ریڈیو: بچپن اور جوانی کا ایک رومانس


مجھے آزاد کشمیر ریجن کا چارج سنبھالے ابھی تھوڑا عرصہ ہی ہوا تھا کہ ایک دن میری سیکریٹری نے فون کا بزر بجا کربتایا کہ ریڈیو پاکستان سے سٹیشن ڈایٔریکٹرصاحب بات کریں گے۔ لایٔن پر چودھری شکیل صاحب سٹیشن ڈایٔریکٹر ریڈیو پاکستان تھے۔ شاہ جی بینکنگ کے حوالے سے ریڈیو پر ایک پروگرام کرنا ہے۔ پہلے تو میں حیران ہوا پھر فورا جواب دیا کیوں نہیں جناب۔

انھوں نے پروگرام کا دن اور وقت بتایا اور فون بند کر دیا۔ جب میں نے اس حوالہ سے اپنے باس سے بات کی تو پتہ چلا کہCEO سے اجازت لینی پڑے گی۔ خیر اجازت لے کر مقررہ وقت پر ریڈیو سٹیشن پہنچے تو شکیل صاحب نے بذات خود ہمارا استقبال کیا۔ چونکہ ان سے پہلے سے کافی سلام دعا تھی اور وہ ان کے بڑے بھا ئی کا دوست ہونے کے ناطے بھی بہت عزت کرتے ہیں۔ اللہ انھیں خوش رکھے۔ انھوں نے پہلے ریڈیو کی عمارت کی باقاعدہ سیر کروا ئی اور پھر سٹوڈیو میں لے گیٔے اور پروگرام کرایا۔ یہ ریڈیو پر میرا پہلا لایٔیو پروگرام تھا جس وجہ سے بہت زیادہ ایکسایٔٹمنٹ بھی تھی۔ خوشی بھی ہو ئی کہ ایک دیرینہ خواہش کی تکمیل ہوئی۔

ریڈیو سے رومانس ہمارا بہت ہی پرانا ہے۔ 65 ء کی جنگ سے چند دن پہلے چچا جان انگلینڈ سے آیٔے اور اپنے ساتھ ریڈیو لے کر آیٔے۔ ان دنوں سہہ پہر کی چایٔے پر روزسارا خاندان صحن میں اکٹھا ہوتا۔ چارپایٔیوں کے درمیان ایک میز پر ریڈیو رکھا جاتا۔ چچی جان نے اس کا غلاف سی دیا تھا۔ میز پر غلاف کے اندر چھپے ہویٔے ریڈیو سے جب گانے کی آواز آتی تو ہم چھوٹے بہت ہی حیران ہوتے کہ اس چھوٹے سے ریڈیوکے اندر کیسے کو ئی گھس کر گارہا ہے۔

ہم سکول میں جا کر بھی شیخی بھگارتے کہ ہمارے گھر میں ریڈیو ہے۔ سکول سے واپس آ کر میں چچا کے کمرے سے ریڈیو اٹھا کر لے آتا اور اپنی جھولی میں رکھ کر سننے لگ جاتا۔ اس کے بعد دوسال بعد ہماری ایک کزن جن کے میاں ڈاکٹر تھے نے چھوٹا سا ٹرانسسٹر ریڈیو لیا۔ وہ خود کپڑے سیتی اور ان پر کڑھا ئی بھی کرتی تھیں۔ میں جب بھی دوپہر کے بعد ان کے گھر جاتا وہ آل انڈیا ریڈیو پر دھیمی آواز میں گانے سن رہی ہوتیں۔ میں ان کی نظر بچا کر لاہور سٹیشن لگا دیتا جہاں سے نورجہاں کے گانے آرہے ہوتے۔ تو وہ بہت ناراض ہوتیں اور دوبارہ سٹیشن بدل کر انڈین گانے لگا لیتیں اور ساتھ ساتھ مشین پر کپڑے سیتی جاتیں۔

1971 میں ابا جی نے جب اپنا ریڈیو لینے کا فیصلہ کیا۔ لیکن رشتہ داروں نے مخالفت کی کہ بچوں والا گھر ہے ان کی پڑھا ئی پر برا اثر پڑے گا۔ پھر دو ماہ بعد ایک دن جب ابا جی لاہور سے واپس پہنچے تو ان کے سامان میں دو بینڈ والا RGA کمپنی کا درمیانے سایٔز کا ریڈیو بھی تھا۔ جس کر دیکھ کر ہماری خوشی کا کو ئی ٹھکانا ہی نہیں تھا۔ ریڈیو اس وقت تک بیٹری سیلوں پر چلتا تھا۔ بیٹری سیلوں کا خرچہ بچانے اور پڑھا ئی کا حرج ہونے کی وجہ سے بچوں کے ریڈیو سننے پر پابندی لگی۔

جب ابا جی گھر میں ہوتے تو صرف خبروں کے لیٔے دن میں ریڈیو لگتا۔ پھر شام کو لاہور سٹیشن سے نظام دین اور چودھری صاحب کا پروگرام سوہنی دھرتی سارا خاندان بیٹھ کر سنتا۔ اس دوران گاؤں میں اور بہت سے لوگوں نے بھی ریڈیو لے لیٔے تھے۔ میں اس وقت ساتویں جماعت کا طالب علم تھا۔ میرے سالانہ امتحانات ہونے والے تھے۔ اس لیٔے خبروں کے علاوہ گھر میں ریڈیو سننے پر پابندی تھی۔ ہمارے پڑوسی جنہوں نے نیا نیا ریڈیو لیا تھا اونچی آواز میں چھت پر ریڈیوسنتے تھے۔

میرے منع کرنے کے باوجود وہ باز نہیں آیٔے تو میں نے سو ہنی دھرتی پروگرام میں خط لکھا کہ میرے پڑوسیوں کو سمجھایٔیں۔ ان کے اونچی آواز میں ریڈیو بجانے سے میری پڑھا ئی کا حرج ہوتا ہے۔ نظام دین صاحب نے پروگرام میں میرا خط پڑھا اور پڑوسیوں کو ہدایٔت کی کہ وہ ریڈیو آہستہ سنیں ورنہ ان کا ریڈیو ضبط کرلیں گے۔ پڑوسیوں نے یہ سن کر فورا ریڈیو بند کر دیا۔ صبح پڑوسی خاتون ابا جی کے پاس آیٔیں اور درخواست کی کہ ہمارا ریڈیو ضبط نہ کروایٔیں۔ ہم آہستہ آواز میں سنیں گیا اور آپ کے گھر ریڈیو کی آواز نہیں آیٔیگی۔ کتنے سادہ تھے اس دور کے لوگ۔

سوہنی دھرتی کے علاوہ والد صاحب آزاد کشمیر ریڈیو تراڑکھل سے میرے وطن پروگرام بہت زیادہ شوق سے سنتے تھے۔ یہ پروگرا م رات نو بجے شروع ہوتا جس کا آغاز کشمیری ترانے سے ہوتا تھا۔ راجہ افتخار علی اللہ لوک کے نام سے اور نورالدین اختر میر صاحب کے نام سے یہ پروگرام کرتے تھے۔ اس پروگرام کو مقبوضہ کشمیر میں بہت شوق سے سنا جاتا تھا۔ اس ریڈیو کی نشریات ریس کورس گراونڈ راولپنڈی کے نزدیک واقع ایک عمارت سے نشر ہوتی تھیں۔ راقم کو 1982 ء میں اپنے ایک دوست اور ممتاز ماہر تعلیم جناب ڈاکٹر غلام حسین اظہر صاحب کے ہمراہ اس ریڈیو سٹیشن جانے کا اتفاق ہوا۔ اس وقت وہاں تعینات جناب طاوس با نہالی صاحب نے ہمیں سارے ریڈیو کی سیر کرا ئی اور تمام شعبوں کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔

ساٹھ اور سترء کے عشروں کے درمیان میں ریڈیو سیلون سے گانے سننا ایک بہترین تفریح ہوتی تھی۔ اس وقت ریڈیو سیلون سے بہت اچھی موسیقی نشر ہوتی تھی۔ ان کا انتخاب زیادہ تر بہترین انڈین گانے ہوتے تھے اور یہ پروگرام رات نو بجے نشر ہوتا تھا۔

بی بی سی اردو کی نشریات کوبھی اس دور میں بزرگ اور سنجیدہ حلقوں میں ایک خاص اہمیت حاصل تھی۔ خاص کر ان کا پروگرا م سیربین اور خبریں سب شوق سے سنتے تھے۔ اورجنگ کے دنوں میں تو سبھی بی بی سی کی خبریں اور تبصرے غور سے سنتے تھے۔

آل انڈیا ریڈیو پر روز دن کو دو یا تین بجے آپ کی پسند کے نام سے گانوں کا ایک فرمایٔشی پروگرا م نشر ہوتا تھا۔ جس میں لوگوں کی پسند کے گانے سنایٔے جاتے تھے۔ اس پر ہر اتوار کے دن اسی وقت ہر دفعہ ایک انڈین فلم کا ساونڈ ٹریک نشر ہوتا تھا۔ آغاز میں فلم کا نام اس میں کام کرنے والے اداکاروں کے نام۔ موسیقار۔ گلوکاران۔ ہدایٔتکار۔ نغمہ نگار غرض ساری تفصیل دی جاتی۔ ہم اس پروگرا م کا پورا ہفتہ انتظار کرتے تھے۔ رات کو دس بجے سے گیارہ بجے یہاں سے فلمی موسیقی کا ہمارا پسندیدہ پروگرام میری پسند بھی نشر ہوتا تھا۔ جو میں سردیوں میں رضا ئی میں گھس کر اور گرمیوں میں چھت پر چارپا ئی پر لیٹ کر سنتا تھا۔ وہ بھی کیا بے فکری کا زمانہ تھا ۔

بہت سے دوسرے شہروں کی ریڈیو سروس ہمارے ہاں سنا ئی نہیں دیتی تھی۔ سب سے صاف آواز صرف لاہور ریڈیو سٹیشن کی تھی ۔ یہاں سے گرمیوں کی دوپہر وں میں بارہ اور ایک بجے کے درمیان ایک پروگرا م نشر ہوتا تھا جس کا نام تھا ۔ شیزان ہٹ پریڈ ۔ اس میں نیٔی فلموں کے گانے سننے کو ملتے تھے۔ اس کے علاوہ کچھ بیوٹی کریموں کے سپانسر شدہ گانوں کے پروگرام اور پاکستانی فلموں کے اشتہار گانوں اور ڈیٔیلاگ کے ساتھ چلتے تھے۔ سب کا بہت ہی پسندیدہ پروگرام اشفاق احمد کا تلقین شاہ تھا۔

یہ ایک ایسا اصلاحی اور سبق آموز پروگرام تھا جس کو چھوٹے بڑے سب ہی شوق سے سنتے تھے ۔ لیکن ریڈیو پاکستان کے ڈراموں کی تو کیا بات تھی۔ بہترین سبق آموز کہانیاں اور شستہ زبان۔ کو ئی پھکڑپن نہیں ہوتا تھا۔ الفاظ کی ادایٔیگی اور تلفظ کا خیال۔ کبھی کو ئی معیار سے گرا لفظ۔ شعر یا کو ئی جملہ کبھی اس ریڈیو سے نہیں سنا۔

اور نہ ہی کبھی کو ئی بیہودہ گانا ہم نے اس دور میں ریڈیو سے سنا۔ ریڈیو پاکستان کو آغاز سے ہی ذوالفقار بخاری جیسے جہاندیدہ لوگ چلانے والے تھے۔ خبریں پڑھنے کا معیار۔ ڈرامے۔ ہلکی پھلکی موسیقی کے پروگرام ریڈیو پاکستان کی ایک تاریخ ہے۔ یہاں سے سینکڑوں کی تعداد میں اداکار موسیقار کندن بن کر نکلے ہیں۔ اس پر لکھنے کے لیٔے ایک پوری کتاب چا یٔیے۔

پھر 1980 میں ٹی وی اور وی سی آر کا دور آ گیا تو ریڈیو کچھ پیچھے چلا گیا۔ لیکن پھر ایف ایم ریڈیو کی نشریات شروع ہونے سے ریڈیو کو ایک بار پھر دوام ملا۔ لوگوں نے پھر ریڈیو کی طرف رجوع کیا۔ نیٔے ریڈیو سیٹ خریدے۔ ایف ایم 100 اور 101 پر اچھے پروگرام پیش ہوتے رہے۔ لوگوں نے گاڑیوں میں بھی ریڈیو سننا شروع کیا۔

لیکن جو سن دو ہزار کے بعد ایف ایم پر طوفان بدتمیزی آیا۔ اس نے سنجیدہ اور پڑھے لکھے طبقے کو ریڈیو سے دور کر دیا ہے۔ اناونسرز اپنے لب و لہجہ اور زبان کا کو ئی خیال نہیں رکھتے۔ انگریزی اردو اور پنجابی کو ملا کر ایک نئی زبان انھوں نے ایجاد کر لی ہے۔ ریہرسل کا تو اب رواج ہی نہیں رہا اور مطالعہ اور کتابیں پڑھنے کا بھی کسی کو شوق نہیں ہے ادب سے خال خال لگاؤ رہ گیا ہے۔ آج کے دور میں ہماری نوجوان نسل محنت سے جی چراتی ہے۔

لیکن پھر بھی صورت حال اتنی بری بھی نہیں ہے کافی تعداد میں اچھے پڑھے لکھے اور ادبی شغف رکھنے والے بچے اور بچیاں ابھی اس فیلڈ میں موجود ہیں جن کی وجہ سے صورت حال میں بہتری آ رہی ہے

کافی گیپ کے بعد اب پھرمیں نے مقامی ایف ایم ریڈیوز پر مختلف موضوعات کے پروگراموں میں شرکت کرکے ایک مختلف حیثیت سے ریڈیوسے رشتہ جوڑا ہے جو انشا اللہ امید ہے کہ تا دیر قایٔم رہے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).