ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ مولانا فضل الرحمان مرکز میں جس طرح دردِ سر بننے جا رہے ہیں، انہیں کسی طور ایڈجسٹ کرنا لازم ہو گا۔ سو، ایک خیال یہ ہے کہ آئندہ برس تک صوبے میں پارلیمانی تبدیلی کی راہ ہموار کر دی جائے گی۔ ممکنہ تبدیلی کی صورت میں جے یو آئی وزراتِ اعلیٰ کی اور بی این پی اہم وزارتوں کی امیدوار ہو سکتی ہے۔

آخری بات یہ کہ بلوچستان وہ دلچسپ خطہ ہے جہاں راتوں رات سیاسی جماعت بن جاتی ہے، جہاں راتوں رات خود کو مضبوط ترین وزیراعلیٰ سمجھنے والے ایک نواب کی حکومت گرائی جا سکتی ہے، جہاں ایک مضبوط قبائلی نواب کو راتوں رات وزارت اعلیٰ سے گھر بھیج کر صوبے میں گورنر راج لگ سکتا ہے۔ سو، یہاں کچھ بھی حتمی نہیں، کچھ ناممکن نہیں۔ کسی بھی وقت کچھ بھی ہونے کا امکان، ہمہ وقت موجود ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).