جاپان کا کوہ فیوجی اور چھتیس تصویریں


جاپان کی بلند ترین چوٹی کوہ فیوجی ( 3776 میٹر) ہمارے یہاں ضلع مانسہرہ میں واقع مکڑا پیک ( 3586 میٹر ) سے کچھ زیادہ اور کاغان کی چوٹی موسیٰ کا مصلہ ( 4080 میٹر) سے کچھ کم بلند ہے۔ جاپان میں تقریباً بیس پہاڑ، تین ہزار میٹر سے بلند ہیں تاہم یہاں کے تین پہاڑ وں کو باقاعدہ مقدس ہونے کا درجہ حاصل ہے اور کوہ فیوجی ان میں سب سے زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے۔

دارالحکومت ٹوکیو سے تقریباً سو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع یہ پہاڑ حسن اور ہیبت کا شاہکار ہے۔ پہاڑ کی عمودی ڈھلان، تکونی ہیت اور سال میں پانچ ماہ برف سے ڈھکی رہنے والی چوٹی ٹوکیو شہر کے پس منظر کو ایسی رونق بخشتی ہے جو دنیا کے کسی دارالحکومت کو شاید ہی میسر ہو۔ اس کے علاوہ کوہ فیوجی کا پراسرار سکوت اسے دنیا کے بڑے بڑے پہاڑوں سے ممتاز کرتا ہے۔ ہر اہم پہاڑ کی طرح کوہ فیوجی کا بھی مذہب اور روحانیت سے گہرا تعلق ہے لہذا جاپان جیسے روایتی اور قدامت پسند معاشرے میں اس پراسرار پہاڑ کی اہمیت اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے

اس پہاڑ کی ایک خوبی یہ بھی ہے کے یہ محض اتنا ہی بلند ہے جتنا کہ کوئی بھی مرد یا خاتون اوسط درجے کی جسمانی فٹنس کے ساتھ اس کی چوٹی تک پہنچ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ہر سال آنے والے سیاحوں کی تعداد میں بتریج اضافہ ہو رہا ہے۔ 2018 میں تین لاکھ سے زیادہ افراد نے کوہ فیوجی کا رخ کیا۔ گزشتہ چند سالوں میں ان سیاحوں کی زیادہ تعداد کا تعلق انڈونیشیا اور ملایشیا سے ہونے کی وجہ سے حکومت کو کوہ فیوجی کے قریب واقع پارک میں مسجد بنانا پڑی اور یوں وہ کام جو شاید سالوں کی قانون سازی اور تبلیغ سے ممکن ہوتا چند دنوں کے لئے آنے والے سیاحوں کی بدولت ممکن ہو گیا۔

کوہ فیوجی پر جانے کے لئے زیادہ تکلفات کی ضرورت نہیں پڑتی۔ جاپان جیسے سلجھے اور مہذب معاشرے میں آنے والے سیاحوں کے لئے سہولتوں کا کوئی فقدان نہیں۔ پہاڑ پر چڑھنے کے لئے کسی گائیڈ وغیرہ کی بھی ضررورت نہیں کیوں کے تمام راستوں پر عمدہ طریقے سے رہنمائی کے لئے بورڈ وغیرہ لگاے گئے ہیں۔ چوٹی پر پہنچنے کے لئے اوسطاً چھ اور اترنے کے لئے تین گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔ جولائی اور اگست کے علاوہ پہاڑ پر چڑھنا خطرے سے خالی نہیں۔ کوہ فیوجی کے اطراف میں پانچ جھیلیں ہیں اور پہاڑ پر چڑھنے کے لئے چار مختلف ٹریک ہیں جن کو مختلف رنگوں کے بورڈز سے نمایاں کیا گیا ہے۔ کوہ فیوجی تک جانے والے چاروں ٹریک کے راستے میں دس اسٹیشن یا مقامات آتے ہیں۔ پانچ اسٹشنوں تک کاروں وغیرہ کے ذریعے پہنچا جاتا ہے۔ وہاں سے آگے تک کا سفر پیدل ہے۔

کوہ فیوجی کے ملکوتی حسن کے سائے تلے تقریباً پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر اوکی گھارا نامی وہ جنگل ہے جو دنیا بھر میں خود کشیوں کے حوالے سے خاصا مشہور یا بدنام ہے۔ نہایت سلیقے سے کی گئی ہارا کاری ہو یا جنگ عظیم دوم کے کامی کازی ہوا باز، جاپانی خود کشی کے حوالے سے خاصے معروف ہیں۔ تیس کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا یہ بارہ سو سال پرانا جنگل خاصا پراسرار سمجھا جاتا ہے۔ گزشتہ نصف  صدی میں تقریباً پانچ سو افراد یہاں پر خود کشی کا اہتمام فرما کر اس جنگل کو افسانوی مقام عطا کر چکے ہیں

اس پراسرار جنگل کے سکوت میں نہایت خاموشی سے مرنے کا خیال یقیناً نفاست پسند جاپانیوں کو ہی آسکتا ہے۔ ہمارے یہاں تو خود کشی میں بھی سنسنی کا پہلو مد نظر رکھا جاتا ہے چاہے وہ ریل کے نیچے آ کر مرنا ہو یا پھر کسی بلندی سے محبوب کا نام لے کر چھلانگ لگا کر ہمیشہ کے لئے اوپر جانے کا قصد۔

اوکی گاھارا کے جنگل میں جب سالانہ اموات کی تعداد تیس سے بھی تجاوز کر گئی تو جاپانیوں نے اپنے مخصوص دھیمے اور مہذب انداز میں اس کا تدارک ایسے کیا کہ جنگل کی جانب جانے والے راستوں پر سائن بورڈ آویزاں کر دیے۔ ان بورڈز پر خودکشی پر آمدہ خواتین و حضرات سے گزارش کی جاتی کے براہ کرم اپنے فیصلے پر نظر ثانی فرمائیے، زندگی کے مثبت پہلوؤ ں کو دیکھے اور خوش رہنے کی کوشش کریں۔ قربان جایئں جاپانیوں کی سادگی پر کے حکومتی ذرایع کے مطابق ان سائن بورڈوں کو آویزاں کرنے کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے اور کئی لوگوں نے زندگی کو ایک اور موقع دینے کی حکومتی درخواست کو شرف بازیابی بخشا۔ تاہم یہ مہذب معاشرے کی باتیں ہیں ہمیں ذرا مشکل سے سمجھ آتی ہیں۔

کوہ فیوجی پر جانے کے لئے کوئی سرکاری فیس وغیرہ نہیں تاہم ماحولیات وغیرہ کے تحفظ کے ضمن میں معقول رقم نکلوا لی جاتی ہے۔ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنے کے بعدآپ کا سامنا تقریباً پانچ سو میٹر چوڑے اور تین سو میٹر گہرے آتش فشانی دھانے سے ہوتا ہے جو تین سو سال سے خاموش ہے۔ چالیس منٹ مزید چلنے کے بعد آپ جاپان کے بلند ترین مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں کسی زمانے میں محکمہ موسمیات والوں کا ریڈار نصب تھا۔ چوٹی پر ایک عدد پوسٹ آفس، عبادت گاہ اور کچھ دکانوں کی سہولت موجود ہے۔

روس میں واقع یورپ کی بلند ترین چوٹی کوہ قاف کی ماؤنٹ البرز اور تنزانیہ میں افریقہ کی بلند چوٹی ماؤنٹ کلمنجارو کی مانند کوہ فیوجی کے آس پاس کا علاقہ اپنی ساخت کی بدولت فوجی مشقوں کے لئے اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں جاپانی افواج امریکی افواج کے ساتھ مل کر خطے میں ”امن کی راہ“ ہموار کرنے کے لئے کوشش کرتی ہیں۔ کاش کے قدرت کا عطا کردہ یہ نشان امن کا استعارہ بن سکے۔

کوہ فیوجی نے جاپانی ادب اور فنون لطیفہ پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ صدیوں سے یہ پہاڑ جاپانی ادب، شاعری اور فن مصوری پر اثر انداز ہوتا رہا ہے۔ اس ضمن میں اٹھارویں صدی کے معروف مصور ہوکوشی کی تصاویر با عنوان ”کوہ فیوجی کے چھتیس مناظر“ خاصی مشہور ہیں۔ مصوری کے ان فن پروں میں کوہ فیوجی کو مختلف زاویوں سے دکھایا گیا ہے۔ ان میں سب سے معروف ”بڑی لہر“ نام کی وہ تصویر ہے جس میں تین کشتیاں سمندر کی ایک بڑی لہر کے رحم و کرم پر ہیں اور پس منظر میں کوہ فیوجی موت و حیات کی اس کشمکش کے اکلوتے چشم دید گواہ کے طور پر موجود ہے۔

جدت آشنا جاپانی قوم نے دو صدیوں پرانے ان شہ پاروں کا پرلطف استعمال یہ نکالا ہے کے ان تصاویر کو جاپان کے پاسپورٹ کے ویزا کے لئے مختص صفات کے پس منظر کے طور پر استعمال کیا ہے۔ گویا آب ہر ملک سے باھر جانے والا جاپانی کوہ فیوجی کو اپنے ساتھ لے کر جائے گا۔

ہائیکو جاپانی شاعری کی تین مصرعوں پر مشتعمل معروف صنف ہے۔ سترہویں صدی کے ایک جاپانی شاعر نے کوہ فیوجی کو ان الفاظ میں۔ یاد کیا

! اے گھونگے

کوہ فیوجی پر چڑھ

مگر، آہستہ۔ آہستہ

ایک مقامی گیت میں کوہ فیوجی کو یوں خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے جاپان کے

نیلے آسمان کے پس منظر میں

جسم پر برف کی سفید کیمونو (پوشاک) پہنے

پیروں میں دھند کو لپٹے

فیوجی جاپان کا عظیم پہاڑ ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).