ڈگری بے وقعت کیوں ہو رہی ہے؟


اگر وہ یہی کام اتنے سال پہلے کرنا شروع کر دیتا تو کتنا پیسا کما چکا ہوتا اور کتنی فیس بچا چکا ہوتا۔ شہزادی کی شرطیں پوری کرتے کرتے اگر امیدوار کے بال سفید ہو گئے تو شہزادی کا بھی نقصان ہو گا۔ پھر کتنے ہی لوگ جو اس کام کی بہتر صلاحیت رکھتے ہیں، لیکن ڈگریوں کی اس دوڑ میں ان لوگوں سے پیچھے رہ جاتے ہیں جو ان سے اس کام میں کم صلاحیت یافتہ ہیں۔ فوجی سپاہی کو جفاکشی، دلیری اور سخت جان کا حامل ہونا چاہیے لیکن شاید ایسے شخص میٹرک پاس نہ کرنے کی وجہ سے بھرتی نہ ہو سکیں اور ان سے کمزور بھرتی ہو کر بہتر کام نہ کر سکیں۔

پھر ماں باپ کتنا قرض لے کر اور دیگر ضروریات سے بچت کر کے ایسی پڑھائی پر خرچ کرتے ہیں جس کے بغیر بھی وہی نوکری مل سکتی تھی۔ پاکستان میں تو جو استطاعت رکھتا ہے وہی ڈگری حاصل کرتا ہے لیکن مغربی ممالک میں تو ڈگری کے لئے گورنمنٹ کی طرف سے قرض کی سہولت ہے اور یونیورسٹیاں دھڑا دھڑ نئے پروگرام نکال رہی ہیں جہاں خوبصورت بروشرز اور ہوٹلوں کے مینو جیسی انگریزی سے عام سے مضامین کو خوشنما بنا کر نوجوانوں کو لُبھایا جاتا ہے کہ وہ گورنمنٹ سے قرض حاصل کر کے ان کی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کریں، بعد میں نوکری ملے یا نہ ملے، یونیورسٹی کی بلا کو پرواہ۔

جنوبی کوریا میں ستر فیصد نوجوان گریجویٹ ہیں اور پچاس فیصد بیروزگار بھی۔ اکانومسٹ میگزین کے مطابق ایک نوجوان اوسطاً تیس ہزار ڈالر سالانہ ڈگری پر خرچ کرتا ہے اور وہ ڈگری کے دوران جاب نہ کر کے ساٹھ ہزار ڈالر کھو دیتا ہے۔ 1970 میں امریکہ میں صرف سولہ فیصد نرسیں گریجویٹ تھیں اور اب یہ شرح بڑھ کر ساٹھ فیصد ہو چکی ہے۔ لیکن ڈگری کے اخراجات کے باوجود آمدنی بڑھی نہیں بلکہ کم ہی ہوئی ہے۔

پاکستان میں بھی یہ مسئلہ بڑھ رہا ہے اور گلی محلے میں غیر معیاری یونیورسٹیاں اور کالج کُھل گئے ہیں اور دیکھا دیکھی میں بہت سارے نوجوان بھاری فیسیں دے کر شام کی کلاسوں کے ذریعے ڈگریاں حاصل کر رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں مشینی ذہانت اس مسئلے کو اور بڑھا دے گی۔ بقول اسرائیلی مورخ اور دانشور یووال نوح ہراری، دو ہزار پچاس تک دنیا میں زیادہ تر لوگ باوجود ڈگریوں کے، بیروزگار نہیں بلکہ بیکار ہو جائیں گے۔ ایسی کوئی نوکریاں یا کاروبار ہی نہیں بچیں گے جو وہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے۔

انجینئرنگ جو ٹیکنکل علوم میں شامل ہے، میں بھی ڈگری کی بہت زیادہ اشاراتی قدر ہے۔ انجینئرنگ میں بھی جو پڑھایا جاتا ہے کم ہی انجینئرز اسے عملی زندگی میں براہ راست استعمال کرتے ہیں لیکن ایک انجینئر کا خاص طرح کا طرز فکر اور طریقہ کار بن جاتا ہے جو کہ مسئلہ حل کرنے کی سوچ اور موجودہ وسائل کا بہترین استعمال کرتے ہوئے مقصد کے نزدیک ترین پہنچنا ہوتا ہے۔

ایک جاب فیئر میں مشہور آئل اینڈ گیس کمپنی شلمبرجر کے سٹال پر جانا ہوا تو میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کو تو صرف پٹرولیم انجینئرز درکار ہوں گے۔ مجھے سخت حیرانی ہوئی جب انہوں نے کہا کہ نہیں، ہمیں صرف انجینئر درکار ہیں۔ وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ ہمیں نوجوان میں صرف انجینئرنگ کی سوچ چاہیے، اپنی ٹریننگ تو ہم نے خود دینی ہے۔ انجینئرنگ کی بیچلرز ڈگری میں ایک سٹوڈنٹ کو انجینئرنگ کمپنیوں میں کام سمجھنے اور کرنے کے قابل بنایا جاتا ہے نہ کہ وہ سکھایا جائے جو کام کمپنی کے انجینئرز کر رہے ہوتے ہیں۔ مثال ایک چٹیل میدان کو کھیت ہل چلا کر اور محنت کر کے کھیت میں بدلنے کی ہے۔

بیچلر ڈگری کا حامل شخص اب جس شعبہ انجینئرنگ میں کام کرے گا، وہیں کا بیج اس میں بویا جائے گا اور وہی فصل تیار ہو گی۔ ایم بی اے کی اشاراتی قدر چونکہ انجینئرنگ سے کہیں زیادہ ہے لہٰذا اکانومسٹ میگزین کے مطابق اچھی آئی وی لیگ یونیورسٹیاں جیسے ہارورڈ وغیرہ یا پاکستان میں لمز اور آئی بی اے کے فارغ التحصیل ہمیشہ باقی یونیورسٹیوں کے لڑکوں سے زیادہ کماتے ہیں۔ جبکہ انجینئرنگ جس میں بہر حال اشاراتی قدر ایم بی اے سے کم ہے، میں کئی کمتر یونیورسٹیوں کے اچھے طَلبا بڑی یونیورسٹیوں کے عام طلبا سے بہتر رہ جاتے ہیں۔

ان سب چیزوں کو مدنظر رکھ کر ہمارے پالیسی میکرز کو چاہیے کہ ڈگریوں کی افراط کو مناسب پالیسیوں کی مدد سے روکیں نہیں تو یہ بیروزگار ماسٹر اور پی ایچ ڈی حضرات کی تعداد بڑھتی جائے گی ( پروفیسر برائن کے نزدیک امریکہ میں بھی بیروزگار پی ایچ ڈی اتنے بڑھ چُکے ہیں کہ جاب مارکیٹ بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ وہ واقعتاً کھانے کے بدلے تعلیم دینے کو تیار ہیں اور گاڑیوں میں سو رہے ہیں ) ۔ ایک تجویز تو یہ ہے نوکری کے لئے درکار صلاحیتوں کے مطابق تعلیمی قابلیت طلب کریں اور زیادہ تعلیم والے امیدواروں کو ترجیح نہ دیں بلکہ اس چیز کی حوصلہ شکنی کریں کیونکہ زیادہ کوالیفیکیشن کے اپنے مسائل ہیں۔ اس دوڑ کی وجہ سے گلی محلے میں قائم شدہ غیر معیاری یونیورسٹیوں اور کالجوں کا تو کاروبار چمک اُٹھا ہے لیکن نوجوانوں کا وقت اور پیسے کا ضیاع بڑھتا جا رہا ہے۔ صرف اشارہ دینے کے لئے اتنے سال اور وقت ضائع کرنا مناسب نہیں۔

دوسرا یہ کہ ووکیشنل تعلیم کا فروغ بھی اس رحجان کو روکنے کے لئے بہت ضروری ہے جہاں لوگوں کو ہنر مند بنایا جا سکے کہ وہ اپنا روزگار کما سکیں۔ جس قدر ہماری آبادی بڑھ رہی ہے، ہُنر مندوں کی ضرورت بھی اتنی ہی بڑھ رہی ہے لیکن ہمارے ہاں شاید افسری کا شوق ہے جس میں ہر نوجوان کا خواب ایک دفتر، کمپیوٹر، ٹیلی فون اور چپڑاسی کو بُلانے والی گھنٹی ہوتا ہے۔ اس سوچ کو بدلنے کی اب بہت ضرورت ہے۔ امتحانات میں کامیابیاں حاصل کرنا، ذہانت کی نشانی کم اور امتحان پاس کرنے کی صلاحیت کی نشانی زیادہ ہے۔

اگر کوئی نوجوان امتحان بہترین پاس کرتا ہے اس کا بڑا مطلب یہ ہے کہ وہ ان لوگوں جیسا ہے جو امتحان لے رہے ہیں اور ظاہر ہے کند جنس باہم جنس پرواز؛ اس کا مستقبل وہاں اچھا ہے۔ لیکن نہ پاس کرنے والا ان جیسا نہیں لیکن کُند بھی نہیں ؛ اس کی ذہانت کہیں اور استعمال ہو سکتی ہے۔ اگر آپ میٹرک میں پھنس رہے ہیں تو اپنے آپ کو کم ذہین نہ سمجھیں لیکن یہ جان لیں کہ آگے بھی گھسٹ گھسٹ کر ہی چلیں گے اور وقت اور پیسوں کا ضیاع ہی ہو گا۔

بہتر یہی ہے کہ ووکیشنل کی طرف توجہ دیں اور وہاں آپ شاید بہترین کامیابی حاصل کر سکیں، آپ کی ذہانت شاید ووکیشنل کاموں کے لئے ہو۔ ویسے بھی آنے والا مشینی ذہانت کا دور بہت ساری دفتری نوکری کرنے والوں کو بیروزگار کر دے گا لیکن الیکٹریشن، مکینک اور نرس وغیرہ کو کم از کم مستقبل قریب میں ختم یا تبدیل نہیں کر سکے گا۔ ڈگریوں کی اس دوڑ میں آپ وقت اور پیسہ دونوں برباد کریں گے اور زیادہ تر بیروزگاری سے پریشان ہی رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2