قومی مفاد، جمہوریت، آئی ایس آئی کا نیا سربراہ اور الزام کی زد پر آیا ہؤا منصف


یہ سادہ سی خبر ہے اور ملک میں معمول کے مطابق اسے پڑھا اور قبول کیا جانا چاہئے۔ وزیر اعظم کو اختیار حاصل ہے کہ وہ آرمی چیف کی مشاورت سے آئی ایس آئی کا سربراہ مقرر کریں اور لوگ اس تقرری کو قبول کر لیں۔ یوں بھی فوج کے نظم و نسق اور معاملات میں سویلین رائے زنی ناقابل قبول ہے۔ بعض صورتوں میں اس قسم کی حرکت قابل گرفت بھی ہو سکتی ہے۔ جس کی پاداش میں غداری سے لے کر قانون شکنی کی متعدد دفعات کا اطلاق ممکن ہے۔ تاہم سوال ہے کہ کیا فیض آباد دھرنا فیم کسی لیفٹیننٹ جنرل کو آئی ایس آئی کا سربراہ بنانے کی خبر پر خاموش رہا جا سکتا ہے؟ اور پھر یہ دعویٰ بھی کیا جا سکتا ہے کہ اس ملک میں جمہوریت ہی غالب نظام ہے اور تمام فیصلے پارلیمنٹ میں ہوتے ہیں؟

یوں تو ملک کا وزیر اعظم بھی پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لے کر ہی اس منصب پر فائز ہؤا ہے۔ لیکن ملک کی اپوزیشن پارٹیاں اسے ’سیلیکٹڈ‘ وزیر اعظم ہونے کا طعنہ دیتی ہیں۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف موجودہ وزیر اعظم کی طرف سے آئی ایس آئی کی سربراہی کے لئے منتخب جنرل پر سیاسی انجینئرنگ کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ 2017 کے فیض آباد دھرنا کے دوران لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے جو اس وقت میجر جنرل تھے، سہولت کار کی خدمات سرانجام دی تھیں۔ وہ اس وقت آئی ایس آئی میں شعبہ داخلی سیکورٹی کے سربراہ تھے۔

اس دھرنے کو ختم کرنے کے لئے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی خواہش کے برعکس فوج کی طرف سے ’اپنے ہی لوگوں سے تصادم‘ سے گریز کیا گیا تھا۔ نتیجتاً آئی ایس آئی کے ایک شعبہ کے سربراہ کے طور پر فیض حمید نے نہ صرف حکومت اور مظاہرین کے درمیان ثالث کا کردار ادا کیا بلکہ ان دونوں کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں ضامن کا رول بھی نبھایا۔ نومبر 2017 میں ہونے والے اس چھے نکاتی معاہدہ میں جنرل فیض حمید کا نام ضامن کے طور پر درج ہے جسے وساطت کا نام دیا گیا تھا۔ بعد میں یہی جنرل صاحب تین ہفتے تک اسلام آباد کے شہریوں کا ناطقہ بند کرنے اور ریاستی اتھارٹی اور اس کی علامتوں کو للکارنے والے دھرنے کے شرکا میں نقد رقم کے لفافے بانٹتے ہوئے پائے گئے تھے۔ اس کے بارے میں فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو حکومت کی طرف سے گھر جانے کے لئے کرایہ دیا گیا تھا۔ تاہم اس ویڈیو نے خوب شہرت پائی اور اس بات کی دھوم رہی کہ یہ لفافے کسی حق خدمت کے عوض بانٹے گئے تھے۔

اس وقت حکومت کو تو اس ’بے ادائی‘ پر بات کرنے، ایکشن لینے یا وضاحت کرنے کی توفیق نہیں ہوئی لیکن  سوشل میڈیا اور دیگر فورمز پر اس معاملہ اور جنرل فیض حمید کے کردار کے حوالے سے بحث اس قدر گرم رہی کہ آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور کو 10 جولائی 2018 کو منعقد ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں کہنا پڑا کہ ’لوگ جنرل فیض پر انگشت نمائی کرتے ہیں لیکن وہ ان کے کردار سے آگاہ نہیں ہیں۔ آپ اس بات کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے کہ ان کے شعبہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کیا کردار ادا کیا ہے۔ اگر ان کے بارے میں ہونے والی قیاس آرائیاں درست بھی ہیں تو یہ ان خدمات کا پانچ فیصد بھی نہیں ہے جو جنرل فیض کا شعبہ اور ادارہ سرانجام دے رہا ہے۔ میں جن دہشت گرد حملوں کو ناکام بنانے کے بارے میں آپ کو بتاتا رہتا ہوں، یہ انہی کے شعبہ کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے‘۔

لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو رواں برس اپریل میں میجر جنرل سے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی۔ یوم پاکستان کے موقع پر صدرِ پاکستان نے انہیں ہلال امتیاز ملٹری کے اعزاز سے بھی نوازا تھا جس کے بعد سوشل میڈیا پر اس معاملے پر سوال اٹھے تھے کہ ایک ایسے فوجی افسر کو کیسے اعزاز سے نوازا جا سکتا ہے جو مبینہ طور پر سیاسی معاملات میں ملوث رہے ہوں۔ جنرل فیض حمید کو سخت گیر فوجی افسر اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا معتمد ہونے کی شہرت حاصل ہے۔ پاکستان کے عسکری امور پر نظر رکھنے والی مصنفہ اور تجزیہ نگار عائشہ صدیقہ کا خیال ہے کہ ’اس تقرری سے یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ فوج معاملات پر کنٹرول کرنے کی سخت گیر پالیسی ترک کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی‘۔ یہ تقرری اس حوالے سے بھی حیران کن ہے کہ انہیں لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کی جگہ آئی ایس آئی کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا ہے جنہیں گوجرانوالہ کا کور کمانڈر بنایا گیا ہے۔ جنرل منیر کو اکتوبر میں آئی ایس آئی کا سربراہ بنایا گیا تھا اور عام طور سے یہ عہدہ تین برس کے لئے دیا جاتا ہے۔ تاہم فوج کی طرف سے آٹھ ماہ کی مختصر مدت کے بعد ہی آئی ایس آئی کا سربراہ تبدیل کرنے کی حکمت بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔

جنرل حمید کی ترقی، اعزاز اور اب نئی ذمہ داری پر تقرری کے اقدامات فروری میں فیض آباد دھرنا کیس میں سامنے آنے والے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد سامنے آئے ہیں۔ گویا دانستہ یا نادانستہ یہ تاثر پختہ کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کی رائے اور حکم کے باوجود فوج اور اب ملک کے وزیر اعظم کو بھی ایک ایسے افسر کی ترقی و تقرری کے بارے میں کوئی پریشانی لاحق نہیں ہے جس پر سیاسی معاملات میں مداخلت کا الزام ہے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لکھے گئے فیصلہ میں عدالت عظمیٰ، وزارت دفاع کو حکم دے چکی ہے کہ وہ افواج پاکستان کے سربراہان کے ذریعے ان تمام افسروں کے خلاف کارروائی کو یقینی بنائے جو سیاسی معاملات میں مداخلت کے ذریعے اپنے عہدے کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس فیصلہ کے خلاف حکومت اور آئی ایس آئی کی طرف سے نظر ثانی کی اپیلیں دائر کی گئی ہیں لیکن سپریم کورٹ نے ابھی تک ان کی سماعت مقرر نہیں کی ہے۔ اس طرح عملی طور سے فروری میں صادر ہونے والا فیصلہ ابھی تک حتمی ہے۔

اس پس منظر میں یہ بھی محض اتفاق نہیں ہوسکتا کہ فیض آباد دھرنا کیس میں یہ جرات مندانہ فیصلہ دینے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اس وقت حکومت کے ریفرنس کا سامنا ہے جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ’مس کنڈکٹ‘ کی پاداش میں انہیں اس عہدہ جلیلہ سے برطرف کیا جائے۔ اس ریفرنس پر ملک بھر کے وکیل شدید احتجاج کررہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت اس ریفرنس کو عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دے چکی ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے اس معاملہ پر آنے والا کوئی بھی فیصلہ ملک کی سیاست پر دوررس اثرات مرتب کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آئی ایس آئی کو ایک سخت گیر افسر کی شہرت رکھنے والے شخص کے حوالے کر کے اس رد عمل سے نمٹنے کی تیاری کی جا رہی ہے؟

یہ سوال البتہ خام قیاس آرائی بھی قرار دیا جاسکتا ہے اور یہ استفسار کرنا کسی قدر مشکل بھی ہے لیکن اسے بیان کئے بغیر چارہ نہیں ہے کہ کیا صرف کمزور اور معتوب لوگ ہی سپریم کورٹ کے فیصلوں کی خلاف ورزی یا ان پر عمل درآمد سے انکار کی پاداش میں توہین عدالت کے الزام میں دھرے جا سکتے ہیں۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے ’سنہری دور‘ کی یادیں ابھی قومی حافظہ سے محو نہیں ہوئیں جب نامی گرامی سیاست دان اور وزیر ’توہین عدالت‘ پر معافیاں مانگتے تھے لیکن انہیں مسترد کرتے ہوئے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت انصاف کی سربلندی اور عدالتوں کے احترام کا پرچم سربلند رکھنا چاہتی تھی۔ اب عدالت بھی خاموش ہے اور حکومت کے سربراہ کو اس بدعملی اور عدالتی فیصلوں کے برعکس تقرری کرنے پر کسی سوال کا بھی سامنا نہیں ہے۔

فیض آباد دھرنے کے کردار اب ماضی کا حصہ بن چکے۔ ججوں سے لے کر جرنیلوں تک کو للکارنے والے اب خود معافی تلافی کے لئے درخواستیں دائر کر رہے ہیں۔ لیکن نہ تو حکومت اور نہ ہی فوج نے ابھی تک فیض آباد دھرنا کی وجہ تسمیہ اور لبیک تحریک کے ابھرنے اور پھر پانی کے بلبلے کی طرح بیٹھ جانے کی کوئی وضاحت نہیں کی ہے۔ کیا معاملات کی اس پیش رفت سے صرف یہ یقین دلانا مقصود تھا کہ حکمرانی کے مراکز کے بارے میں از قسم محکمہ زراعت یا خلائی مخلوق جو اصطلاحات مستعمل ہیں، انہیں درست سمجھا جائے۔ اور مان لیا جائے کہ منتخب نمائیندے اور حکومت اس ملک کو درپیش مسائل حل کرنے کے مجاز نہیں ہیں؟ کیا عمران خان جنرل فیض حمید کی تقرری کی منظوری دیتے ہوئے یہ تسلیم کر رہے تھے کہ اپوزیشن جب انہیں نامزد وزیر اعظم کہتی ہے تو وہ سچ بول رہی ہوتی ہے۔ تاہم اپوزیشن کی مجبوری بھی صرف یہ ہے کہ وہ نامزد ہونے والے کا نام تو لے پاتی ہے لیکن نامزدگی کرنے والے کا ذکر بین السطور ہی سمجھا اور سمجھایا جا سکتا ہے۔

اگر یہی اس ملک کا سب سے بڑا سچ ہے کہ جمہوریت ڈھونگ اور سیاست دان بدعنوان ہے۔ اگر فوج اور اس کے ادارے ہی ملک کے خیر خواہ اور باقی سب لٹیرے اور دشمنوں کے ایجنٹ ہیں۔ اگر عسکری بادشاہت کے ذریعے ہی ملک کے معاملات طے ہوسکتے ہیں۔ اگر فوج کی برکت سے ہی ملک دنیا میں سرخرو ہو گا، غریب کے گھر کا چولہا جلے گا اور امن و امان کا بول بالا ہوگا تو اس کا اعلان کرنے میں کون سی چیز مانع ہے۔ جمہوریت کے نام پر یہی کھلواڑ کرنا ہے تو عمران خان خود کو کس منہ سے عوام کا نمائندہ اور اس ملک کا کھیون ہار قرار دینے کا حوصلہ کرتے ہیں۔ وزیر اعظم ذرا حوصلہ دکھائیں اور بتائیں کہ وہ کس کے نمائندے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali