خوف کے سائے


\"sanaخوف ایک ایسی کیفیت ہے جو انسان سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت، کام کرنے کی طاقت، حتیٰ کہ روز مرہ کی سرگرمیاں سر انجام دینے کی اہلیت کو بھی سلب کر لیتی ہے۔ انسان کو ایک نادیدہ آفت تعاقب میں محسوس ہوتی ہے جو اسے ڈھنگ سے جینے تو کیا سانس تک نہیں لینے دیتی۔ اس کی طاقت ایک چاروں طرف سے گھیرے میں لیے حکمران کی سی ہوتی ہے جو اپنی قوت کے بل بوتے پر حواس پر حاوی ہوتا ہے۔ یہ خوف انفرادی ہو یا اجتماعی انسانی زندگی کو بہت بری طرح سے متاثر کرتا ہے۔ ایک طرف تو یہ انسان پر مکمل طور پر قابو پا لیتا ہے اور دوسری طرف یہ خود غرضی پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے خود غرضی ایسے کہ گھبراہٹ کے عالم میں جب اپنی جان کو خطرہ لاحق ہو تو اپنی زندگی سے بڑھ کر انسان کو کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ یہ ایک ایسے معاشرتی انتشار کو جنم دیتا ہے جہاں لوگ ایک قوم نہیں بلکہ ہجوم کی صورت میں ساتھ رہنے پہ مجبور ہوتے ہیں جو سماجی روابط خیر خواہی کے جذبے کے تحت نہیں بلکہ مجبوری کی وجہ سے قائم کرتے ہیں ہر تعلق ہر رشتے میں مفاد تلاش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے وہ علاقے یا اقوام جن کے ترقی راہ میں پیچھے رکھنا ہو۔ وہاں یہ ماحول سوچی سمجھی سازش کے تحت پیدا کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے اگر آپ کسی قوم کو پستی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں تو اس کے جذبے اور ذہنی سکون کو ختم کر دیں وہ قوم کبھی ابھر نہیں پائے گی۔ وہ لوگ جنہیں ہر وقت جان و مال کی فکر ہوں انہیں وہ ذہنی آسودگی کیونکر نصیب ہو سکتی ہے جو کہ تخلیقی کا سر انجام دینے مثبت سوچ اور عمل کے لیے نا گزیر ہے۔

ہم بحثیت قوم ایسے ہی خوف کے سائے میں ہیں۔ اس کا سب سے شدت سے شکار طبقہ بچوں اور نوجوانوں کا ہے۔ بچے اور نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ اور مستقبل ہوتے ہیں۔ یہ وہ بنیادی اکائی ہیں جن پر قوم کی ترقی کا انحصار ہوتا ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ انہیں تعلیم و تربیت کے وہ مواقع فراہم کیے جائیں جو انہیں خود سوچنے اور آگے بڑھنے کا راستہ دکھائیں۔ انہیں وہ ماحول فراہم کیا جائے جو تعمیر شخصیت کے لیے ساز گار ہو۔ لیکن اس سب کے لیے سکون اور امن کا ہونا ضروری ہے جو ہمارے معاشرے میں تقریبا نا پید ہے۔ ہم ایک ایسےسماج کا حصہ ہیں جہاں حادثات اتنے تسلسل سے وقوع پزیر ہوتے ہیں کہ امن کا وقفہ غیر معمولی واقعہ لگتا ہے۔ ایسی غیر یقینی صورتحال میں جس طبقہ میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے وہ طالبعلموں کا ہے۔ تعلیمی ادارے کے باہر اپنی مدد آپ کے تحت تعینات کیے گئے سکیورٹی گارڈ عدم تحفظ کے اظہار کی علامت ہیں – بچپن اور نوجوانی کی بے فکری، مستی، اور لا ابلالی پن ایک خواب سا ہوتا جا رہا ہے۔ ہم ایک ایسے سماج میں زندہ ہیں جو اکیسویں صدی میں بھی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ جہاں سب سے اہم اپنی ذات اور اس کی شناخت کا عمل ہے۔ جو انسانی تہذب کے ابتدائی دور کو ظاہر کرتا ہے۔۔ تو ایسے میں کیونکر ممکن ہے کہ وہ ذہن و دل پرورش پا سکیں جو نیا سوچیں اور انسانیت کے جذبے سے لبریز ہوں۔

دہشت گردی کا عمل باقاعدہ منصوبہ کی تحت جاری ہے جیسے ہی تعطیلات کے بعد تعلیمی اداروں کے کام کا وقت شروع ہوا تو اغوا کی وارداتوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا وہ بچے جو ہنستے مسکراتے سکول کے لیے روانہ ہوتے تھے اب نہ صرف وہ خود لاشعوری خوف کا شکار ہیں بلکہ والدین اپنے خدشات کو زبان پہ لانے سے نہیں روک پاتے جو ذہنی دباؤ کا باعث بنتا ہے۔ کالجز اور جامعات میں آئے روز حملے کی دھمکیاں، ان کو ہنگامی حالات میں بند کرنا پھر بغیر کسی لائحہ عمل کے دوبارہ کھولنا طالبعلموں میں نہ صرف تشویش کا باعث بنتا ہے بلکہ ان کو غیر یقینی صورتحال اور ذہنی کوفت میں بھی مبتلا کرتا ہے۔ زندگی کا وہ حسین دور جس میں شخصیت میں نکھار پیدا ہوتا ہے وہ ایسی کنفوژن کی نظر ہو جاتا ہے جہاں مقصد کا تعین تو دور کی بات آنے والے اگلے دن کے بارے میں بھی کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ تو وہ نوجوان طبقہ جسے ایک مقصد اور راہ کے تعین کے ساتھ تعلیم مکمل کرنا ہوتی ہے۔ وہ خیالات پریشان کی ایک ایسی غیر منظم یلغار کو لے کے چل رہا ہوتا ہے جہاں زندگی کا کوئی بھی پہلو سنجیدہ توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ نتیجتاً ڈگریوں کا بوجھ اٹھائے ایک ایسا ہجوم عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے جو اپنے آپ کو بھی نہیں سنبھال سکتا اس سے مزید کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ اسے وہ فرصت اور سکون میسر نہیں ہوتا جو اچھی قوت فیصیلہ اور اس کی عملی تعبیر کے لیے درکار ہوتا ہے۔ لہٰذا پڑھے لکھے لوگوں کی ایک ایسی کھیپ وجود میں آتی ہے جو عملی ہنر اور زندگی کی مہارتوں سے عاری ہوتے ہیں۔ بلکہ نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوتے ہیں۔ عدم تحفظ کا احساس انسان کو کوئی بھی کام درست انداز سے نہیں کرنے دیتا۔ اسی احساس کا شاخسانہ ہے کہ ہم بحثیت قوم عدم برداشت اور تشدد کے جذبات رکھتے ہیں۔ آئے دن شک و شبہ کی بنیاد پہ عام لوگوں کو مارنے پیٹنے حتٰی کہ جان سے مار دینے کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔ ایسا نہیں کہ لوگ ایک دم متشدد ہو گئے ہیں بلکہ ایک طویل عرصہ تک اس احساس کا شکار رہنے کے بعد کہ ان کی حفاظت ان کی اپنی ذمہ داری ہے اور ریاست کی جانب سے متعین اداروں کی لاپرواہی اور اختیارات کے غلط استعمال نے اس رویے کو پروان چڑھایا ہے۔ جہاں کمزور طاقت ور سے دب کے رہتا ہے لیکن جونہی اسے اپنے سے کمزور نظر آئے اس پہ بے دریغ اور بلا سبب ظلم کرنے لگتا ہے۔ یہ عمل نہیں بلکہ ردعمل ہے۔ دباؤ اور بے بسی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی گھٹن کو کم کرنے کا ایک غیر مہذب راستہ ہے۔

ملک میں حالات مستحکم رکھنا۔ عوام کو جان، مال اور عزت کی حفاظت کو یقینی بنانا۔ انہیں بنیادی ضروریات زندگی مہیا کرنا۔ تعلیم، صحت اور تفریح کے مواقع مہیا کرنا یہ سب ریاست کی ذمہ داری ہیں اگر ایک ریاست ان میں سے کوئی ایک بھی سہولت مہیا کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی تو اس کا مقصد کیا ہے؟ اور وہ کس بنا پہ قائم رہ سکتی ہے؟ جو ریاست اپنے شہریوں کے ہاتھ میں حفاظت کے نام پہ خود اسلحہ تھما دے اسے کیونکر فلاحی ریاست کہا جا سکتا ہے۔ یقینناً شہری ہونے کے لحاظ سے ہماری بھی ذمہ داریاں اور فرائض ہیں لیکن ان ذمہ داریوں کو تب ہی پورا کیا جا سکتا ہے جب لوگوں میں احساس ملکیت پیدا کیا جائے کہ یہ ریاست اور اس سے جڑی ہر چیز ان کی ہے اور ایسا کرنے کے لیے مستحکم، پرسکون اور سلجھے ہوئے ماحول کی ضرورت ہے جسے مہیا کرنا ریست کی ذمہ داری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments