نا اہل حکمران اور ان کی حماقتیں


جب سے موجودہ حکمران اسلام آباد کی سڑکوں، جمہوری اداروں اورمعاشرہ کی اخلاقی حدود کو روندتے ہوئے اس پارلیمنٹ میں براجمان ہوئے ہیں جس کی دیواروں پر انہوں نے اپنے پاپ زدہ کپڑے دھو کر سکھائے تھے، ملک ایک ایسی ڈگر پر چل نکلا ہے جس کی منزل خطرناک اور ہولناک دکھائی دیتی ہے۔ موجودہ حکمران نا اہل بھی ہیں اور عقل کا استعمال کرنے سے عاری بھی۔ ایک دو فلاحی اداروں اور چھوٹی موٹی تجارتی کمپنیوں کو چلانے کے علاوہ ان کا تجربہ بھی کچھ نہیں ہے۔

سرمایہ داری نظام اورجدید معاشیات کے بانی ایڈم سمتھ نے لکھا تھا، ”کام کی ذمہ داری سونپتے وقت یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ زیادہ تر لوگ اور خصوصی طور پر وہ لوگ جن کی زیادہ تر زندگی مزدوری کرتے گزری ہے عام طور پرسادہ سے ایک یا دو کام کرنے کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ ایک ایسا آدمی جس کی پوری زندگی عام سے کام کرتے گزری ہے اور جن کاموں کے نتائج بھی زیادہ تر ایک ہی جیسے یا تقریباً ایک ہی ہوتے ہیں، وہ اس چھوٹے سے تجربہ کی بنیاد پرجہاں بانی کے اہم کام کیسے سر انجام دے سکے گا۔ قدرتی امر ہے کہ وہ بری طرح ناکام ہوگا۔ ۔ ایسا آدمی ملکی مفادات سمجھنے سے قاصر ہوگا۔ جنگ کے دنوں میں ملک کا دفاع بھی نہیں کر سکے گا۔ اس طرح کا تجربہ کرنا بے وقوفی اور جہالت کہلاتاہے۔ “

ہماری موجودہ حکمران پارٹی کے پاس اچھے تجربہ کے حامل کچھ افراد موجود بھی ہیں لیکن ناتجربہ کار ان سے خوفزدہ ہیں کہ وہ کامیاب ہو گئے تو ہماری جگہ لے لیں گے۔ پارٹی کا سربراہ بھی اسی خطرہ کی بنیاد پر ایسے افراد کو تضحیک کا نشانہ بناتا رہتا ہے۔ حیرانگی کی بات ہے کہ وہ ہیرو جس کی بہادری اور خود اعتمادی کی مثالیں دی جاتی ہیں وہ ان لوٹوں سے ڈرتا ہے۔ اس ایک خوف کی وجہ سے پنجاب جیسے صوبے میں انتہائی سمجھدار سیاستدانوں کی موجودگی میں بزدار جیسا آدمی ”خادم اعلیٰ؟ “ کی جگہ پر لگا دیاگیا۔

اب عوام اور افسران جب دونوں کا تقابل کرتے ہیں تو حکمرانوں کی بیوقوفی کی داد دیتے ہیں۔ یہی غلطی پختونخواہ اور مرکز کی وزاتوں کی تقسیم میں کی۔ جو دو چار افراد سمجھدار تھے ان کو اسی خوف کی وجہ سے دیوار کے ساتھ لگا دیاگیا۔ کچھ نعروں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ سات ماہ تک کھل کے یہ اقرار ہی نہ کیاگیا کہ ملک کاآئی ایم ایف کے پاس جانا مجبوری ہے۔ اس دوران ملکی معیشت گو مگو کی کیفیت میں سولی پر لٹکی رہی۔

ہمارے یہ حکمران خوش قسمت تھے کہ ان کے ساتھ دوسرے ادارے بھی ایک ہی صفحہ پر سیاہی بکھیر رہے تھے۔ لیکن بدقسمتی یہ تھی کہ سب کو تو نظر آرہا تھا، حکمران نہیں دیکھ رہے تھے کہ کیا لکھا جا رہا ہے؟

عقل مند لوگ کہہ رہے تھے کہ یہ کشتی ان کی نا اہلی سے جلد ہی ڈوب جائے گی۔ لیکن ”بیوقوف سے عقل کی بات کریں تو وہ تمہیں ہی بیوقوف کہے گا“۔ عقلمند کہتے رہے یہ سن سکے، نہ سمجھ سکے۔ جس صفحہ پر یہ دونوں ایک تھے اس پر ان کی تقدیر قدرت بھی ساتھ ساتھ ہی لکھتی جا رہی تھی۔ یہ اس کو پڑھ نہ سکے۔ ایک ادارے کی خوشنودی کی حصول میں یہ اپنے اور غیر سب کو ناراض کرتے چلے گئے۔

ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے

آئین اور آئینی ادارے اللہ کا ایک انعام ہیں جو انتہائی محنت اور آدھے ملک کی قربانی دے کر حاصل ہوا تھا۔ اللہ کی ان نعمتوں کو جھٹلانے والوں پرمصائب قدرت کی طرف سے انتقام بن کر اترتے ہیں۔ طاقتور اداروں کے لوگ تو یہ بدلہ خود لے لیتے ہیں لیکن کمزوروں کا سہارا تو خدا ہوتا ہے۔ کس کو پتا تھا کہ کمزور ترین، چھ دہائیوں تک گھر کی باندی بن کر فیصلے کرنے والی عدلیہ، یک دم موسیٰ بن کر وقت کے فرعون کو وکلاء کے سمندر میں غرق کر دے گی۔

اب ان حکمرانوں نے بھی اپنی بیوقوفی سے انہی بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال لیا ہے۔ آئینی اداروں میں سب سے کمزور پارلیمنٹ ہے، اس کا انتقام دیکھیں۔ جس پر لعنت بھیجتے تھے، اسی کی وجہ سے حکمران بنے۔ لیکن اس سے اتنے خوف زدہ ہیں کہ ڈرتے اس کی طرف منہ نہیں کرتے۔ ابھی اس کے دوسرے انتقام کا آغازبھی ہونے والا ہے۔ یہ منظر ان کے ساتھ حاضرو غائب سب دیکھیں گے۔

یہ سارا دور حکومت بیوقوفوں سے بھرا پڑا ہے۔ اور ان کو گمان ہے کہ یہی لوگ ہیں جو ملک کی تقدیر سنواریں گے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ہم لوگ ایماندار اور قوم پرست ہیں۔ ہمارے ہیرو نے ملک کا نام کرکٹ میں بلند کیا، ہسپتال بنایا، یونیورسٹی بنائی اور اب نیا پاکستاں بھی بنائے گا۔ صاف چلی شفاف چلی، ان کا نعرہ ہے۔ یہ ایک دو سیدھے سادے سے کام جن کے نتائج بھی عام طور پر ایک جیسے ہی ہوتے ہیں، ان کو مثال بنا کر کہا جا رہا ہے کہ کامیابی یہاں بھی ہمارے قدم چومے گی۔

پھر ایڈم سمتھ یاد آتا ہے کہ یہ بری طرح ناکام ہوں گے۔ اور ان پر اعتقاد رکھنا بیوقوفی ہے۔ فیودر دستوفسکی نے کہا تھا، ”جاہل انسان حقیقت کے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ جتنا کوئی بے وقوف ہوگا اتنا ہی شفاف ہوگا۔ بیوقوفی کی عمر کم اور عقلمندی کی زیادہ۔ عقل خفیہ اور سیدھی سادی ہونے کی بجائے بل کھائی ہوئی، کج رو اور خفیہ ہوتی ہے۔ ذہانت کسی قانون کی تابع نہیں ہوتی اور حالات کے مطابق خود بھی بدل جاتی ہے اور قوانین کو بھی توڑتی ہوئی نئے انتظامات کا اجراء کرتی ہے۔ اس لئے کہہ سکتے ہیں کہ بیوقوفی، ایماندار اور سیدھی سادی، ذہانت چالاک اور شاطر ہوتی ہے“۔

سیدھے سادے اتنے ہیں کہ مودی کو خط پہ خط لکھتے جاتے ہیں او اس کی ہٹ دھرمی کے سامنے بار بار ملک کے لئے شرمندگی کا باعث بن رہے ہیں۔ وسیم اکرم پلس پولیس افسر کے سلام کے بعد ہاتھ ملانا بھول جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ (بنیادی اخلاقیات بھی) ابھی سیکھ رہا ہوں اور بڑے خاں صاحب سعودی بادشاہ کے پروٹو کول کو نظر انداز کرتے ہوِئے، اس کو دیکھے سنے بغیر دوسری طرف چل پڑتے ہیں۔

خان صاحب کی امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ مارک پومپیو کے ساتھ فون پر ہونے والی گفتگو سے لے کر افغانی صدارتی انتخابات کے بارے میں بیانات تک ہر معاملہ میں وزارت خارجہ کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ جب سفارتی آداب کی خلاف ورزیاں معمول بن جائیں تو عالمی معاملات میں ملک کے لئے مسائل روزبروز بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

توہم پرستی کی انتہا دیکھیں، سمجھتے ہیں کہ بنی گالا کی منڈیروں پر جن آکر گوشت کھاتے ہیں۔ مصنف اور سماجی رویوں کے نقاد کرسٹوفر ہیچنزلکھتے ہیں کہ، ”سب سے زیادہ قابل نفرت چیز بے وقوفی کو کہا جاتا ہے اور وہ جب نسل پرستی و توہم پرستی کی شکل میں نظر آے تو اس کو دیکھ کراور بھی زیادہ متلی ہوتی (Nauseating) ہے“۔

ان کی حرکتیں دیکھ کر لگتا ہے کہ آئن سٹائن نے بالکل سچ کہا ہے، ”دو چیزیں لامحدود ہیں، کائنات اور بے وقوفی۔ لیکن میں کائنات کی لامحدودیت کے بارے میں پر یقین نہیں ہوں۔ “ ان کی بیوقوفیاں لامحدود ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بے وقوفی کی سزا موت ہوتی تو خاندانی منصوبہ بندی کی ضرورت ہی نہ پڑتی، دنیا کی آبادی انتہائی کم ہوتی اور ان کی تو پوری پارٹی ہی یک دم ختم ہوجاتی۔ برائی دنیا کے لئے اصل خطرہ ہے۔ بے وقوفی بھی اتنی ہی خطرناک ہے جتنا کہ برائی۔

اگر آپ نتائج دیکھ کر فیصلہ کریں تودیکھیں گے کہ بیوقوفی اوربرائی ایک ہی سکے کے دو رخ لگتے ہیں۔ برائی انتہائی خطرناک لیکن بیوقوفی اس سے بھی زیادہ، کیونکہ یہ زیادہ عام ہے۔ ہماری اصل ضرور ت یہ ہے کہ ہم جہالت، نا اہلی، پاگل پن اور بیوقوفی کے خلاف جہاد کا آغاز کریں۔ اس سے ممکن ہے کہ کوئی تبدیلی وقوع پذیر ہو جائے۔

انسان ہمیشہ سب سے زیادہ ذہانت اور عقلمندی کا کام اس وقت کرتا ہے جب اس نے دوسرے لوگوں کی تما م بیوقوفانہ حرکتیں اوران کا انجام ناکامی کی صورت میں دیکھ لیا ہو۔ اب ان کو لانے والوں نے ان کی حرکتیں دیکھ لی ہیں اور ناکامی بھی۔ عالمی سطح پران کی حماقتیں دیکھ کر کرنل محمد خاں کے الفاظ یاد آرہے ہیں کہ، ”غیر کیا کیا نہ کہیں گے اور اپنے کیا کیا کہیں گے؟ “ نپولین بونا پارٹ کے بقول، ”سیاست میں بیوقوفی کوئی معذوری نہیں ہوتی“۔ عوام کے کچھ حصے بے وقوف لوگوں کے بڑے بڑے وعدوں اور دعووں سے فریب زدہ ہو جاتے ہیں، لیکن حکمرانی ایسے لوگوں کے بس کی بات نہیں ہوتی اور یہ پوری قوم کو تباہی کی طرف لے جاتے ہیں۔ اب عقلمندی کا تقاضا ہے کہ بے وقوفوں کی باتوں سے مزید بیوقوف نہ بنا جائے اوران کو خدا حافظ کہہ دیاجائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).