رب کا شکر ادا کرنا سیکھیں


آج کا انسان بہت ناشکرا ہو گیا ہے۔ آپ کسی سے پوچھ لیں کہ بھائی کیا حال ہیں تو وہ آپ کو اپنی مشکلات ایسے بتائے گا کہ آپ کو لگے گا کہ شاید اس سے زیادہ پریشان کوئی اور انسان ہے ہی نہیں۔ جن کے پاس وسائل کی واقعی کمی ہے، ان کا تو اس طرح سے بات کرنا بنتا ہے۔ مگر یہاں پر ایسے لوگ بھی ہیں جن کو اللّہ نے کافی حد تک نوازا ہوتا ہے مگر وہ بھی اپنے حالات کا رونا رو رہے ہوتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ جیسے کوئی بھی انسان وسائل کی فراوانی کے باوجود بھی مطمئن اور خوش نہیں ہے۔ اس کی وجہ آج کل کے دور میں مادیت پرستی کا بڑھ جانا ہے۔ جس نے انسان کے اندر حرص اور لالچ کو بہت بڑھا دیا ہے۔ جس سے انسان کے پاس جو نعمتیں موجود ہیں اسے ان کا ادراک ہی نہیں ہو پاتا اور وہ بس زیادہ سے زیادہ کی خواہش میں ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ کا حصہ بن جاتا ہے۔

مگر اس سب کے درمیان کبھی کبھی کوئی ایسا منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے کہ انسان کو احساس ہوتا ہے کہ وہ کس قدر خدا کا نا شکرا ہے۔ ایسا ہی ایک منظر میں نے دیکھا۔ منظر تو بہت ہی عام سا تھا، مگر اس نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا۔ کچھ دن پہلے رات کے وقت اپنے کزنز کے ساتھ میں اپنے پسندیدہ حنیف ٹی سٹال پر چائے پینے گیا۔ جگہ کم ہونے کی وجہ سے اس نے اپنے ساتھ والی دکان میں بیٹھنے کو کہا۔ جب لڑکے نے ہمیں بٹھانے کے لیے دکان کا شٹر اوپر کر کے لائٹ جلائی تو وہاں پر ایک مزدور گرم اور ننگے فرش پر بے سدُھ ہو کر سویا ہوا تھا۔ دکان میں روشنی ہونے پر اس نے ایک نظر ہمیں دیکھا اور پھر کروٹ لے کر بے سدُھ ہو کر پہلے کی طرح سو گیا۔ ہم وہاں پر تقریباً ایک گھنٹہ بیٹھے، مگر وہ مزدور ہر شے سے ماورا ہو کر سویا رہا۔

کہنے کو تو یہ ایک عام سا منظر ہے۔ اور اس طرح کا یا اس سے کوئی ملتا جلتا منظر اکثر ہمارے سامنے آتا ہے اور ہم بس توجہ دیے بغیر آگے گزر جاتے۔ مگر اگر ہم اس پر تھوڑا غور کریں تو ہمیں اندازہ ہو کہ کچھ لوگوں کے لیے زندگی کتنی کٹھن ہوتی ہے۔ کہ انھیں دن کی شدید گرمی میں کی گئی مزدوری اتنا تھکا دیتی ہے کہ انھیں اس بات کا ہوش ہی نہیں رہتا کہ وہ کس جگہ پر اور کیسے سو کر پڑے ہوئے ہیں۔ اور اتنی مشقت کرنے کے بعد بھی وہ اس قابل نہیں ہو پاتے کہ سونے کے لیے ایک بستر ہی لے سکیں اور اس قدر شدید گرمی میں اپنے لیے کوئی ٹھکانہ ہی ڈھونڈ لیں۔

ہم جیسے لوگ جن کو خدا نے رہنے کے لیے گھر دیا۔ اس گھر میں ساری سہولیات دیں۔ آمدورفت کے لیے گاڑیاں اور دیگر ذرائع مہیا کیے۔ گرمی کے موسم میں ائیر کنڈیشنر اور سردی میں ہیٹر عطا کیے۔ ایک اچھا ذریعہ معاش دیا۔ کیا ہم میں سے کوئی کیا اس طرح سے اتنی شدید گرمی میں ننگے فرش پر سونے کا تصور بھی کر سکتا ہے۔ کبھی بھی نہیں، ہمیں تو یہ سوچ کر ہی پسینہ آجائے۔ ہاں اتنی نعمتیں ہونے کے باوجود بھی ہم سے شکایتیں چاہے جتنی مرضی سن لو۔ خدا سے بھی ہم یہ شکوہ کریں گے کہ اس نے ہمیں بہت ساری نعمتوں سے ابھی بھی محروم رکھا ہوا ہے۔ اور دنیا کے سامنے بھی اپنے مصائب کا تذکرہ کرتے رہیں گے۔

سچ تو یہ ہے انسان کے پاس جو کچھ موجود ہوتا ہے اسے اس وقت اس کی قدر نہیں ہوتی ہے۔ جب اس کا کوئی نقصان ہو جاتا یا جب اس سے کچھ چھین لیا جاتا، چاہے وہ مادی چیز ہو یا پھر کوئی رشتہ، پھر اسے افسوس ہوتا ہے کہ یہ اس کے ساتھ کیا ہو گیا اور اس نعمت کی قدر نہ کرنے پر خود پر ملامت بھی کرتا ہے۔ پہلے زمانوں کے لوگوں میں پھر بھی قناعت اور صبر شکر موجود تھا، مگر مادیت پرستی نے آج کے انسان کو بہت نا شکرا بنا دیا ہے۔ اس لیے جو انسان کے پاس موجود ہے اس پر اس کے لیے اکتفا کرنا بہت ہی دشوار ہو گیا یے۔

اگر انسان نے اپنی زندگی میں سکون حاصل کرنا ہے تو بجائے زیادہ سے زیادہ کی خواہش کے وہ جو اس کے پاس ہے اس پر قناعت کرنا سیکھ لے۔ اور ان لوگوں کو دیکھے جن کی زندگی واقعی بہت مشکل ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جائے۔ محنت سے اپنی زندگی بہتر بنانے کی کوشش کرے۔ دوسروں کے لیے اچھی سوچ رکھے۔ جہاں تک ہو سکے ان کی مدد کرے۔ بس زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی ہوس کا شکار نہ ہو اور رب کا شکر بجا لاتا رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).