ایک سوپچیس روپے


خرم نے خوبصورت سے گھر کے دروازہ کے باہر نقشین ستون پر لگی اطلاعی گھنٹی بجائی، انٹر کام پر عورت نے پوچھا کہ کون ہے، خرم نے کہا اخبار کا بل دے دیجئے آنٹی، کتنا ہے عورت نے پوچھا، ایک سو پچیس روپے، اچھا کل آنا، آنٹی آج ہی دے دیجئے، لیکن عورت انٹر کام بند کرچکی تھی، خرم نے تازہ اخبار گھر کے ستون پر رکھا اور مایوسی سے مڑ کر بائیک پر بیٹھا اور دوسرے گھروں کی طرف چل پڑا، جہاں سے کم وبیش یہی جواب ملنے تھے، دو گھروں کے علاوہ کوئی بھی وقت پر بل نہیں دیتا تھا، سالوں سے یہی ہو رہا تھا، اتنے اچھے گھر بنائے ہوئے ہیں، شاندار گاڑیاں بھی ہیں، لیکن اخبار اور دیگر بل دیتے ہوئے لوگوں کی جان جاتی ہے، خرم کڑھتے ہوئے سوچ رہا تھا، خرم دور طالب علمی سے ہی گھروں میں اخبار دینے کا کام کرتا تھا۔

اب بھی پارٹ ٹائم نوکری یہی تھی، پہلے سائیکل اور اب موٹر سائیکل پر اس کام کو کرتے کئی سال ہو گئے تھے، خرم نے اس دوران زندگی سے بہت کچھ سیکھا، لیکن لوگوں کے رویے نہیں بدلے، کوئی بھی ہاکر کی عزت نہیں کرتا تھا، کوئی بھی ان کو وقت پر بل نہیں دیتا تھا، اخبار کی ڈسٹری بیوٹرز ایجنسیز کے مالکان ہاکرز پر ناراض ہوتے، لیکن وہ بے بس تھے، اکثریت ہفتہ وار اخبار لیتی جس کا بل بہت قلیل ہوتا لیکن اس کے باوجود پہلی بار بل مانگنے پر گھریلو اور کاروباری صارفین اگلے ہفت ے آنا پر ٹال دیتے۔

خرم بہت کڑھتا، دور طالب علمی میں اپنی فیس بھرنے کے لئے وہ ان قلیل بلز کو جمع کر کے ایجنسی کے مالک کو دیتا تو اس کو فی گھر دو روپے مل جاتے تھے، اور اب اخبارات اور مختلف رسائل و جرائد کی بدولت چند سو روپے بڑھے بھی تھے تو وہ موٹر سائیکل کے پٹرول میں خرچ ہو جاتے، کبھی کبھی بل کی وصولی کے لئے بار بار علاقے کی گلیوں کے چکر کاٹنے پڑتے، جو پٹرول کے اضافی خرچے کاباعث بنتے تھے۔ بس چند سو ہی بچتے تھے جو اوپری خرچے میں کام آ جاتے، خرم نے تین چار گھروں سے پیسے ملنے پر شکر کیا، اور آفس کی طرف بائیک موڑ لی۔

سارا دن آفس میں سر کھپانے کے بعد شام۔ کے اندھیرے میں گھر میں داخل ہوا تو معلوم ہوا کہ لائٹ نہیں ہے، چھوٹے سے گھر میں گرمی، گھٹن اور اندھیرا تھا، خرم کی بہن نے صحن میں چارپائی بچھا دی۔ خرم دھم سے چارپائی پر گر گیا، بہن نے پانی لا کر پلایا اور کہا امی کی طبعیت خراب ہے ان کو آج لازمی ڈاکٹر کے پاس لے جاو، خرم فورا اٹھ گیا۔ مجھے یاد تھا، لیکن آفس کی پریشانی میں ذہن سے نکل گیا، ابو کہاں ہیں، وہ ڈاکٹر کے کلینک نمبر لینے کے لئے پہلے چلے گئے ہیں، تم احتیاط سے بائیک پر امی کو لے جاو، خرم کی ماں اندر کمرے میں بے دم سے پڑی تھی، خرم اندر گیا، آہستہ سے ماں کو اٹھنے میں مدد کی، ماں کو تسلی دی، لیکن ماں بول نہ سکی کیونکہ اسے بہت نقاہت تھی، خرم نے بہن کی مدد سے ماں کو بائیک۔

پر بٹھایا اور کلینک کی طرف آہستہ روی سے بائیک چلانے لگا، خدا خدا کر کے آدھے گھنٹے میں فاصلہ طے ہوا، گھر سے دور یہ کلینک ایک اسپیشلٹ ڈاکٹر کا تھا، جس کے بارے میں مشہور تھا کہ خدا ترس ڈاکٹر ہے، کلینک پر مریضوں اور ان کے تیمارداروں کا ہجوم تھا، خرم نے باپ۔ کو ڈھونڈا، ملنے پر باپ نے بتایا، پچاسواں نمبر ملا ہے، ایک طرف بیٹھ جاو، ڈاکٹر واقعی اچھا ہے لوگ بتا رہے ہیں، ہاتھ میں شفا بھی ہے اور فیس بھی بہت قلیل ہے، خرم نے سر ہلا دیا اور ماں کو لے کر ایک طرف بیٹھ گیا، باپ کو واپس گھر بھیجا، کہ بہن گھر میں اکیلی تھی، ایک گھنٹے کے بعد ان کا نمبر آیا، ڈاکٹر نے بہت توجہ سے ماں کی تکلیف سنی، نرس کی مدد سے ماں کو دوسرے کمرے میں بھیج کر ایکسرے نکلوایا، خود خرم سے مکمل کیس ہسٹری لی اور ایکسرے دیکھنے کے بعد کہا، جگر شدید متاثر ہے، اسی لئے خون بننا بند ہو گیا ہے، ہم آپریشن کریں گے۔

آپریشن؟ خرم گھبرا گیا، کتنا خرچہ ہو گا، خرچے کی فکر نہ کرو، پہلے آ جاتے تو صرف ادویات سے فائدہ ہو جاتا، ہمیشہ بیماری کے شروع میں علاج کروانا چاہیے۔ اب جگر کا متاثرہ حصہ الگ کرنا ہو گا تا کہ بقیہ صحت مند حصہ اپنا فعل سر انجام دے۔ یہ فلاحی کلینک ہے، آپ بس ادویات خرید لینا، جی بہت شکریہ، خرم شکر گزار ہو ا، ڈاکٹر نے نسخہ لکھتے ہوئے کہا، ایک ہفتے ادویات دو، اچھی غذا کھلاؤ پھر نرس فون کر دے گی اور اسپتال کا پتہ بتائے گی تو ماں کو لے کر وہاں آ جانا، ۔ خرم نے احتیاط سے ماں کو سنبھالا اور کلینک سے باہر آ گیا۔

راستے میں میڈیکل اسٹور پر ادویات لینے رکا، اسٹور کے لڑکے نے ساری ادویات ڈھونڈ کر کاوئنٹر پر رکھ دیں اور بل بنانے لگا، چار ہزار تین سو چالیس روپے، خرم نے بوکھلا کر جیب میں ہاتھ ڈالا تو صرف دو ہزار روپے نکلے، اس نے ہکلا کر کہا، بھائی جو ضروری ہیں وہ دے دیجئے، لڑکے نے سر ہلایا، کیا آپریشن ہو گا، جی ہاں ایک ہفتے کے بعد خرم نے بتایا، پھر آپ کو ساری ادویات لینی ہو گیں اس میں انجکشن بھی شامل۔ ہیں جو ڈاکٹر سے لگوانے ہوں گے اور آپریشن سے پہلے ضروری ہوں گے، کل لے جاوں گا فی الحال آج کے لئے دے دو، لڑکے نے چند ادویات الگ کر دیں۔

دوہزار سات سو دیں، خرم نے احتیاط سے اخبار کے بل کے پیسے نکالے، پانچ سو پچھتر روپے تھے، خرم نے لڑکے کی طرف بے بسی سے دیکھا، بس ایک سو پچیس روپے کم ہیں۔ کل دے دوں گا وعدہ کرتا ہوں، کل کون آتا ہے بھائی صاحب، سب یہی کہہ کر جاتے ہیں، میں بہت بے وقوف بن چکا ہوں، میں تو خود یہاں کام۔ کرتا ہوں، مالک نے ہمیشہ میری تنخواہ سے کاٹے ہیں، آپ جلدی کیجئے، دوسرے گاہک بھی انتظار میں کھڑے ہیں، خرم کو بہت شرمندگی ہوئی، اس نے مڑ کر ماں کو دیکھا، وہ دوپٹے کے پلو سے پیسے نکال رہی تھی، مڑا تڑا پچاس کا نوٹ اس نے خرم کی طرف بڑھایا، لیکن اس سے پہلے دکان پر کھڑے ہوئے ایک بزرگ نے ایک سو پچیس روپے دکان دار کی طرف بڑھائے اور ادویات کا لفافہ خرم کو پکڑا دیا۔

جاؤ بیٹا، انہوں نے کہا اور دکاندار کو اپنی ادویہ کی فہرست تھما دی، خرم بہت خفت کے ساتھ دکان سے باہر آ گیا، اور سوچنے لگا کاش آج تمام لوگ اخبار کا بل دے دیتے تو اس کو اتنی سبکی نہ ہوتی، صرف ایک سو پچیس روپے کی خاطر اس کی عزت نفس کو ٹھوکر لگی تھی، ماں نے خرم کو دیکھا اور بولی کوئی بات نہیں بیٹا، خرم روہانساہو گیا، ہم کیسے لوگ ہیں، ہم کبھی کوئی کام ذمہ داری سے نہیں کرتے، نہ ہی کسی کا جائز حق اسے وقت پر دیتے ہیں، میں کتنے چکر کرتا ہوں، پھر کہیں جا کر لوگ بل۔ کی ادائیگی کرتے ہیں ایسا کیوں کرتے ہیں لوگ اماں، ماں نے خرم کے کندھے پر ہاتھ پھیرا اور بائیک پر بیٹھ گئی، خرم نے بوجھل دل سے بائیک گھر جانے والے راستے پر ڈال دی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).