مریم بلاول ملاقات نے حکومت کو بحران سے نکلنے کا راستہ فراہم کیا ہے


اگر عمران خان یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ انہیں حکومت سنبھالنے سے پہلے ملک کی معیشت اور نظم حکومت کو لاحق عوارض کا علم نہیں تھا تو ان سے پوچھنا چاہیے کہ پھر وہ بائیس برس تک کس نظام کو درست کرنے کی جد و جہد کرتے رہے تھے۔ طویل جد و جہد اور گزشتہ پانچ برس کے دوران حکومت کے ہر فیصلہ کو ملک کی تباہی کی طرف قدم قرار دینے کے بعد اقتدار ملنے پر انہیں مسائل کی سنگینی کا اندازہ بھی ہونا چاہیے تھا اور انہیں حل کرنے کے لئے ان کے پاس ٹھوس منصوبہ اور ماہرین کی ٹیم بھی ہونی چاہیے تھی۔ لیکن گزشتہ دس ماہ کی کارکردگی سے تو یہی لگتا ہے کہ ان کی کوشش صرف اقتدار کے لئے تھیں لیکن وہ اس کے تقاضے پورے کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور نہیں ہیں۔ ورنہ پاکستان جیسے کثیر آبادی اور محدود وسائل والے ملک پر حکمرانی پھولوں کی سیج نہیں ہوسکتی۔

عمران خان اگر اب بھی اپنا طرزعمل تبدیل کرسکیں تو ملک کے سیاسی اور معاشی مسائل حل کرنے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ خاص طور سے بجٹ منظور کروانے کے علاوہ اس کے منفی اثرات کے لئے عوامی قبولیت کا مزاج پیدا کرنے کے لئے بھی حکومت کو سیاسی ٹمپریچر کم کرنا ہوگا۔ اس طرح ملک کو لاحق بظاہر سنگین بحران ٹالا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے زبانی گولہ باری کا طریقہ ترک کرکے تعاون اور مواصلت کا راستہ ہموار کرنا ہوگا۔ مخالفین کو بھی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے نمائندے سمجھتے ہوئے مناسب احترام دینا ہوگا۔

 یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اگر اپوزیشن کے دو رہنما بجٹ سے پیدا ہونے والی بے چینی پر اور حکومت کی معاشی اور سیاسی حکمت عملی پر غور کرنے کے لئے مل بیٹھتے ہیں یا تمام اپوزیشن جماعتیں مل کر قومی مسائل پر بحث کرتی ہیں تو اس پر بدحواس ہونے اور اپنے نمائندوں کو بدکلامی پر مامور کرنے کی بجائے، اسے مثبت اور ضروری سیاسی سرگرمی سمجھا جائے۔

اسی طرح آج جاتی عمرہ میں ملاقات کرنے والے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے لیڈروں کو اپنی سرگرمیاں عمران خان کی حکومت کو گرانے یا بجٹ کو نامنظور کروانے پر مرتکز کرنے کی بجائے، حکومت کی اس طرح رہنمائی کرنی چاہیے کہ ملک کو درپیش معاشی اور سیاسی مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے۔ حکومت اور اس کے حواری اپوزیشن کو یہ کہہ کر للکارتے رہتے ہیں کہ اس میں عوامی تحریک چلانے کا دم نہیں ہے۔ اس قسم کے چیلنج کو سنجیدگی سے لینے کی بجائے اگر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی نوجوان قیادت اپنی اپنی پارٹی کے منشور اور باہمی جد و جہد و مقاصد کو کسی ٹھوس اور قابل عمل ایجنڈے کی صورت میں مرتب کرسکے تو یہ اس ملک کے مستقبل اور جمہوریت کی افزائش و بقا کے لئے بہت اچھا ہوگا۔ احتجاج یا سڑکوں کی سیاست سے اس وقت صرف ملک کا نقصان ہو گا اور معیشت پر بوجھ میں اضافہ ہوگا۔ اپوزیشن تمام تر دباؤ کے باوجود اس آپشن کو مسترد کرکے قوم و ملک کے مفاد کو پارٹی مفادات سے بالا قرار دینے کے عزم کا اظہار کرسکتی ہے۔

مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کو موروثی سیاست کے طعنے سے نجات پانے کے لئے اپنی اپنی پارٹی میں جمہوریت لانے، انتخابات کروانے اور چند خاندانوں کے علاوہ دوسرے متحرک لوگوں اور مخلص کارکنوں کو آگے بڑھنے کا موقع دینے کے لئے بھی کام کرنا ہوگا۔ ان دونوں کو اپنے والدین کی نسل سے زیادہ اس بات کا احساس ہونا چاہیے مواصلت کے جدید دور میں کسی بھی سیاسی پارٹی میں موروثی سیاست کا مستقبل مخدوش ہے۔

یہ بات خوش آئیند ہے کہ مریم بلاول ملاقات کے بعد فوری احتجاج شروع کرنے کی بات نہیں کی گئی۔ دونوں لیڈروں نے جس نکتہ پر مکمل اتفاق کیا ہے وہ عدلیہ کی آزادی ہے۔ انہوں نے ججوں کے خلاف بھیجے گئے ریفرنسز واپس لینے کا متفقہ مطالبہ کیا ہے۔ یہ مناسب مطالبہ ہے اور حکومت کو بھی اس مطالبہ کا احترام کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس کے کے آغا کے خلاف ریفرنسز واپس لینے چاہئیں۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے ان ریفرنسز پر ابتدائی سماعت کی ہے۔ کونسل نے اگر یہ ریفرنسز مسترد کردیے تو حکومت کو شدید خفت کا سامنا ہوگا اور یہ فیصلہ تحریک انصاف کے لئے ناقابل برداشت سیاسی بوجھ بن سکتا ہے۔ اگر جوڈیشل کونسل نے حکومت کی شکایت کو درست سمجھتے ہوئے ان ججوں کو عہدوں سے برطرف کردیا تو حکومت کو وکیلوں اور بنیادی حقوق کے لئے کام کرنے والوں کی شدید ناراضگی اور احتجاج کا سامنا ہوگا۔ یہ احتجاج اندازے سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

ججوں کے خلاف ریفرنسز واپس لینے کا مطالبہ کرکے، ملک کی دو بڑی پارٹیوں نے تحریک انصاف کی حکومت کو بحران سے باہر نکلنے کا راستہ فراہم کیا ہے۔ وہ ریفرنس واپس لے کر اپوزیشن کے ساتھ تعاون کی فضا بحال کرسکتی ہے، جس میں بجٹ منظور کروانا بھی مشکل نہیں ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali