بجٹ، وزیراعظم کے آنسو اور اپوزیشن کا لتاڑا


وطن عزیز، مذعومہ اسلامی لیبارٹری میں ہم نے اسلام پر عمل کرنے کی تو کوئی سنجیدہ کاوش نہ کی البتہ اس نو مولود ریاست کے جسد ناتواں پر یوم ولادت سے وہ سیاسی تجربے کیے کہ آدھا جسم پہلے مفلوج ہوا اور اخرش کاٹ ڈالا گیا۔ لیکن ہماری افتادطبع پر اس سانحہ جانکاہ کا بھی کوئی اثر نہ ہوا اور ہم نے اسی جوش وخروش سے سیاسی پیوند کاری کا کام جاری رکھا۔ گزشتہ انتخابات کے بعد عنان حکومت جن مردان کار کے حوالے کی گئی ہے۔ ان کی کارکردگی دیکھ کر لگتا ہے کہ بیچاروں پر نا حق تہمت ہے مختاری کی۔ اور یہ بات ایسا راز ہے کہ گلی کی نکڑ کا حلوائی بھی اس سے واقف ہے کہ جو کروا رہا ہے امریکہ کروا رہا ہے۔

صاف چلی شفاف چلی کے بینر تلے اقتدار سنگھاسن تک پہنچنے والی جماعت گزشتہ اک عشرے سے بالعموم اور الیکشن مہم میں بالخصوص عوام کو خوشحالی کے وہ خواب دکھاتی رہی کہ وابستگان پی ٹی آئی کو یقین ہو گیا تھا کہ ملک عزیز کے تمام مسائل کا واحد حل ان کی پارٹی کی حکومت کے امرت دھارا میں ہے۔ اور جیسے ہی ان کی ممدوح پارٹی مقتدر ہو جائے گی تو دودھ شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔ شیر بکری ایک گھاٹ پر پانی پئیں گے۔ اور طیور خوش الحان خوشی و سرمستی کے گیت گاتے پھریں گے۔

ان سرمدی خوابوں کی امید لیے جب پی ٹی ائی سریر آرائے مسند ہوگئی۔ تو پتا چلا کہ ملکی خزانہ تو خالی ہے۔ ڈالر اور پٹرول کا ریٹ بڑھنے کی خبر ٹی وی سے ملنے کی خبریں بھی میڈیا پر نمودار ہوئیں۔ اس دوران جب حکومت سے کارکردگی بارے سوال ہوتا تو کہا جاتا کہ ابھی وقت دیا جائے۔ نئی نویلی حکومت سے فورا ایسے سوال نہ کیے جائیں۔ مراد سعید صاحب کے موعودہ اربوں ڈالر بھی باہر سے نہ آسکے۔ نہ خان صاحب کا ٹیکس کولیکشن کو ڈبل کرنے کا خواب گراں پورا ہو سکا۔

مانگنے کو معیوب اور خودکشی کو ہاتھ پھیلانے پر ترجیح دینے کی باتیں کرنے والی شخصیت کو ملکوں ملکوں پھرتے بھی چشم فلک نے دیکھا۔ لیکن خزانہ تھا کہ پھر بھی نہ بھر سکا۔ اور نوبت بہ ایں جا رسید کہ اسد عمر صاحب کو وزارت خزانہ کا قلمدان چھوڑنا پڑا۔ اور ان کے پیشرو نے آتے ہی آئی ایم ایف سے ان کی شرائط پر قرض لیا ہے۔ جس کو اپوزیشن ملک کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھنا قرار دے جکی ہے۔ یہ سب کچھ اس کے باوجود کرنا پڑا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ بھی متعدد بار کیا گیا۔

اور مہنگائی نے عوام کی زندگی دوبھر کر دی۔ معاشی محاذ پر پے درپے شکست نے حکومت کے ہاتھ پاؤں پھلا دیے تو پی ٹی آئی حکومت اور اس کے شہ دماغوں پر یہ عقدہ کھلا کہ معاشی معاملات اتنے سادہ اور آسان نہیں جتنا سہل دھرنا دینا، دلوانا اور سوچ کا تردد کیے بغیر بلا تکان بولے چلے جانا اور بے بنیاد، بے سرو پا، دروغ کی حدوں کو چھوتی ہوئی تنقید کا نشانہ ہر کسی کو بنائے چلے جانا ہے۔

اب مسئلہ یہ تھا کہ عوام کو ریلیف تو دے نہیں سکتے لیکن کارکردگی بھی دکھانی ہے۔ تو پھر اپوزیشن پر تنقید کے اسی پرانے منترے کو جاری کر دیا گیا۔ اور اب حال یہ ہے کہ پٹرول مہنگا کیوں ہوا؟ نواز شریف چور ہے۔ ڈالر کا ریٹ اوپر کیوں جا رہا ہے؟ زرداری کرپٹ ہے۔ مودی کی منتیں کیوں کر رہے ہو؟ فضل الرحمان ڈاکو ہے۔ کرکٹ ٹیم کی کارکردگی بری ہے۔ اسفند یار غدار ہے۔ ٹیکس اکٹھا کیوں نہیں کر سکے؟ اسحاق ڈار مفرور ہے۔ الغرض اپوزیشن اور ناقدین پر ایسے رکیک لفظی حملوں اور زبانی گولہ باری کرتے ہوئے پی ٹی ائی حکومت ماہ جون تک اگئی۔

اب مرحلہ درپیش تھا۔ اپنے دور حکومت کی کارکردگی کا جائزہ پیش کرنے کا اور نئے اقتصادی سال کے تخمینہ، بجٹ پیش کرنے کا۔ اس مرحلہ شوق کو بھی اسی نقد و جرح کے آزمودہ امرت دھارا کے ذریعے طے کرنے کی ٹھانی گئی۔ اور ان گنت حکومتی ترجمانوں کی بدولت احتساب فلم کا گرفتاریوں والا پرانا پرنٹ ہمراہ سائیڈ پروگرام ملکی میڈیا کی سکرین پر لگا دیا گیا۔ اور اقتصادی سروے۔ 19 2018 کی رونمائی کے دن سابق صدر آصف علی زرداری کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری ٹی وی سکرین پر چھائی رہی۔

اسی دوران خزانہ کے مدارالمہام حفیظ پاشا صاحب نے یہ اعتراف فر مایا کہ سال گزشتہ میں کوئی بھی معاشی ہدف حاصل نہیں کیا جا سکا۔ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے خاک نشینوں کی تعداد بڑھی۔ بے روزگاری میں اضافہ ہوا۔ ڈالر کے مقابل روپے کی بے توقیری مزید بڑھ گئی۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی بڑھ گیا۔ یہ دن تو زرداری صاحب کی بدولت بسہولت گزر گیا۔ اب بجٹ کا دن ان پہنچنا تو اس کے لیے حمزہ شہباز کی گرفتاری کا مصالحہ میڈیا کو بیچنے کے لیے دیا گیا۔

اور اس کی بازگشت میں سینکڑوں ارب روپے کے ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر لاد دیا گیا۔ بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن احتجاج کرتی رہی۔ لیکن حماد اظہر صاحب کے بجٹ تقریر مکمل کرنے پر وزیر اعظم صاحب نے اپوزیشن کو چڑانے کے لیے آرکسٹرا کے انسڑکڑ جیسا اشارہ کرنا ضروری سمجھا اور وزارت خزانہ کی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے پہلے ہی رات گئے وزیر اعظم قوم سے مخاطب ہو ئے اور بجٹ کی سختیوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے کی گزارش کی۔

نواز، شہباز، زرداری خاندانوں کی مبینہ کرپشن کی داستانیں مکرر سنانے کے بعد اپنے زیر سایہ ایک اعلی اختیاراتی کمیشن بنانے کا اعلان کر دیا۔ جس کی غایت یہ بیان فرمائی وزیر اعظم صاحب نے گزشتہ دس سالہ جمہوری دور میں 24 ہزار ارب قرضوں میں اضافے کا حساب ان تین خاندانوں سے لیا جائے گا۔ وزیر اعظم نے اپنے بے لاگ احتساب کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کیا، جان بھی چلی جائے تو بھی کرپٹ لوگوں کو نہیں چھوڑوں گا۔

اس دوران وزیر اعظم کی آنکھیں بھر آئیں اور آواز رندھ گئی۔ وزیر اعظم صاحب کا جذبہ اور عزم اپنی جگہ لیکن آج گلی کی نکڑ پر کریانے کی دوکان پر جانے والا غریب کیا خوشی خوشی واپس آئے گا؟ کیا بیمار بجے کی دوائی کا طلبگار میڈیکل سٹور سے خالی ہاتھ تو نہی لو ٹے گا؟ کیا اس برس بھی غریب کی بیٹی کے ہاتھ پیلے ہو سکیں گے؟ کیا کتابوں کی مہنگائی کسی پھول کو ورکشاپ کا چھوٹا بننے پر مجبور تو نہیں کریکی۔ ؟ اگر عوام کی اشک شوئی ہوئی تو وزیراعظم کے آنسو قیمتی ٹھہریں گے وگرنہ یہ اشک رائیگاں جائیں گے۔ اور اپوزیشن کا لتاڑا بطور کارکردگی مزید پیش نہ کیا جا سکے گا۔ اور خلق خدا کے دکھوں کو اپوزیشن نے زبان دیدی تو اقتدار سنگھاسن ڈولے گا۔ اور رکھوالے بھی عوامی غیظ و غضب کے علی الرغم اپکی حمایت نہ فرمائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).