سمیع ابراہیم سے چند سوال


”عید کے بعد پاکستان میں ایک سازش شروع ہو گی جس میں انڈیا، امریکہ، پاکستان کے اداروں کے چند لوگ، سیاستدان اور پاکستان تحریکِ انصاف کے چند لوگ بھی شامل ہیں۔ امریکی طاقتوں کا مقصد پاکستانی فوج کو نشانہ بنانا ہو گا۔ میڈیا بھی ان لوگوں کا ساتھ دے گا۔ پاکستان تحریک انصاف کے جو لوگ اس سازش کا حصہ بنیں گے ان کو لیڈ کریں گے فواد چوہدری جن کا پی پی سے خفیہ رابطہ ہے“۔ یہ فرمان نیو یارک سے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے ”ہونہار صحافی“ سمیع ابراہیم صاحب نے جاری کیا ہے۔

میری تحریر کا مقصد کسی کی ذاتی زندگی سے چھیڑ خانی بالکل نہیں۔ میں سمیع صاحب کو ایک پارٹی کی اندھی حمایت پر بھی تنقید کا نشانہ نہیں بناؤں گا۔ وہ معاشرے میں ایک ”صحافی“ کے طور پر جانے جاتے ہیں اس لیے ان سے کیے جانے والے سوالات بھی ان کی صحافت سے متعلق ہی ہوں گے۔ سمیع صاحب کا لکھنے سے کوئی تعلق نہیں وہ بس ”بول“ پر بیٹھ کر بولتے ہیں۔

زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب پاکستان کی دو بڑی جامعات کے سابق وائس چانسلرز کو ہتھکڑیاں لگی تھیں۔ اس پر شدید تنقید ہوئی، معروف کالم نگار رؤف طاہر صاحب نے ”شیخ الجامعہ“ کی حمایت میں ”دنیا“ پر ایک کالم لکھا۔ اس کے چند دن بعد ایک اور وائس چانسلر کے ساتھ ایسا ہوا تو اس قدم پر جناب مجیب الرحمان شامی نے خوب تنقید کی۔ دونوں صحافیوں کی باتیں سمیع ابراہیم کو ”کڑوی“ لگیں اور ان پر تنقید کے نشتر چلا دیے۔ رؤف طاہر کو سعد رفیق کا ”کارندہ“ کہا اور ان پر ”مال کھانے“ کا الزام بھی لگا یا۔ سمیع صاحب سے یہاں پہلا سوال ہے کہ آپ جیسے سینئر صحافی کو زیب دیتا ہے کہ بغیر ثبوت بیٹھے بٹھائے کسی پر کرپشن کے الزامات لگا دیں ؟

وقت نے کروٹ بدلی اور خبر ملی کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کو گرفتار کر لیا گیاہے۔ عدالت میں پیشی کے دوران انہیں بھی ”ہتھ کڑیاں“ لگائی گئیں جس پر سمیع ابراہیم کا دل خون کے آنسو رونے لگا۔ جناب سے دوسرا سوال ہے کہ وائس چانسلرز کے وقت ”ہتھ کڑیوں“ کی مخالفت کرنے والوں پر آپ نے تنقید کی تھی تو شاہد مسعود کے معاملے پر پیٹ میں مروڑ کیوں اٹھے ؟

معروف صحافی جاوید چوہدری اور چیئر مین نیب جسٹس جاوید اقبال کی ایک ملاقات ہوتی ہے۔ جاوید چوہدری اس ملاقات کے ”احوال“ کو روزنامہ ”ایکسپریس“ میں اپنے دو کالموں کے ذریعے بیان کرتے ہیں۔ سیاست وصحافت کی دنیا میں ایک بھونچال سا آجاتا ہے۔ سمیع ابراہیم ان کالموں کے جواب میں جاوید چوہدری کی ”صحافت“ پر حملہ کر دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ جاوید چوہدری نے یہ کالم اپنے ”آقاؤں“ کو خو ش کرنے کے لیے لکھے ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ ”پیسہ بولتا ہے“ ایک بھدے الزام کے سوا کچھ نہیں کیوں کہ ان کالموں کی تردید خود جاوید اقبال صاحب نے بھی نہیں کی۔ تیسرا سوال کہ اگر اسی طرح کی کسی صورتِ حال میں کوئی آپ کی ”متنازعہ صحافت“ پر اسی طرح کے الزامات لگائے تو کیسا لگے گا ؟

محسن داوڑ، علی وزیر اور ان کے کچھ ساتھیوں کی ایک چیک پوسٹ پر فوج سے جھڑپ ہوتی ہے۔ اس جھڑپ کا آغاز کس نے کیا اس کا ابھی تک کوئی مستند جواب موجود نہیں۔ علی وزیر گرفتار کر لیے جاتے ہیں۔ انہی دنوں محسن داوڑ کا ایک بیان آتا ہے کہ ”میں افغانی ہوں اور رہوں گا ”۔ اسی سلسلے میں 27 مئی کو روزنامہ جنگ میں حامد میر نے بعنوان“ میں بھی افغان ہوں ”ایک کالم لکھا۔ یہ الفاظ دراصل اسفند یار ولی کا ایک 2016 کا بیان ہیں جسے حامد میر نے اپنے کالم کا عنوان بنایا۔ سمیع ابراہیم جو پہلے ہی پی ٹی ایم والوں کو غدار قرار دے چکے تھے وہ ساتھ حامد میر پر بھی تنقید کرنے لگے۔ ان کے والد کو بنگلہ دیش سے ملنے والے ایک ایوارڈ کو لے کر ان پر غصہ اتارا، وہ ایوارڈ جسے وہ واپس بھی کر چکے ہیں۔

جب ”کر کرا“ کے کچھ نہ ہوا تو سمیع ابراہیم نے حامد میر کو غدار قرار دے دیا۔ جناب سے سوال ہے کہ آپ کو کس نے حق دیا ہے کہ آپ کسی کو غداری یا حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بانٹیں۔ ؟ سب کو معلوم کہ آپ نے ایسا اس لیے کیا ہے کہ حامد میر جیسے لوگ با آواز بلند فوج پر تنقید کرتے ہیں۔ فوج ایک ادارے کا نام ہے جو آئینِ پاکستان میں رہ کر کام کرتے ہیں اور ان کی غلط پالیسیوں پر تنقید کرنا کوئی جرم نہیں۔ فوج پر تنقید کرنے والا غدار ہو گا، غداری کی یہ تعریف کسی بھی کتاب میں درج نہیں۔

اب آتے ہیں تحریر کے آغاز میں لکھے گئے ویڈیو پیغام کی طرف۔ اس ویڈیو پیغام کے بعد ”کیپیٹل ٹاک“ میں حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر فواد چوہدری نے ایک انکشاف کیا کہ سمیع ابراہیم صاحب امریکی نیشنلٹی بھی رکھتے ہیں۔ ان کے پاسپورٹ پر ان کا نام ”ابراہم“ درج ہے۔ ساتھ ہی فواد چوہدری نے کہا کہ سمیع ابراہیم نے مجھ سے دو کروڑ کی ایڈ مانگی، منع کرنے پر وہ اس طرح کے کام کر رہے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ ویڈیو امریکہ سے بنا کر بھیجی ہے جہاں ان کے والد کا علاج چل رہا ہے۔ اب سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ ایک ملک جو آپ کی فوج کے خلاف سازش کر رہا ہے آپ کے پاس اس کی نیشنلٹی ہے اور آپ وہاں سے اپنے والد کا علاج کروا رہے ہیں، کیوں ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).