کیا بجٹ بھی عوام دوست ہوتے ہیں


میرا تعلق تنخواہ دار طبقے سے ہے اور مہینے کے آخر میں مجھے یہ علم نہیں ہوتا کہ میرے پاس کچھ رقم بچے گی یا نہیں۔ یہی رائے پاکستان میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بیشتر افراد کی ہے۔ نئے پاکستان کو بنے کو دس ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اس عرصہ میں حکومت وقت نے عوام کو خاصا مایوس کیا ہے۔ اب تو خاصا مشکل ہو چکا ہے اپنی تنخواہ سے مہینے کا بجٹ ترتیب دیے سکیں۔ جب میں سوچتا ہوں کہ وہ دیہاڑی دار طبقہ جس کو ایک دن کام ملتا ہے تو دوسرے دن اسے کام نہیں ملتا وہ گھر کا خرچ کیسے پورا کرتا ہو گا۔

وہ اپنے معصوم بچوں کی معصوم خواہشیں کیسے پوری کرتا ہو گا۔ اب تو ضروریات زندگی کی بنیادی اشیاء خریدتے وقت بھی کئی بار سوچنا پڑتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا وہ ایک نیا پاکستان بنائیں گے جس میں غریب عوام کو پہلی ترجیح دی جائے گی ان کو غربت کی لکیر سے اوپر لایا جائے گا۔ لیکن ابھی تک نیا پاکستان نظر نہیں آرہا ہے۔ اس عرصے کے دوران اشیا ء خوردنوش کی قیمتوں میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

نئے پاکستان کے لیڈران مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں۔ اس مختصر دورانیے میں موجودہ حکومت تین بجٹ پیش کر چکی ہے۔ پہلے سالانہ بجٹ میں رہی سہی کسر بھی پوری کر دی گئی ہے۔ بجٹ سے کچھ دن پہلے خان صاحب نے کہا تھا کہ وہ غریب عوام کو ریلیف دیں گے لیکن پیش ہونے والے بجٹ میں جو چیزیں غریب کی پہنچ میں تھیں انھیں مزید مہنگا کر کے عوام کو ریلیف دیے دیا گیا ہے۔ آٹا، گھی، گیس، بجلی اور چینی پر ٹیکس بڑھا دیا گیا جس سے ملز مالکان کو اربوں کا فائدہ ہو گا۔

پٹرول، ڈیزل کے مہنگے ہونے کی وجہ سے ہر چیز خود بخود مہنگی ہو جاتی ہے۔ اشیائے ضروریہ عوام کی پہنچ سے باہر ہو رہی ہیں، لگائے جانے والے نئے ٹیکسوں سے مہنگائی اور بے روزگاری میں مزید اضافہ ہو گا۔ پاکستانی قوم نے تحریک انصاف سے امید لگائی تھی کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کریں گی۔ اقتدار میں آنے سے پہلے وزیراعظم صاحب پچھلی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہتے تھے ان کی اپنی ملز، کمپیناں اور مرغی فارم ہیں جس کی وجہ سے قیمتیں غریب کی پہنچ سے دور ہیں۔

آج جب وہ خود اقتدار کی کرسی پر بیٹھے ہیں تو خان صاحب کو چاہیے کہ وہ ملز، کمپیناں اور مرغی فارم بند کروا دیں لیکن وہ ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ مسئلہ ان ملز مالکان کا نہیں ہے مسئلہ سرمایہ دارانہ نظام کا ہے جس کی پیدوار کا عمل صرف منافعوں کے گرد ہی گھومتا ہے۔ اس میں شک نہیں ہے لوگ اپنی ضروریات کی اشیاء خریدتے ہیں۔ بنیادی اشیائے ضرورت اس لیے نہیں بنائی جاتی کہ ان کی لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے بلکہ ان کو بنانے کا مقصد صرف منافع کمانا ہوتا ہے۔

ریاست مدینہ کی باتیں کرنے والے خان صاحب کو چاہیے کہ وہ وطن پاکستان کو حقیقی معنوں میں ریاست مدینہ بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ان سرمایہ داروں کی طرف سے منافعوں کو ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھنے دے۔ اس وقت چکن کی قیمت 240 سے اوپر ہے اس وقت حکومت میں کون ہے جو مرغیوں کا کاروبار کر رہا ہے یا اب بھی مرغیوں کی قیمت اپوزیشن میں بیٹھے لوگ کر رہے ہیں۔ ہمارے وزیراعلی صاحب بڑے خوش ہو کر فرما رہے تھے اس حکومت نے عوام دوست بجٹ پیش کر دیا ہے کیا بجٹ بھی عوام دوست ہوتے ہیں یہ کیسا عوام دوست بجٹ ہے جس میں غریب اور کم وسیلہ والے لوگوں پر بوجھ ڈالا گیا ہے۔

یہ کیسا عوام دوست بجٹ ہے جس میں ہر وہ چیز مہنگی کر دی گئی ہے جو روز مرہ استعمال میں آتی ہے۔ عوام دوست بجٹ اسے کہتے ہیں جس میں عوام کو ریلیف دیا جائے ان کو روزمرہ کی اشیاء سستے داموں مہیا کی جائیں۔ پاکستان میں سوئی تک اس قوم سے ٹیکسز وصول کیا جارہا ہے پھر بھی ہمارے وزیراعظم صاحب کہتے ہیں لوگ ٹیکسز نہیں دیتے، اگر ٹیکسز نہیں دیتے تو وہ امیر لوگ نہیں دیتے جو اس ملک کی جڑوں میں بیٹھے ہوئے ہیں غریب بندے کی کیا مجال کہ وہ ٹیکسز نہ دے۔

اس بجٹ میں مزدور کی تنخواہ 17500 کر دی ہے ہر سال مزدور کی تنخواہ میں اضافہ ہوتا ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا مزدور آج بھی 14000 سے کم تنخواہ لینے پر مجبور ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافے کی وجہ سے ملز مالکان اپنی مرضی کی تنخواہ دیتے ہیں جو مزدور مجبور اً لے لیتا ہے۔ حکومت کو چاہیے ایسا قانون بنائے اور ملز مالکان کو پابند کرے وہ حکومت کی مقرر کردہ تنخواہ مزدور کو دیں جو لوگ ایسا نہیں کرتے انہیں بھاری جرمانے کرنے چاہییں۔

امید ہے جرمانے کے ڈر سے ملز مالکان تنخواہ دینے کی پابندی ضرور کریں گے۔ اگر یہ مہنگائی اسی طرح بڑھتی رہی تو اپوزیشن جماعتیں اس تشویشناک مہنگائی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گی اور اپنے آپ کو کرپشن اور احتساب سے بچانے کے لیے متحد ہوکر حکومت کے خلاف تحریک چلائیں گی جو مہنگائی کی وجہ سے ایک پاپولر تحریک بھی بن سکتی ہے۔ حکومت کو اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے اس بڑھتی ہوئی مہنگائی کو روکنے کے لیے کوئی راستہ نکالنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).