وہ مرد ہی نہیں تھا


بلیو سکائی بلڈنگ کی پارکنگ میں داخلے کے وقت مجھے کسی غیر معمولی بات کا احساس ہوا۔ یہ ایک پانچ منزلہ رہائشی بلڈنگ تھی اور پینتیس چالیس فلیٹس پر مشتمل تھی۔ میں نے بلڈنگ کے ایک حصے کی طرف دو تین پولیس والوں کو جاتے دیکھا تھا۔ اس حصے میں ملازمین کو جگہ دی گئی تھی۔ خدا خیر کرے کوئی بڑا مسئلہ نہ ہو۔ میں دل ہی دل میں دعائیں کرتا ہوا لفٹ کی طرف بڑھ گیا۔ میری بیوی نے دروازہ کھولا تو اس کی آنکھوں میں چمک دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ اسے کچھ نہ کچھ پتا ہے۔ انجلین کے پاس میرے لیے دو خبریں تھیں۔ وقت ضائع کیے بغیر اس نے وہ خبریں مجھ تک پہنچا دیں۔

انجلین کے اصرار پر تھوڑی دیر بعد ہم بلڈنگ کے نائٹ واچ مین واجد کے کوارٹر میں بیٹھے تھے۔ اس کی بیوی رجو آنکھوں میں آنسو لئے سب کو واجد کی گمشدگی کے بارے میں بتا رہی تھی۔ گھر میں اس کے دوتین رشتہ دار اور چند آس پاس کے ملازمین تھے۔ ”ابھی کل ہی رجو نے اتنی بڑی خوشخبری سنائی تھی، ہمیں کیا خبر تھی کہ آج یہ بری خبر سننے کو ملے گی۔ “ رجو کی ماں نے غمگین لہجے میں کہا۔

”خوشخبری؟ “ میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

”جی! میری رجو ماں بننے والی ہے۔ پانچ سال ہو گئے ہیں شادی کو۔ اب خوشی کی خبر ملی ہے لیکن۔ “ رجو کی ماں بولی۔

اتنے میں ایک نوجوان کولڈ ڈرنک کی بڑی بوتل لیے اندر آیا پھر گلاسوں میں تھوڑی تھوڑی کولڈ ڈرنک ڈال کر سب کو سرو کرنے لگا۔ میں نے اشارے سے منع کرتے ہوئے پوچھا۔

”تم واجد کے بھائی ہو؟ “

”جی نہیں۔ میں اس کا دوست ہوں۔ میں بھی اسی بلڈنگ میں رہتا ہوں۔ یہاں کا الیکٹریشن ہوں۔ “ اس نے جلدی سے کہا۔

”پھر تو تمہیں پتا ہو گا کہ واجد کہاں ہے؟ “

”صاحب! آپ بھی پولیس والوں کی طرح سوال کر رہے ہیں۔ میں نے ہی اس کے گم ہونے کی رپورٹ درج کروائی تھی۔ ابھی پولیس آئی تھی اور مجھ سے ہی الٹے سیدھے سوال کر رہی تھی۔ “

”تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ میں الٹے سیدھے سوال کر رہا ہوں؟ “

”نہیں جی۔ میرا وہ مطلب نہیں تھا۔ “ وہ گڑبڑا گیا۔

”اصغر تو بہت اچھا لڑکا ہے جی۔ ہمارے کام آ رہا ہے۔ “ رجو کی ماں نے جلدی سے کہا۔

رجو کی ایک ہم عمر لڑکی سرگوشیوں میں اس سے باتیں کر رہی تھی۔ رجو اپنے دوپٹے سے اپنی ہنسی دبانے کی کوشش کر رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ رجو کو چھیڑ رہی ہے۔ شاید اس کی سہیلی یا پھر کزن وغیرہ ہو گی۔ میں سوچنے لگا کہ وہ شاید کچھ دیر کے لیے بھول گئی ہے کہ اس وقت ایک سنگین مسئلہ درپیش ہے۔ سامنے دیوار پر واجد کی ایک تصویر کافی بڑے سائز میں لگی تھی جس میں وہ اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتا دکھائی دے رہا تھا۔

میں نے کئی دفعہ رات کو گھر واپسی پر اسے آن ڈیوٹی دیکھا تھا۔ وہ پارکنگ والے ایریا میں ہی موجود ہوتا تھا اور اس تصویر کی طرح اکثر اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتا رہتا تھا۔ وہ چھ فٹ کا لحیم شحیم آدمی تھا۔ اس کے چہرے پر سب سے نمایاں چیز اس کی مونچھیں ہی تھیں جو اتنی بڑی تھیں کہ میں بعض اوقات سوچتا تھا کہ پانی پیتے ہوئے پانی بھی اس کی مونچھوں سے فلٹر ہو کر اس کے حلق میں جاتا ہو گا۔

آتے جاتے اس سے دعا سلام ہوتی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ کہیں اس کے ساتھ کوئی حادثہ نہ پیش آ گیا ہو۔ باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ اس کے پاس موبائل فون بھی تھا لیکن دو دن سے فون بند ہے۔ اس کے ایک دو دوستوں سے شہر کی مختلف جگہوں اور ہسپتالوں میں بھی چیک کیا تھا لیکن اس کا نشان نہ ملا تھا۔ وہ اکلوتا بیٹا تھا اور اس کے ماں باپ مر چکے تھے دیگر رشتہ داروں کے پاس بھی نہیں گیا تھا۔

تین چار دن گزر گئے۔ بلڈنگ والوں نے اس کی جگہ عارضی طور پر ایک واچ مین رکھ لیا تھا۔ آتے جاتے جب بھی مجھے نیا واچ مین نظر آتا تو واجد کا خیال آتا۔ پولیس نے حسبِ روایت واجد کی بیوی پر دباؤ ڈالا ہوا تھا کہ وہ کسی کا نام لکھوائے جس نے ممکنہ طور پر واجد کو اغوا کیا ہے یا پھر قتل کر دیا ہے۔ اس کی بیوی کیسے کسی کا نام لکھواتی اس کا کہنا تھا کہ ہم غریبوں سے کسی کی کیا دشمنی ہو گی۔ پھر وہی ہوا جو ہوا کرتا ہے۔ پولیس نے واجد کے دو تین رشتہ داروں اور دوستوں کو پکڑ لیا تا کہ ان سے اگلوایا جا سکے کہ واجد کہاں ہے۔

مجھے میری بیوی نے بتایا کہ واجد کی بیوی بہت پریشان ہے۔

”ظاہر ہے اس کا خاوند گم ہو گیا ہے۔ وہ پریشان نہ ہو تو اور کیا کرے۔ “ میں نے تبصرہ کیا۔

”یہ بات نہیں ہے۔ اس کا خاوند تو کئی دن پہلے گم ہوا تھا۔ وہ اس وقت اتنی پریشان نہیں تھی لیکن جب سے اصغر پکڑا گیا ہے ایسا لگتا ہے جیسے اس میں جان نہ ہو۔ “ انجلین نے پراسرار لہجے میں کہا۔

”تم کہنا کیا چاہتی ہو؟ اس معاملے میں اصغر کا بھی کوئی کردار ہے؟ “ میں نے چونک کر کہا۔

”مجھے تو ایسا لگتا ہے جیسے مرکزی کردار ہی اصغر کا ہے۔ “ انجلین نے پر خیال لہجے میں کہا۔

پولیس نے دو تین دن ان سب کو خوب رگڑا دیا لیکن کچھ نہ اگلوا سکے۔ واجد نہ ملا۔

میری بیوی دو تین بار واجد کی بیوی سے ملی تھی۔ شام کو جب وہ اس سے مل کر آئی تو اس کی آنکھوں کی چمک دیکھ کر مجھے اندازہ ہو گیا کہ گمشدگی کا کیس حل ہو گیا ہے۔

”کیا خبر ہے؟ واجد کہاں ہے؟ “ میں نے پوچھا۔

”وہ کراچی میں ہے لیکن اپنا پتا اس نے نہیں بتایا۔ اس نے کہا ہے کہ وہ واپس نہیں آئے گا۔ “ انجلین بولی۔

”ہیں۔ کیا یہ بات اس نے اپنی بیوی سے کہی ہے۔ “

”نہیں یہ بات اس نے بلڈنگ والوں سے کہی۔ اس کی بیوی کو انہوں نے بتایا ہے۔ اس کی بیوی نے تو مجھے ایک اور بات بتائی ہے۔ “

”کون سی بات“

”یہ کہ وہ تو مرد ہی نہیں تھا۔ “

”یہ تم کیوں پہیلیوں جیسی باتیں کر رہی ہو۔ صاف صاف ہی بتا دو۔ “ میں سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ انجلین نے ساری کہانی سنا دی۔

ہماری بلڈنگ کا نائٹ واچ مین مردانہ صفات سے محروم تھا۔ پانچ برس اس کی بیوی نے خوشخبری کے بغیر گزار دیے پھر اسی بلڈنگ کے الیکٹریشن اصغر نے اس کے گھر آنا جانا شروع کیا۔ جب واجد آن ڈیوٹی ہوتا تھا تو اصغر اس کے گھر میں اس کی بیوی کے ساتھ ہوتا تھا۔ اسی لئے اس نے بالآخر خوشخبری سنا دی۔ جس دن واجد کو یہ خبر ملی وہ غائب ہو گیا وہ کسی کو بتائے بغیرخود گھر چھوڑ کر گیا تھا۔ میں اس وقت سے سوچ رہا ہوں کہ ان تینوں میں سے قصوروار کون تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).