قیامت کے نامے، ایڈیٹر کے نام


\"mubashir

جناب! کوئی امکان کہ آپ مزید ایک دو صفحے ایڈیٹر کے نام خطوط کے لیے مختص کرسکیں؟ اپنے روزنامے میں کم جگہ کی وجہ سے آپ کو یقینی طور پر رنگارنگ نقطہ ہائے نظر، مزاح اور معلومات کا خزانہ پھینکنا پڑتا ہوگا۔ کیسا زیاں ہے!

یہ تھا وہ خط جس کے بعد ڈیلی ٹیلی گراف کی انتظامیہ نے سوچا کہ انھیں اپنے قارئین کے خطوط کو جمع کرکے ایک کتاب چھاپنی چاہیے۔

ہر اخبار کو اس کے قارئین خط لکھتے ہیں۔ عام طور پر ان میں سیاست اور سماجی مسائل پر تبصرے ہوتے ہیں۔ ہمارے اخبارات میں چھپنے والے ایسے خطوط کو شاید انھیں لکھنے والے ہی پڑھتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو بے شمار کالم بھی اس قابل نہیں ہوتے کہ انھیں کوئی پڑھے، قارئین کے خطوط سے کیا امیدیں رکھیں۔

لیکن انگریزوں کی حس مزاح، طنز کی تیر برسانے کی مہارت اور دوسروں کی بے عزتی کرنے کی صلاحیت درجہ کمال پر ہے۔ بہت سے دلچسپ خطوط شائع نہ ہونے کی وجہ کسی مقدس گائے پر تنقید یا اخبار کی پالیسی سے انحراف یا سخت زبان نہیں ہوتی۔ وہ اس لیے چھپنے سے رہ جاتے ہیں کہ ان سے زیادہ دلچسپ خطوط ایڈیٹر کی میز پر ہوتے ہیں۔

\"dailytelegraph-1\"

ٹیلی گراف کے قارئین کی تعداد بیس لاکھ ہے۔ ان میں سیاست دان اور سیلی بریٹیز سب شامل ہیں۔ سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے اپنے اقتدار کے عروج پر تسلیم کیا تھا کہ وہ یہ خطوط پڑھتے ہیں۔ انھوں نے یہ اعتراف اخبار میں وہ خط پڑھنے کے بعد کیا تھا جس میں خط لکھنے والے نے سوال اٹھایا کہ وزیراعظم ٹونی بلیر زیادہ بڑے چغد ہیں یا ان کی اہلیہ؟

آئی این ہولنگز ہیڈ ناول نگار ہیں لیکن میں ان سے اس لیے واقف ہوں کہ وہ ٹیلی گراف کے لیٹرز ڈیسک پر کام کرتے ہیں۔ اس ڈیسک پر ایک دو اور صاحبان بھی ان کے ساتھ ہیں۔ وہ روزانہ سیکڑوں خطوط اور ای میلز پڑھ کر صرف بیس کو شائع کرتے ہیں۔

شاید پہلے باقی تمام خطوط ضائع کردیے جاتے ہوں گے۔ لیکن بیری یل لینڈ کے اس خط نے، جس سے میں نے گفتگو کا آغاز کیا ہے، ایڈیٹرز کو ایک کتاب کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیا۔ ان کا خط، ایسے خطوط کی پہلی کتاب کے پہلے صفحے پر، پیش لفظ سے بھی پہلے شائع کیا گیا ہے۔

آئی این ہولنگز ہیڈ کی مرتب کردہ پہلی کتاب کی مقبولیت کے نتیجے میں ایک نئے سالنامے کی روایت قائم ہوئی۔ اب اخبار میں نہ چھپنے والے خطوط اور ای میلز میں سے کئی سو کا انتخاب کیا جاتا ہے اور سال کے سال ایک کتاب چھاپ دی جاتی ہے۔

اب تک ایسی چھ کتابیں چھپ چکی ہیں۔ کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ میرے پاس پوری چھ ہیں؟

(ان کے علاوہ سیاست، ٹرین کے سفر اور کرکٹ کے موضوعات پر لکھے گئے خطوط کی کئی مزید کتابیں بھی شائع کی جاچکی ہیں۔ انھیں ہولنگز ہیڈ کے بجائے دوسرے صحافیوں نے مرتب کیا ہے۔)
ہر کتاب کا ٹائٹل میرے پسندیدہ کارٹونسٹ میٹ پریچٹ کے ایک کارٹون سے سجا ہوا ہے۔ میٹ کتنا بڑا فن کار ہے اور میں اس کا کتنا بڑا پرستار ہوں، یہ کسی اور دن بتاؤں گا۔

فی الحال ہر کتاب سے تین تین خط یہاں پیش کررہا ہوں۔ برطانیہ سے باہر رہنے والے مجھ جیسے لوگ تمام خطوط کا مزہ نہیں لے سکتے۔ بہت سے خطوط برطانوی سماج اور برطانوی سیاست سے متعلق ہیں۔ لیکن ان کے طنز، ان کی کاٹ اور فقرے بازی کا لطف کوئی بھی اٹھا سکتا ہے۔

\"dailytelegraph-2\"

Am I Alone in Thinking
SIR – May I point out that MPs should be entitled to a fair hearing, then they should all be shot
SIR – Sir Alan Sugar maintains that making money is better than sex. He obviously has not slept with my wife
SIR – Isn’t it time we abolished: knighthoods and peerages (bribery), the Liberal party (politics), the offside rule (football), funding for faith schools (education), futures and options (shares), political correctness (dishonesty), the license fee (BBC) and may and could (journalism)

(ہمیں بھی اپنی ایک فہرست بنانی چاہیے)

I Could Go On
SIR – If I go into a pub, already intoxicated, the landlord will refuse to serve me. Wouldn’t it be a good idea if McDonalds, Burger King and other fast food outlets were to adopt the same policy with the obese
SIR – Discussing how we had aged over the past 10 years, my husband and I agreed that main sign is that we now hold hands to cross the road
SIR – I read that Argentina has, at last, legalized same-sex marriages. This pleased me; at this rate of progress, I shall soon be allowed to marry my neighbor’s motorbike

(میری کار کو پڑوسن کی کار سے اتنی محبت ہے کہ روز اس سے ٹکراجاتی ہے)

I Rest My Case
SIR – Might we look forward to seeing a blank rectangular space in the Daily Telegraph with the caption underneath: ‘Kate Middleton didn’t go anywhere today’
SIR – Is it true that Abdelbaset al-Megrahi, the Lockerbie bomber, is now applying for asylum in Scotland
SIR – May I suggest if the police are to use water cannon to disperse rioting students, they include some soap in the tank

(کراچی میں پانی کی توپ والے غور فرمائیں)

Imagine My Surprise
SIR – ‘Fifty Shades of Grey’ – succinctly describes my lingerie collection
SIR – Are there now four classes in this country: Working, Middle, Middleton and Upper
SIR – As soon as I heard that David Cameron was backing Andy Murray I knew he would lose. Sure enough, Murray started off well but then did a U-turn

(کیا ہر ملک میں ایک یو ٹرن والا سیاست دان ہوتا ہے؟)

Am I Missing Something
SIR – With regards to punishment for footballers who bite other players, has anyone considered pulling their teeth out
SIR – This morning I heard a weather forecaster on the radio inform us that we were going to have a lot of weather
SIR – Two days of news about the Duchess of Cambridge, and you haven’t yet told us about her hospital gown. Who designed it? How much did it cost? And has she worn it before

(کیا ہر ملک کا میڈیا ایک جیسا ہوتا ہے؟)

What Will They Think of Next
SIR – Many congratulations to Prince Philip on his 93rd birthday, I see he is going to Germany on Thursday. Where does he get his travel insurance
SIR – The Germans may have won the World Cup but the Brazilians have much sexier looking women
SIR – Is there any way we could play Sri Lanka at football, and Uruguay and Italy at cricket

(ہمیں بھی اسی طرح کا حل سوچنا چاہیے)

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments