عمران خان کی حکومت کا سنہری دور


پاکستان کی بہتر سالہ تاریخ میں بہت اتار چڑھاؤ آئے۔ کئی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں لیکن اب جو دور آیا ہے ایسا سنہری دور چشمِ فلک نے اس خطئہ ارض پر پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ کپتان نے پاکستانیوں کو اس قدر دلیر اور مضبوط بنا دیا ہے کہ اب وہ کسی بات پر گھبراتے نہیں ہیں۔ خواہ ڈالر 157 روپے کا ہو جائے، روزمرہ استعمال کی ہر چیز مہنگی ہو جائے، عوام پر نت نئے ٹیکس لگ جائیں پھر بھی وہ ایک ہی نعرہ لگاتے دکھائی دیتے ہیں : ’ڈٹ کے کھڑا ہے کپتان‘

اس سنہری دور میں نہ صرف آئی ایم ایف ملک پر مہربان ہے بلکہ دوست ممالک بھی بخوشی قرض دے رہے ہیں۔ بہت سے سرمایہ دار پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے بے تاب ہیں بس وہ تھوڑا سا انتظار کر رہے ہیں کہ کپتان کا اشارہ ملے تو وہ سرمایہ کاری کے لئے کود پڑیں۔

کپتان جو کہتے ہیں وہ کرتے ہیں اور جو وہ نہیں کہتے وہ بھی کرتے ہیں۔ اسے کسی فلم کا ڈائیلاگ مت سمجھیں یہ ایک حقیقت ہے۔ کپتان نے جو انتخابی وعدے کیے تھے سب وعدے پورے کر رہے ہیں۔ کچھ بے صبر لوگ عملی اقدامات کو ناپید دیکھ کر شور مچاتے ہیں کہ کوئی کام نہیں ہو رہا۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو تین تین موقعے ملے ہیں اب عمران خان کو کم از کم چھ بار منتخب کریں پھر یہ سوال کریں۔

عمران خان کا سب سے بڑا کریڈٹ یہ ہے کہ انہوں نے بچے بچے کو سمجھا دیا ہے کہ پاکستان کا اصل مسئلہ کیا ہے اور وہ ہے سابقہ حکومتوں کی کرپشن۔ تئیس سال سے وہ یہ بات سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یقین نہیں آتا تو ان کی پہلی تقریر سے لے کر حالیہ بجٹ تقریر تک سن لیں۔ وہ زرداری اور نواز شریف کو لٹیرے قرار دیتے رہے ہیں، ان کی مبینہ کرپشن کے بارے میں بتاتے رہے ہیں اور ہمیشہ یہی کہتے رہے ہیں کہ ڈاکوؤں اور لٹیروں کو نہیں چھوڑوں گا۔ چناں چہ انہوں نے دونوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کر دیا ہے۔ اسی طرح کے خیالات چوہدریوں کے بارے میں بھی تھے لیکن وہ چوں کہ تائب ہو چکے ہیں اس لئے ان کی حوصلہ افزائی کے لئے کپتان نے انہیں اپنی ٹیم میں شامل کر لیا ہے۔

خان صاحب نے بتایا تھا کہ زرداری اور نواز باریاں لگا کر تیس پینتیس سال تک ملک کو لوٹتے رہے لیکن اس سنہری دور میں یہ دونوں گرفتار ہو چکے ہیں لہٰذا کرپشن کا خاتمہ ہو چکا ہے اور ملک ترقی کی شاہراہ پر فراٹے بھرتا ہوا چل رہا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق زرداری اور نواز شریف کے دس سالہ دور میں شرح نمو 3۔5 رہی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ ترقی کی شرح مسلسل بڑھ رہی تھی اور 2018 میں بلند ترین سطح 8۔5 تھی جبکہ عمران حکومت میں یہ 9۔3 رہ گئی ہے۔

مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ کچھوے اور خرگوش کی کہانی کے وسیلے سے ہم جانتے ہیں کہ جیت کچھوے کی ہی ہوتی ہے۔

اب پاکستانیوں کے سب خواب پورے ہونے کا وقت آ گیا ہے۔ ہر پاکستانی کو نیا گھر ملے گا اور نوکریوں کی بارش ہوگی۔ بس تھوڑا سا انتظار کرنا پڑے گا۔ ابھی کپتان ٹیم بنا رہے ہیں جب بہترین کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم فائنل ہو جائے گی پھر یہ سارے کام ہوں گے۔ سب سے پہلے گھروں کے نقشے ذہن میں بنائے جائیں گے پھر انہیں کاغذ پر منتقل کیا جائے گا۔ اس کے بعد بھی کئی مرحلے ہوتے ہیں۔ پشاور کی میٹرو بس پراجیکٹ کو قریب سے دیکھنے والے تو سمجھتے ہیں کہ ایسے کام راتوں رات نہیں ہوتے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ شجر سے پیوستہ رہیں اور امیدِ بہار رکھیں کبھی نہ کبھی سارے منصوبے مکمل ہو جائیں گے چاہے صدیاں لگ جائیں لیکن مکمل ضرور ہوں گے۔

جہاں تک نوکریوں کی بات ہے تو وہ بھی کروڑوں کی تعداد میں مل سکتی ہیں۔ جیسے فواد چودھری کو پہلے اطلاعات و نشریات کی وزارت ملی تھی پھر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی مل گئی اسی اصول کے تحت اگر ملک کے تمام ملازمین اپنی نوکریاں ایکسچینج کر لیں تو پاکستانیوں کو ایک ہی دن میں کروڑوں نوکریاں مل جائیں گی۔

اس سنہری دور میں بہت جلد غربت کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ ظاہر ہے جس رفتار سے ڈالر اوپر جا رہا ہے، پیٹرول کی قیمت بڑھ رہی ہے، مہنگائی کو پر لگے ہیں تو ایسا ہو گا کہ غریب عوام کی قوتِ خرید محض گھاس خریدنے تک رہ جائے گی۔ گھاس کے قطعات تک جانے کے لئے کرایہ نہیں ہو گا تو عوام جنگلوں کا رخ کر لیں گے تاکہ ڈائریکٹ تازہ گھاس کھا سکیں۔ جنگلوں میں پتوں کا لباس بھی آسانی سے مل جائے گا۔ ایسے انسانوں کو مردم شاری میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ لہٰذا ملک میں صرف امیر ترین لوگ ہی ہوں گے۔ اس کا مطلب ہے ملک کی تقدیر بدلنے والی ہے۔ تو یہ تھی وہ تبدیلی جس کا انتظار تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).