عمران خان، او۔ آئی۔ سی، بیت المقدس اور بھولی قوم


جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میرا او۔ آئی سی نامی تنظیم سے پہلی مرتبہ تعارف مڈل سکول میں پڑھائے جانے والے معاشرتی علوم کا مرہون تھا اور تب سے اب تک اس تنظیم کے بارے میں میری جملہ نقد معلومات میں فقط اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ امسال او۔ آئی۔ سی کے رکن ممالک کے سربراہان کا اجلاس مئی میں ہوا جس میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے عزت مآب وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان نے ایک ایسا بھرپور خطاب کیا کہ جس کی چار دانگ عالم دھوم مچی ہوئی ہے اور اس دانشمندانہ خطاب کی بدولت مستقبل قریب میں امت مسلمہ میں ایک نئی بیداری کی لہر اٹھنے کا امکان ہے جبکہ اس خطاب لاجواب کے زیر اثر یہود، نصاری اور ہنود کے ایوانوں پر لرزہ طاری ہے۔

سوشل میڈیا پر ”دھاڑتا ہوا پاکستان“، ”امت مسلمہ کا عظیم لیڈر عمران خان“ اور اس سے ملتے جلتے دیگر امید افزا تبصروں اور تجزیوں نے مجبور کیا کہ اس شاندار خطاب کو بچشم خود دیکھ اور بگوشِ خود سن کر اپنے ناقص ایمان کی توانائی کا اہتمام کیا جائے۔

بس پھر کیا تھا! یو ٹیوب سے خطبہ عمرانیہ ڈاؤن لوڈ کیا اور کمال شوق سے دیکھنا شروع کر دیا۔ عام سا لباس زیب تن کیے جناب وزیر اعظم کو نہایت شستہ انگریزی میں اسلامیانِ عالم کے سربراہان سے خطاب کرتا دیکھ کر واقعاً فخر محسوس ہوا۔ جوں جوں خطاب آگے بڑھتا گیا توں توں احساس تفاخر بھی دو چند ہوتا گیا۔ کیوں نہ ہوتا جبکہ ہمارے محبوب وزیراعظم نے او۔ آئی۔ سی جیسے نیم مردہ فورم پر بھی مغرب میں اہانتِ رسول، یورپ اور امریکہ میں اسلامو فوبیا، اسلامیان عالم کی سائنس اور ٹیکنالوجی میں پسماندگی، ”اسلامی دہشتگردی“ جیسی گمراہ کن اصطلاح کے استعمال اور مسئلہ فلسطین و کشمیر جیسے اہم امور پر کھل کے اظہار کرتے ہوئے باری باری غیرتِ مسلم اور عالمی ضمیر ہر دو کو خوب جھنجھوڑا۔

لیکن۔ لیکن۔ لیکن

پاکستانی ٹی وی چینل سماء نیوز کی اپلوڈڈ وڈیو کے نیچے بنگلہ دیش، بھارت، امریکہ اور برطانیہ کے ناظرین کی طرف سے داد وتحسین پر مبنی کمنٹس دیکھ کر ماتھا ٹھنکا اور ہم نے تقریر کو دوبارہ سننا شروع کیا۔

ارے یہ کیا!
کیا کہا محترم وزیر اعظم نے؟
مکرر سنا۔

وزیر اعظم پاکستان فرما رہے تھے :

”۔ And so we reiterate again that there is no solution but a TWO STATES SOLUTION in Palestine۔ “

تو کیا ہم اسرائیل کے ناجائز وجود تسلیم کرنے جا رہے ہیں؟
نہیں؟
تو پھر یہ two state solution (دو ریاستی حل) کیا ہے؟

کیا صرف گولان کی پہاڑیوں کی واپسی اور مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارالخلافہ قرار دیے جانے سے فلسطینی مسلمانوں سے چھینی گئی زمینوں پر اسرائیل کے ناپاک وجود کو جواز حاصل ہو جائے گا؟

کیا ہم اپنے سید و سردار احمد مختار صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے راندہءِ درگاہ کیے گئے یہود کے لئے فلسطینی بھائیوں کی ملکیتی زمینوں پر خود مختار یہودی ریاست کے قیام پر آمنا و صدقنا کہیں گے؟

یہ ہمارے وزیرِ اعظم کی سادہ لوحی ہے یا؟
کیا مولانا فضل الرحمان کا انتخابی جلسوں میں عمران خان کو۔ ایجنٹ کہنا محض منفی پروپیگنڈہ تھا یا سیاسی بالغ نظری؟

یہ فیصلہ تو یہ بھولی قوم کرہی لے گی، آج نہیں تو کل، جلد نہیں تو بدیر!
فی الحال اس خطاب نے مجھے تو جگا دیا۔
شکریہ خان صاحب!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).