عام آدمی – پریشاں سا پریشاں


میں مجاہد مرزا صاحب سے مل نہیں سکا۔ پار سال، جس روز ہماری ملاقات طے ہوئی، لندن میں فیض میلہ تھا۔ میں پچھلی قطار میں بیٹھا تھا اور مجاہد صاحب، اپنی ہر کہانی کی طرح، اس بار بھی فرنٹ لائین میں تھے۔ میں نے کئی بار کوشش کی کہ انہیں باہر بلا لوں مگر انتظامی امور میں ان کا مرکزی کردار دیکھ کر ایسا نہ کر سکا اور لوٹ آیا۔ اندر خانے ایک خوف یہ بھی تھا کہ اگر ملاقات اچھی نہ رہی تو بالواسطہ پتہ چلنے سے پہلے فیس بک پہ اس کا نتیجہ جلی حروف میں چھپ جائے گا۔

کچھ ہفتے بعد ان کی فوج کی زندگی کے باب چھپنے لگے تو شناسائی کا ایک اور پہلو نکل آیا۔ دس قسطیں جھٹ پٹ گزر گئیں۔ زندگی کے اور ستم جاری تھے کہ اچانک کہیں سے ایک فون آیا اور چند لمحوں بعد مرزا صاحب کی خودنوشت، میرے میل باکس میں موجود تھی۔ مگر یہ سب تو پہاڑی مقام کا راستہ ہے۔ کہ میدانوں سے چلنے والی طویل الجثہ بسوں پہ بیٹھیے، کسی سرد مہر سے راولپنڈی پہنچئے اور وہاں سے کسی نسبتا مختصر ویگن میں بیٹھ کر آہستہ آہستہ شمال کی جانب بڑھ جائیں، چھتر پار کریں تو جہاں پہلی بار ہوا مقطر ملے، وہاں سے پہاڑ کا آنند لینا شروع کیجئے۔ یہ کتاب بھی ایسی ہی ہے۔

زندگی کرنے کے مروجہ طریقوں سے یکسر مختلف، معاشرتی رویوں سے بغاوت کا یہ کھیل، علی پور کے گھر کے دالان سے شروع ہوتا ہے اور ماسکو کے ہوائی مستقر پہ ختم ہوتاہے۔ تکمیل کے دعوے سے تائب ایک انسان کی اتنی مکمل داستان اتنی ہی حیران کن ہے جتنی کوئی بھی کہانی ہو سکتی ہے۔ سکول ل میں طالب علمی کے معرکے ہیں، کالج میں طلباء کی چشمکیں ہیں، اور میڈیکل کالج میں پروفیسروں سے نوک جھونک ہے۔ بچپن میں بہن بھائیوں سے بھرا پرا گھر ہے، نوجوانی میں دوست احباب کی منڈلی ہے اور فوج میں افسر سپاہی کی محفل، مگر ان سب کے بیچوں بیچ، مجاہد صاحب یوں اکیلے نظر آتے ہیں، جیسے پنجاب کی عشقیہ داستانوں کے کرداروں میں مرزا۔

کتاب کا اولین حصہ، اس پس منظر کی تفصیل ہے، جس کی بنیاد پہ سارا منظر تعمیر ہو گا۔ آپ مناسب سمجھیں تو پہلے صفحوں میں درج اسلام پورہ کی تمثیل سے آخری اوراق میں عدو کوٹ کا تذکرہ جوڑ لیں، یا امام بارگاہوں کی منقش تفصیل سے ”حسین کو کون روتا ہے۔ سب اپنے دکھ کو روتے ہیں“ ۔جیسے مبہم اشاروں کو ملا لیں۔ یا ماں اور باپ کی تصویر سے میمونہ اور مجاہد کے سائے تراش لیں۔ پڑھنے والے کے لئے میدان بھی حاضر ہے اور گھوڑا بھی۔

درمیانی حصوں میں صرف، مرکزی کردار ہی ہر دن، نیا دن نہیں گزار رہا بلکہ نظریاتی ریاست کا خواب بھی تعبیر سے ٹکرا رہا ہے۔ جمہور، جمہوریت، آمر، آمریت، ملا اور ملائیت کے یہ مہ و سال، جہاں زاد کے وہ نو سال تھے، جو شہر مدفن پہ کسی وقت کی طرح گزرے۔ ملک چلانے والوں کی طرح، مصنف کی زندگی بھی ”نتیجے“ کے آزار سے آزاد رہی۔

آخری حصوں میں جب شداد کی جنت سے جنوب کے راستے پنجاب میں مراجعت ممکن ہوئی تو بظاہر تجربے کی رگ، مضمحل دکھائی دے رہی تھی مگر کہانی کے ہر نازک موڑ کی طرح اس بار بھی ڈاکٹر صاحب نے کوئی غیر معروف سالٹ دے کر اسے نئے سفر پہ آمادہ کر لیا۔ مگر ماسکو کی کہانی، ابھی پڑھنے والوں کے رزق میں نہیں لکھی گئی۔

کتاب ختم ہوئی تو جیسے قیمتی کرسٹل کا ایک گلاس ٹوٹ گیا۔ اس کی ہر کرچی میں اپنا ہی عکس بہت سے حصوں میں بٹا دکھائی دیتا ہے۔ یہ حساب کی وہ مساوات ہے جہاں نوے فیصد آپ کا دل چاہتا ہے کہ آپ مجاہد مرزا ہوتے اور نوے فیصد خواہش ہوتی ہے کہ بالکل بھی نہ ہوتے۔ پہلی بار حساب کی بنیادی سوجھ بوجھ رکھتے ہوئے میرا دل چاہا کہ سو فیصد میں ایک سو اسی ہوتے۔ مجاہد صاحب نے لکھا ہے کہ ان کی زندگی ایک عام آدمی کی زندگی ہے۔ کتاب پڑھیے اور خود بتائیے بھلا ایسی بھرپور، پرخطر، دل آویز اور دل فگار کہانی، عام آدمی کی ہو سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).