تحریکِ آزادی کشمیر اور در پیش چلینجز


ریاست جموں و کشمیرگزشتہ سات دہائیوں سے بین الاقوامی افق پر ایک ایسا بدقسمت خطہ ہے جو اقوامِ متحدہ کے چارٹر پر ہونے کے باوجود تا حال حل طلب ہے۔ اقوام عالم کی غفلت کی بدولت تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق کشمیری مسلمان ہندوستان کے ظلم و استبداد سے نجات حاصل کرنے کے خاطر مسلح جدوجہد کا سہارا لینے پر مجبور کیے گئے جس کی پاداش میں لاکھوں کشمیری جان کی بازی ہار گئے، کشمیر کی ماؤں بہنوں کی عفت وآبرو کو تار تارکرنا۔ بستیوں کو اجاڑناہندوستانی سرکار اپنی کامیابی گردانتی ہے، نوجوانوں کو تہہ تیغ اور ہزاروں مردوزن، بوڑھے بچے کو پیلٹ گنوں سے چھلنی کرکے انہیں آنکھوں کی بینائی سے ہمیشہ ہمیشہ کے محروم کرنے میں ہندسرکارندامت اورخجالت کے بجائے فخرمحسوس کرتی ہے بھارت کی یہ زہر آلود تلوار نہ جانے کب تلک کشمیرکے طول وعرض میں لٹکتی رہے گی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

آئے روز ہندستان جموں کشمیر کے تشخص کو تہس نہس کرنے کے نت نئے منصوبوں کو بروئے کار لاکر کشمیری عوام پر مسلط ہونے کی کوشش میں مصروفِ عمل دکھائی دیتا ہے کبھی 35 Aاور کبھی دفعہ 370 کو ختم کرکے جموں کشمیر کے عوام کے بنیادی حقوق سلب کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہندوستان کی غلامی پر مجبور کرنے کی مذموم کوشش میں سر گرداں رہتا ہے لیکن غیور کشمیریوں نے بے تحاشا قربانیاں دے کر ہندوستان کے منصوبوں کو زمین بوس کرکے رکھ دیا اور مستقبل میں بھی ہندسرکار کی ایسی کسی کوشش کو ناکام و نامراد ثابت کرنے میں کسی بھی حد تک جانے کے لئے ہمہ تن تیار دکھائی دیتے ہیں اس صورتِ حال کو مد نظر رکھ کر ہند سرکار کو یہ جان لینا چاہیے کہ کشمیری قوم کو زیر کرنا مشکل تو کیا نا ممکن ہے۔

جموں کشمیر کے عوام پر لازم ہے کہ تصورات کو ترک کر کے حقیقت پسندی سے کام لیں اور اقوام عالم میں بدلتے حالات کے عین مطابق جموں کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو منطقی انجام تک پہنچانے کو خطوط پر استوار کریں۔ ریاست کے تمام مذہبی، سیاسی، عسکری جماعتوں کے ذمہ داران پر فرض ہے کہ وہ ریاستی وحدت اور سالمیت کو پارہ پارہ کرنے کی ہندوستانی سازش سے خبردار رہیں دہلی سرکار ریاست جموں کشمیر کی ڈیموگرامی میں تغیروتبدل کے پر تولنے لگا ہے جس سے بھارت ریاست کی نہ صرف سیاسی و مذہبی بلکہ جغرافیائی وحدت کو تقسیم در تقسیم کرکے اپنے جابرانہ اور ظالمانہ تسلط کو قائم کرنے میں کامیاب ہوسکتاہے۔

حالیہ ریاستی انتخابات میں فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس، محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں پر اعتماد کرنے والوں لاکھوں کشمیریوں کی اظہار رائے کو تکریم دینا ہوگا وگرنہ کوئی نیا ہنگامہ وقوع پذیر ہونے میں دیر نہیں ہوگی جو ریاستی خانہ جنگی کی صورت تک اختیار کرسکتا ہے اس کے ساتھ ساتھ جموں کشمیر کے طول وعرض میں بسنے والوں خواہ مسلم ہوں یا ہندو، سکھ ہوں یا عیسائی غرض ہر ایک کے نمائندگان کو وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آن بورڈ کیا جائے ریاست کے غیر مسلموں کو نظر انداز کرنا ہلاکت کے مترادف ہوگا جو جموں کشمیر کی بندر بانٹ پر منتج ہو سکتا ہے گر چہ مقبوضہ جموں کشمیر کے سابق گورنر جگ موہن نے کشمیر کے ہندوؤں کو راتوں رات نکال اس کی داغ بیل تیس سال قبل ہی رکھی تھی۔

جموں کشمیر کی سیاسی، مذہبی اور عسکری قیادت کو چاہیے کہ سر جوڑ کر ریاست کی آزادی کے منصوبے پر کمال غور فکر اور تدبر کے ساتھ از سر نو جائزہ لیں اور ایسی پالیسی ترتیب دیں جو بین الاقوامی سطح پر پذیررائی حاصل کرسکے، جلسے جلوس، نعرے بازی، ہڑتالیں، پروپیگنڈہ یہاں تک کہ نظریات سے ہندوستان کا مقابلہ کرکے یہ جنگ جیتنا ناممکنات میں سے ہے جس کی تازہ مثال جدّہ میں او آئی سی کے اجلاس میں ناکامی کو صورت میں دیکھنا پڑا جہاں کی ڈیکلریشن میں کشمیر کا ذکر تک نہ کیا جا سکا جو مکمل ناکام ڈپلومیسی کی دلیل کے لئے کافی ہے۔

تصوراتی اور نظریاتی دنیا سے آزاد ہو کر اور جموں کشمیر میں مزید کشت و خون سے بچنے کی واحد صورت یہ ہے کہ تصورِ آزادی کو مذہبی بنیاد پرستی سے آزاد کرنا ضروری ہوگا کیوں کہ ریاست جموں کشمیر کے ہندو، سکھ، بدھ اور دیگر غیر مسلموں کو زور اور ذبردستی سے اسلام کے دائرے میں لانا بذات ِخود اسلامی تعلیمات کی رو گردانی اور انحراف ہوگاحقیقت تو یہ ہے کہ جموں کشمیر کے مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر خاطر خواہ مقام حاصل ہونے کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔

جموں کشمیر کے عوام کو حقائق سے بے خبر رکھنے کی روش کو ترک کرنا پڑے گا، اپنی بالادستی کو دوام بخشنے کے لئے فلاں غدار فلاں ایجنٹ کے بے ہودگی سے دستبردار ہونے کی ضرورت ہے۔ حقیقی اور غیر حقیقی نمائندے ہونے کی دعویداری سود و زیاں سے زیادہ کچھ نہ ہوگا اور یہ سب مسئلہ کشمیر کو مزید کمزور اور ناکامی کی دلدل میں دھکیل دے گا۔ مقبوضہ جموں کشمیر کے معصوم عوام کو ماضی میں سبز رومال میں پاکستانی نمک دکھاکر ان کے احساسات اور جذبات کا قتل عام کیا گیا۔

گزشتہ تین دہائیوں سے کشمیر کے جگر گوشوں کو سبز کپڑے میں لپٹا کر در غور کرکے سبز باغ دکھانا سراسر ظلم اور زیادتی کے ذمرے میں گردانا جائے گا۔ ما ضی میں سبز رومال میں پاکستانی نمک دکھانے والے غداری کے مستحق ٹھہرے، جموں کشمیر میں روز بروز بدلتے حالات ایسی نہج کی جانب گامزن ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سبز باغ دکھانے والے بھی سابقین کا لقب پاکر اپنے انجام کو پہنچ جائیں ادراک اور تلافی وقت کا تقاضا ہے۔

جموں کشمیر کے مستقل حل کا تعین کرنا ریاست کی ہر سیاسی، مذہبی اور عسکری زعماء کی ذمہ داری بنتی ہے جس کے لئے نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی سمیت دیگر علاقائی تنظیموں کو بہرحال اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے، فہم و فراست، اعتدال، اعتبار اور ہمت و حوصلے کے دامن کو مضبوطی سے پکڑنا پڑے گا واضح رہے کہ ہٹ دھرمی اور ذاتی انّا کی تسکین جموں کشمیر کی آنے والی نسل کو صدیوں تک بھگتنا پڑے گی کشمیری ضرب المثل کے مصداق کہیں ایسا نہ ہو کہ کشمیر میں گیارہ گھر ہی نہ رہ جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).