ترجیحات ہمیں خود ہی طے کرنی ہیں


بی بی سی کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اسرائیل میں تعینات امریکی سفیر ڈیوڈ فریڈمین نے امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دنیا اردن اور اسرائیل کے درمیان، بقول اُن کے، ”ایک ناکام فلسطینی ریاست“ کی حمایت نہیں کرے گی نیز یہ کہ اسرائیل کو حق ہے کہ وہ غربِ اردن کے کچھ حصوں کو ضم کر لے اگرچہ ایسی کارروائی بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی ہو گی۔ اپنے بیان میں مزید زور پیدا کرتے ہوئے انھوں دلیل کے طور پر یہ بات بھی کہی کہ اگر سکیورٹی کی وجہ سے اسرائیل اپنی افواج کو غربِ اردن میں رکھتا ہے تو یہ ایسے ہی ہو گا جیسے امریکہ نے اپنی افواج جرمنی، جاپان اور جنوبی کوریا میں تعینات کی ہوئی ہیں۔

لگتا ہے کہ اسرائیل میں تعینات امریکی سفیرڈیوڈ فریڈ مین کا یہ بیان اگر امریکی پالیسی کا ایک حصہ بھی ہے تب بھی وہ اس بیان کو اپنی ذات سے ہی منسلک رکھنا چاہتے ہیں اس لئے کہ جب ان سے دریافت کیا گیا کہ ”صدر ٹرمپ کا کیا ردعمل ہو گا اگر اسرائیلی وزیرِ اعظم اپنے تئیں اپنے وعدے کے مطابق غربِ اردن میں یہودی بستیوں کو اسرائیلی ریاست میں یک طرفہ طور پر ضم کرنا شروع کر دیں“ تو انھوں نے اس کا واضح جواب دینے سے گریز کیا۔

اسرائیل میں تعینات امریکی سفیر کی اس بات میں ایک بہت ہی بڑا تضاد بھی موجود ہے کیونکہ ایک جانب تو وہ یہ فرماتے ہیں کہ اسرائیل کو اس بات کا مکمل حق ہے کہ وہ غرب اردن کے کچھ حصوں کو اسرائیل میں ضم کر لے لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی ارشاد فرماتے ہیں کہ بین الاقوامی قانون کے تحت ایسا کرنا قطعاً غیر قانونی ہوگا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر دنیا کی نظر میں یا اقوام عالم کے طے شدہ قوانین کی روشنی میں ایک کام غیر آئینی و غیر قانونی ہے تو پھر کسی بھی ملک کے کچھ حصوں کو اپنے ملک میں ضم کر لینا کیسے کسی ملک کا حق کہلایا جاسکتا ہے؟

امریکی سفیر یہ بات بھول رہے ہیں کہ ”اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق غربِ اردن کا علاقہ ایک مقبوضہ خطہ ہے اور اس پر تعمیر ہونے والی یہودی بستیاں غیر قانونی ہیں۔ غربِ اردن پر سنہ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل نے قبضہ کیا تھا۔

ان کی یہ دلیل کہ امریکا کی سیکورٹی فورسز کا مختلف مما لک میں موجود ہونا جس طرح جائز ہے بالکل اسی طرح اسرائیل بھی اپنی سیکیورٹی کے لئے ایسا کرنے کا حق رکھتا ہے، سراسر غیر قانونی اور ناجائز ہے۔ اول تو یہ کہنا ہی غلط ہے کہ امریکا نے اگر دنیا کے مختلف ممالک میں اپنی فورسز اتاری ہوئی ہیں یا ان ممالک کے سمندروں کے نزدیک اپنی افواج کو تعینات کیا ہوا ہے وہ قانوناً جائزہے، اس لئے کہ کسی بھی آزاد و خود مختار ملک کے گرد کسی دوسرے ملک کی افواج کی تعیناتی اس ملک کی آزادی و خود مختاری پر ایک کھلا حملہ ہے۔

اب اگر طاقت کو بنیاد بنا کر امریکہ اپنے ہر فعل کو جائز اور قانونی سمجھ بیٹھا ہے تو یہ بات دنیا کے ممالک مجبوری میں تو برداشت کیے ہوئے ہیں لیکن فورسز کی یہ تعیناتی اقوام عالم کے نزدیک کسی طور بھی جائزیا قانونی قرار نہیں دی جاسکتی۔ اس انٹرویو کے پسِ پردہ جو اصل حقائق ہیں وہ کمزور ممالک کو دو ٹکڑے روٹی کا لالچ دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق بحرین میں امریکہ ایک ایسی کانفرنس کا انعقاد کروا رہا ہے جس میں اسے امید ہے کہ اگر فلسطینی امریکہ کے قیامِ امن کے فارمولے کو قبول کر لیں تو انھیں بہت زیادہ اقتصادی فائدہ ہو گا۔

بد قسمتی سے او آئی سی کی وہ کانفرنس جس میں وزیر اعظم پاکستان شریک بھی ہوئے اور خطاب بھی کیا، اس میں انھوں نے فلسطین کو تقسیم کیے جانے کے فارمولے کو تسلیم کیا۔ بظاہر تو ان کا مقصد اس قضیے اور خون خرابے کو روکنا ہی مقصود رہا ہوگا لیکن جس عظیم مقصد کے لئے فلسطینی قربانیاں دیتے چلے آ رہے ہیں، کیا تقسیم کا کوئی بھی فیصلہ ان کے لئے قابل قبول بھی ہوگا؟ اگر پاکستان فلسطین کی تقسیم کو مان رہا ہے اور اسے جائز قرار دے رہا ہے تو پھر کیا کشمیر پراس کا مؤقف کمزور نہیں پڑ جائے گا؟

امریکا یا دنیا کے طاقتور ممالک کی ترجیحات کیا ہیں اور دنیا کے وہ ممالک جو چاروں جانب سے مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں اور جن کے عوام اقتصادی بد حالی کی اس انتہا تک پہنچے ہوئے ہیں جہاں ان کو اپنی دو وقت کی روٹی کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں، فی الحال ان کے پیش نظر دو وقت کی روٹی ہی اہم ہے خواہ وہ کسی طرح بھی نصیب ہو۔ وہ اپنا پیٹ بھرنے سے آگے سوچنے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں۔ دنیا سے قرضہ لے کر گزارا کرنا اور قرضے کے حصول کے لئے گھٹنے، ماتھا اور ناک تک رگڑنا ان کو منظور ہے۔

ایسے عالم میں اگر ان کو اپنی حمیت و غیرت کا سودا کرکے ایک بھاری رقم ملنے کی نوید سنائی دے رہی ہو تو وہ ایسا سنہری موقعہ کسی صورت بھی گنوانے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔ اگر میری اسی بات کو پیش نظر رکھ کر امریکی سفیر کی اس آخری بات کو کہ ”اگر فلسطینی امریکہ کے قیامِ امن کے فارمولے کو قبول کر لیں تو انھیں بہت زیادہ اقتصادی فائدہ ہو گا“ تو کیا کسی بھی مشکلات میں گھری اور نانِ شبینہ کی ترسی کسی بھی قوم کا اپنا سودا کر لینا کوئی انہونی بات ہوگی۔ بھوک اور قتل و غارت میں گھرا مجبور و بے کس انسان کبھی کبھی ایسا کرنے پر مجبور ہو ہی جایا کرتا ہے۔

پاکستان میں موجودہ حکمران طبقہ مسلسل یہ بات کہتا چلا آرہا ہے کہ ایک دو سال کی مشکل صورت حال کے بعد پاکستان کے عوام بہت خوشحالی کا دور دیکھیں گے۔ نوکریوں کی ریل پیل ہوگی۔ لوگ باہر جانا بھول جائیں گے بلکہ باہر جانے والے برق رفتاری سے پاکستان کی جانب لوٹ رہے ہوں گے۔ ایک کروڑ نوکراں پاکستانیوں کو ملیں گی اور بے گھروں کے لئے 50 لاکھ گھر تعمیر کرکے دیے جائیں گے۔ ان سارے دعوؤں کے پیچھے کیا موجودہ حکومت کی اب تک کوئی ٹھوس منصوبہ بندی دکھائی دیتی ہے؟

کیا کارخانے بن رہے ہیں۔ کیا ملیں لگائی جارہی ہیں؟ کیا کاشتکاری کے رقبوں کو وسعت دی جا رہی ہے یا آسمان سے ڈالروں کی برسات ہونے والی ہے؟ اگر ایسا کچھ نہیں تو یہ سمجھ لینا کہ حکمرانوں کی جانب سے اس قسم کا مسلسل عزم اور دعوں کے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی ”معجزاتی“ بات ضرور پوشیدہ ہوگی، عقل و فہم سے بالا تر نہیں۔ کیا ان ساری باتوں کی روشنی میں یہ ممکن نہیں کہ ہم طاقتور ممالک کی اگر ساری باتوں کو تسلیم کرلیں اور امریکی سفیر کی یہ بات کہ ”اگر فلسطینی امریکہ کے قیامِ امن کے فارمولے کو قبول کر لیں تو انھیں بہت زیادہ اقتصادی فائدہ ہو گا“ تو کیا پاکستان ہر قسم کی مشکل صورت حال سے باہر نکل سکتا ہے۔

آغاز تو پاکستان کے وزیراعظم نے کانفرنس میں کر ہی دیا ہے اور وہ فلسطین کی تقسیم کی بات تمام مسلمان ممالک کے سربراہوں کے کانوں سے گزار ہی چکے ہیں۔ ان کی اس بات پر پورے عالم اسلام کا کوئی بھی منفی رد عمل سامنے نہ آنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنی اپنی بادشاہتوں کو بچانے اور اپنی اپنی اقتصادی صورت حال کو بہتر رکھنے اور بنانے کے لئے اپنی ہر حمیت و غیرت کا سودا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ان ممالک کی فہرست سے پاکستان کیسے باہر رہ سکتا ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں جو کچھ بھی ہوتا رہا وہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ہمیں دھن دولت دے کر ہمارا سب کچھ خریدا جا سکتا ہے۔

ایک کروڑ نوکریاں، 50 لاکھ گھر، گھر گھر خوشحالی کے یہ سارے دعوے محض دعوے نہیں ہیں بلکہ ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے اور ایسا ہوجانا بالکل بھی ناممکن نہیں، بس اس کے لئے اپنا جسم، جان، ایمان، غیرت، حمیت اور اپنی روح کا سودا کرنا ہے۔ مر تو شاہ کو بھی جانا ہے اور فقیر کو بھی، غیرت مند کو بھی اور بے غیرت کو بھی، ایمان والے کو بھی اور کافر کو بھی، اب قوم خود فیصلہ کرلے اسے گیدڑ کی طرح بے شرمی کی زندگی گزارنی ہے یا شیر کی طرح عزت کے ساتھ مر جانا پسند ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).