مریم بلاول ملاقات نے حکومت کو بحران سے نکلنے کا راستہ فراہم کیا ہے


مریم نواز کی دعوت پر بلاول بھٹو زرادری نے آج جاتی عمرہ کا دورہ کیا۔ یہ ملاقات گزشتہ ماہ اسلام آباد میں بلاول کی افطار پارٹی کے موقع پر مریم نواز کی مسلم لیگ (ن) کے دیگر لیڈروں کے ہمراہ زرداری ہاؤس آمد اور باہمی مواصلت قائم کرنے کا تسلسل ہے۔ تاہم تازہ ملاقات آصف زرداری اور فریال تالپور کے علاوہ حمزہ شہباز کی نیب کے ہاتھوں گرفتاریوں کے بعد زیادہ اہم ہوگئی ہے۔ اس ملاقات کے بعد جس نکتہ پر زور دیا گیا ہے وہ عدلیہ کی مکمل آزادی ہے۔

اس دوران تحریک انصاف کی حکومت نے اپنا پہلا بجٹ پیش کیا ہے جس میں محاصل کا ہدف ساڑھے پانچ ہزار ارب روپے مقرر کرنے کے علاوہ تعلیم اور صحت کے بجٹ میں تیس سے چالیس فیصد کمی کی گئی ہے۔ ابھی یہ امور پارلیمانی مباحث اور سیاسی بیان بازی تک محدود ہیں لیکن بجٹ منظور ہونے اور اس کے اثرات عوام کو منتقل ہونے کے ساتھ ملک میں بے چینی اور غم و غصہ پیدا ہونا ضروری ہے۔ اپوزیشن اس صورت حال کو حکومت کے خلاف تحریک چلانے اور عوام کی مایوسی کو سیاسی تبدیلی کے ایجنڈا میں بدل سکتی ہے۔ اس تناظر میں ملک کی دو اہم پارٹیوں کی نوجوان قیادت کے درمیان ملاقات اور مشاورت بہت اہمیت رکھتی ہے۔

اس وقت تک مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی پر عملی طور سے نواز شریف اور آصف زرداری کا کنٹرول ہے۔ لیکن نئے سیاسی ماحول اور ملک میں نوجوان آبادی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی رفتار کی وجہ سے نوجوان قائدین کا سامنے آنا اور نئے لب و لہجہ اور سیاسی رویہ کے ساتھ قیادت فراہم کرنا وقت کی ضرورت بھی ہے اور سیاسی لحاظ سے بھی اہم ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے اپنی کم عمری اور قومی اسمبلی میں پہلی بار منتخب ہونے کے باوجود پارلیمنٹ کے اندر اور باہر قومی امور پر غیر معمولی صلاحیت اور اصول پسند رویہ کا مظاہرہ کیا ہے۔

اسی طرح مریم نواز کے پاس اگرچہ چند ہفتے پہلے تک پارٹی کا کوئی عہدہ بھی نہیں تھا اور وہ عدالتی فیصلہ کی وجہ سے قومی اسمبلی کا انتخاب بھی نہیں لڑ سکی تھیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے نواز شریف کی نا اہلی، قید اور پارٹی کے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد تسلسل سے سیاسی شعور اور چابکدستی کے علاوہ جرات و ہمت کا مظاہرہ کیا ہے۔ کوئی بڑی انہونی نہ ہونے کی صورت میں وہ بلاشبہ اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پارٹی کی قیادت کا منصب سنبھالنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

ملک اور اپنی اپنی پارٹیوں کو درپیش چیلنجز کے علاوہ، ان دونوں کو اس الزام کا شدت سے سامنا ہے کہ وہ اپنے اپنے والد کو کرپشن کے الزامات سے بچانے کے لئے سر جوڑ کر بیٹھ رہے ہیں۔ اس الزام کے علاوہ موروثی سیاست کا بوجھ بھی الزام کی صورت میں ان کے راستے کی رکاوٹ ہے۔ ایسے ماحول میں سیاسی تعاون کی بنیاد تلاش کرنا آسان کام نہیں ہوگا۔ لیکن ان نوجوان قائدین سے توقع کی جانی چاہیے کہ موجودہ قومی بحران میں وہ عام لوگوں کو مایوس نہیں کریں گے۔ اپنے بزرگوں کی غلطیوں سے سبق سیکھیں گے اور میثاق جمہوریت کی شکل میں جو قابل عمل اور خوشگوار میراث انہیں میسر ہے، اس کے مطابق ملک کے سیاسی ماحول کو انتشار، تصادم، ذاتی عناد اور بے بنیاد الزام تراشی سے پاک کرنے کے کام کا آغاز کرسکیں گے۔

نواز شریف اور آصف زرداری کے مقید ہونے کی صورت میں بلاول اور مریم کی سیاسی جد و جہد کو ’باپ بچاؤ‘ تحریک کا نام دینا اور اس مقصد کے لئے تمام سرکاری اور غیرسرکاری ذرائع کو استعمال میں لانا، حکومت کی کم ظرفی اور سیاسی بدحواسی کا مظاہرہ ہے۔ تحریک انصاف ایک طرف عدالتوں کی خود مختاری پر یقین کا اظہار کرتی ہے اور دوسری طرف مریم اور بلاول کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے وہ دراصل اس اعتماد کی خود ہی توہین کرنے کا سبب بنتی ہے۔ اگر ملک کا تین بار وزیراعظم رہنے والا شخص اور سابق صدر اس وقت عدالتوں کے احکامات کی وجہ سے جیل میں ہیں تو ان کے بچے کیوں کر انہیں جیلوں سے نکالنے کے لئے مہم جوئی کرسکتے ہیں۔

عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ جو نظام سہولت حاصل کرنے کے لئے استعمال ہوسکتا ہے، اس پر اس وقت ان کا ہی کنٹرول ہے۔ اس کے باوجود جب وزیر اعظم اپنی تقریروں میں سابق حکمرانوں پر الزام تراشی کو ہی سیاسی سرخروئی کا راستہ سمجھتے ہیں تو وہ درحقیقت اپنی اس کمزوری کا اظہار کررہے ہوتے ہیں کہ حکومتی اداروں پر ان کی گرفت کمزور ہے۔ دوسروں پر دشنام طرازی اس کا حل نہیں ہو سکتا بلکہ تحریک انصاف کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ الزام تراشی اور جھوٹے اعداد و شمار کی بنیاد پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرنے کوششیں خود پارٹی کے انتہائی پرجوش حامیوں کو بھی مایوس کرنے کا سبب بنیں گی۔ جن عناصر نے بھی نے کچھ غلط کیا ہے، ملکی عدالتی نظام کو ان سے نمٹنے دیا جائے۔ اور حکومت وہ کام کرے جس مقصد کے لئے عوام نے اسے منتخب کیا ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ ذمہ داری قبول کرنے اور مسائل کا سامنا کرنے کی بجائے دوسروں پر الزام لگاتے ہوئے خود کو عوام کے سامنے سرخرو کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ انتہائی مایوس کن بجٹ پیش کرنے کے بعد وزیر اعظم کا درشت اور دھمکی آمیز لب و لہجہ میں قوم سے خطاب، اس رویہ کی تازہ ترین مثال ہے۔ عمران خان کو سمجھنا چاہیے کہ سابقہ حکمرانوں کو جیلوں میں بھرنے سے عوام کی مشکلیں دور نہیں ہوں گی بلکہ اس کے لئے حکومت کو ڈیلیور کرنا پڑے گا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali